0
Monday 19 May 2014 13:22

کبھی شر خیر کا پیش خیمہ قرار پاتا ہے

کبھی شر خیر کا پیش خیمہ قرار پاتا ہے
تحریر: علامہ سید محمد سبطین شیرازی

کوئی بھی ایسا عنوان یا موضوع جو ملت کی وحدت اور مرکزیت کا سبب بنے، اسے محکم تر بنانا وسیع تر قومی مفادات کے لیے نہایت ضروری ہوتا ہے۔ عالمی استعمار نے ہمیشہ تاریخ کی اہم شخصیات کے فروعی اختلافات کو متنازعہ بنا کر ان کے ناموں پر مسلمانوں کو تقسیم رکھا اور تقسیم در تقسیم کا یہ عمل ’’ان کی تقسیم کرو اور حکومت فرماؤ‘‘ کی پالیسی کا مظہر رہا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان چاہے اس کا تعلق کسی بھی اسلامی مکتب فکر یا مسلک سے ہو، اہل بیت اطہارؑ، صحابہ کرامؓ اور ازواج رسولؐ کے بارے میں عقیدت و احترام کے جذبات رکھتا ہے، جس کی کئی مثالیں ماضی میں موجود ہیں کہ جب بھی شان رسالت و اہل بیت اور ناموس صحابہ و ازواج میں کسی نے کوئی گستاخی کی تو پورا عالم اسلام اس پر سراپا احتجاج بن گیا اور تمام دینی مسالک کے لوگوں نے ایسے مواقع پر ہمیشہ ملی یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور عالم کفر کو پیغام دیا کہ بے شک مسلمانوں کے درمیان فقہی اور نظری اختلافات موجود ہیں لیکن ان کی موجودگی کے باوجود تمام مسلمان مودت اہلبیتؑ احترام صحابہ و ازواج رسول پر ایک ہی نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔
 
ماضی میں ملک کے اندر جب تکفیریت کا جن بوتل سے باہر آگیا تھا تو ان حالات میں پاکستان کے دینی مسالک کے جید علماء کرام نے ملی یکجہتی کونسل کا پلیٹ فارم تشکیل دیا اور ایک مشترکہ ضابطۂ اخلاق پر دستخط کیے، تاکہ ملک کے اندر کسی بھی شرپسند کو یہ موقع نہ ملے کہ وہ اہل بیت اطہارؑ، صحابہ کرامؓ، ازواج رسولؐ کی توہین کی آڑ میں ملک کی فضا کو مخدوش کرے اور ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے، ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس ضابطہ اخلاق کے منظور ہونے کے باوجود بھی بعض عاقبت نااندیش مذہبی گروہ ایک دوسرے کے مقدسات کو نشانہ بناتے رہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی اس حرکت کو ان کے ذاتی مفادات کا کھیل کہا جاتا رہا اور کوئی بھی صحیح العقیدہ مسلمان ان کے اس عمل کی تائید میں نہیں تھا۔
 
اسی بات کو بھانپتے ہوئے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایک فتویٰ جاری کیا کہ اہل سنت کے مقدسات اور خاص طور پر ازواج رسولؐ کی توہین حرام ہے۔ حال ہی میں جیو ٹی وی نے دامادِ رسول ابوالآئمہ حضرت علی ابن ابی طالب اور دختر رسول خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہراؑ کی شان میں لکھی گئی ایک منقبت کو جس طرح لھو و لعب کی محفل کا نشانہ بنایا اور جس فحاشی و عریانی کے ماحول میں ان ہستیوں کے ناموں کو غیر منطقی نسبتیں دی گئیں اور جو توہین آمیز رویہ دکھایا گیا، یہ ایک شرمناک عمل تھا لیکن اس کے ردعمل میں جس طرح قوم نے مذہبی بیداری اور ملی یکجہتی کا ثبوت دیا، وہ قابل ستائش اور خوش آئند ہے۔

اس احتجاج میں مسلمانوں کے ساتھ اقلیتی برادری نے بھی اہل بیت اطہارؑ کے ساتھ عقیدت کا اظہار اور قومی یکجہتی کا بے مثال مظاہرہ کیا ان پرامن مظاہروں نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ تمام مسلمان بشمول اقلیتی برادری مودت اہل بیت، احترام صحابہ اور ازواج مطہرات پر ایک ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عقیدت اس کی بنیاد کو باقی رکھ کر ہم اپنے دیگر فروعی اختلافات سے قطع نظر اپنے اندر ملی یکجہتی اور مذہبی رواداری کو فروغ دے سکتے ہیں۔ تمام دینی مسالک کے افراد اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ کسی کے بھی مقدسات کی توہین اچھا عمل نہیں ہے۔ آج اگر اقلیتی برادری نے ہمارا ساتھ دیا ہے تو ہمیں بھی اپنے اقلیتی بھائیوں کے شانہ بشانہ ہونا چاہیے، تاکہ ملک سے دہشت گردی، انتہا پسندی اور مذہبی منافرت کا خاتمہ کیا جاسکے۔ تاریخ کے کسی بھی تلخ موڑ کو بنیاد بنا کر اگر کوئی ایسا فعل کیا جائے، جس کے نتائج خون ریزی اور قتل و غارت گری کی صورت میں سامنے آنے کے امکانات ہوں، تو یہ صورت حال خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ تاریخ میں جو ہوا وہ ماضی کا ایک باب تھا، ہمیں تاریخ کے ان ابواب کو کھولنا چاہیے، جن سے ہمیں مثبت راہنمائی مل سکے، جس کے نتیجے میں ہم آج کی اسلام دشمن قوتوں کے عزائم کو ناکام بنا سکیں۔
خبر کا کوڈ : 384013
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش