0
Friday 23 May 2014 22:24

ہمہ جہت ترقی

ہمہ جہت ترقی
تحریر: جاوید عباس رضوی

مفصلات اور پسماندہ، دور افتادہ علاقوں کی ترقی کے لئے بعض معاشروں کے اندر جو پالیسی اور منصوبہ بندی اختیار کی جاتی ہے وہ حکمت سے خالی ہے کیوںکہ ملک کی ہمہ جہت ترقی اس سے بری طرح متاثر ہوتی ہے، مثلاً اگر لسانی، مذہبی جغرافیائی، سماجی، گروہی یا قبائلی اسباب کی بناء پر کوئی علاقہ یا کوئی کمیونٹی تعلیم و اقتصاد میں پسماندہ ہو یا براہ راست کسی سیاسی دباؤ، تشدد سینہ زوری کی وجہ سے اس علاقہ کو آگے (کسی مدت تک) بڑھنے کا موقعہ نہ ملا ہو اس کو پسماندہ طبقہ یا پسماندہ علاقہ قرار دے کر پروفیشنل ٹرنینگ کورسوں، ملازمتوں، تعلیمی اداروں میں داخلہ سہولتوں وغیرہ کے سلسلے میں ’’بیک ورڈ‘‘ طبقہ میں شامل کرکے ’’خصوصی رعایت‘‘ سے نوازنا، بطور مجموعی پوری قوم ملک و معاشرہ کے ساتھ نا انصافی بلکہ تشدّد کے مترادف ہے، مثلاً ایک قابل استاد کے مقابلے میں اس سے کم صلاحیت والے ناقابل استاد کو متعین کیا جائے یا کسی ڈاکٹر یا انجینئر وغیرہ کو یہ رعایت دی جائے تو یہ حق تلفی ہے اور پوری قوم کے حقِ استفادہ کو چھین لئے جانے کے مترادف ہے، اسی طرح اگر خواتین کو ’’ قابلیت‘‘ کے داؤ پر اس طرح کی خصوصی مراعت سے نوازا جائے سراسر ظلم ہے، اس سے مجموعی طور پر فرد اور کلی طور پر پوری قوم، اکبر الہ آبادی کے بقول۔ ’’شادی کی، نوکر ہوئے، ریٹایئر ہوکر مرگئے، کے شعر کی نذر ہوجاتی ہے، اس علاقہ،گروہ یا قوم سے ایماندار، با صلاحیت، محقق و مدبر اور صاحب خدمت و ایثار افراد کا پیدا ہوا مشکل ہوجاتا ہے، جن کے فیض سے قوم و ملک کے لئے عزّت، ترقی اور خود کفالت کا مقام پانے کی زیادہ گنجایش پیدی ہوتی ہے۔

چنانچہ ایسے حالات میں جن طبقوں سے وابستہ لوگوں کے حق تلف ہوجاتے ہیں ان کے دل میں ملک و معاشرہ کے تئیں (عموماً) تعاون و ہمدردی کا جذبہ کمزور پڑتا ہے، علاوہ از این متعدد افراد نفسیاتی طور پر متاثر ہوجاتے ہیں۔ ہاں البتہ ایسے علاقوں، گروہوں، طبقوں کی مجموعی، کلی ترقی کے موزون وسائل کے طور پر ان کے طلباء و طالبات کے لئے مفت کوچنگ سنٹروں، شہر و قصبہ جات میں ہوسٹلوں اور عوامی سطح پر معشیت میں پیش رفت کے لئے کواپریٹیو صنعتی یونٹوں، سوسائٹیز وغیرہ کی سہولیات و خصوصی مراعت کی فراہمی مناسب ہوگی، جس سے مادّی و اخلاقی دونوں طرح کی پیش رفت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، نیز ضرورت مند افراد کی مالی معاونت اور تعلیمی وظائف سے بھی تبدیلی لانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایسی صورتحال بھی مفصلات کی سطح پر سامنے آتی رہی ہے کہ دیہات والوں کو خصوصی طور پر اراضی مہیا کی جاتی ہے جس کو وہ ’’زراعت‘‘ کی بجائے فروخت کر کے شہروں اور قصبوں میں مکانات تعمیر کرتے ہیں یا صنعتی یونٹ چلاتے ہیں، جس سے اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے اس طرح کی بلا کسب و کارملی ہوئی مالیت غلط کاموں اور رشوت ستانی میں بھی صرف ہوتی ہے، اس طرح ملک و ملّت کی مجموعی پیداوار (افرادی، زرعی، صلاحیتی) متاثر ہوجاتی ہے جو اقتصاد کے لئے ریڑھ کی ہڑی کے مترادف ہوتی ہے۔

نام نہاد جمہوری نظام میں ووٹوں کو حاصل کرنے کے لئے جھوٹے وعدوں اور نامعقول نعروں سے بی سوء استفادہ کیا جاتا ہے، شہریوں اور دیہاتیوں کے درمیان، گروہوں کے درمیان، مذاہب کے درمیان، علاقوں کے درمیان، طبقوں کے درمیان، حتیٰ کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان،  تعصب آمیز نعرے بلند کر کے جذبات کو انگیختہ کیا جاتا ہے جو کوتاہ اندیشی اور خود غرضی ہے، جس سے گھروں، خاندانوں اور بستیوں کے خرمن امن میں آگ لگ جاتی ہے، کاروباری زندگی کے اندر حفظ و اعتماد کا ماحول مفقود ہوجاتا ہے، اسلام ایسے ناموں، نعروں کی بناء پر منافرتوں کو بھڑکانے اور کسی طبقہ یا علاقہ کو پسماندہ قرار دے کر اصل (ہمہ جہت) ترقی اور خود اعتمادی اور کمال کے حصول سے محروم رکھنے کی پالیسی اور منصوبہ بندی کی اجازت نہیں دیتا ہے، فرعون لوگوں کو جاہل رکھتا تھا، خوف و توہمات میں مبتلاء رکھتا تھا، گروہوں میں اختلاف پیدا کرتا تھا، قرآن میں اسکو مفسد کہا گیا ہے، اسلام اصول کی بنیاد پر تمام انسانوں کے درمیان امن و بھائی چارہ کی ترغیب دیتا ہے، خصوصاً ’’انما المومنون اخوۃ‘‘ کی دعوت اخوت سے اہل اسلام کو متحد ہونے کی تاکید کرتا ہے، اور انسان کی ہم آہنگ مادی و روحانی ترقی اور ہمہ جہت پیشرفت کا داعی ہے، اسلام کا مقصود نظامِ عدل ہے۔
خبر کا کوڈ : 385063
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش