0
Wednesday 11 Jun 2014 00:46

عراق میں داعش کے دہشت گردانہ حملے، شام میں شکست کا بدلہ لینے کی ناکام کوشش

عراق میں داعش کے دہشت گردانہ حملے، شام میں شکست کا بدلہ لینے کی ناکام کوشش
اسلام ٹائمز – گذشتہ ہفتے عراق کے شہر سامراء پر داعش کے دہشت گردوں نے دھاوا بول دیا۔ ان دہشت گردوں نے جن کی تعداد تقریبا 5 ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے نے سامراء میں عراقی پولیس اور فوج کے مراکز کو اپنا نشانہ بنایا۔ وہ اس شہر کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے اور اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئے۔ داعش کے دہشت گرد اپنے پہلے ہی حملے میں سامراء شہر کے 90 فیصد حصے پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے حرمین عسکریین [امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے روضہ مبارک] پر بھی قبضہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہاں پر موجود کم تعداد میں سیکورٹی فورسز کی شدید مزاحمت سے روبرو ہوئے اور اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔

شہر سامراء پر حملے کی خبر پھیلتے ہی عراق آرمی حرکت میں آ گئی اور بڑی تعداد میں جنگی ہیلی کاپٹرز اور لڑاکا طیاروں کو میدان جنگ کی جانب بھیج دیا گیا۔ سامراء شہر کو عراقی سیکورٹی فورسز نے اپنے محاصرے میں لے لیا۔ شہر میں فورا مارشل لاء لگاتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور حرمین عسکریین کی جانب جانے والے تمام راستے بلاک کر دیئے گئے۔ اسی طرح صوبہ صلاح الدین میں بھی تمام سیکورٹی فورسز کو ہائی الرٹ دے دیا گیا۔ سامراء میں بحرانی صورتحال کے بعد عراق آرمی کی 300 سے زائد بکتر بند گاڑیاں دہشت گردوں سے مقابلے کیلئے اس شہر میں بھیج دی گئیں۔ آخرکار سامراء شہر کو داعش کے تکفیری دہشت گرد عناصر سے مکمل طور پر پاک کر دیا گیا۔

داعش یا "الدولہ الاسلامیہ فی العراق و الشام" ایک تکفیری دہشت گرد گروہ ہے جو عراق پر امریکی اور برطانوی فوجی قبضے کے آغاز میں ہی امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے معرض وجود میں لایا گیا۔ اس گروہ نے 2004ء میں القاعدہ کی حمایت اور اس کے ساتھ اپنی وابستگی کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے دہشت گردانہ کاورائیاں تیز کر دیں۔ یہ گروہ اب القاعدہ عراق کے نام سے معروف ہے۔ 15 اکتوبر 2006ء کو اس دہشت گرد گروہ نے امارت اسلامی عراق کے تحت تمام چھوٹے دہشت گرد گروہوں کو اپنے اندر ضم کر لیا۔ اس وقت داعش میں بے شمار چھوٹے دہشت گرد گروہ بھی شامل ہو چکے ہیں۔ اسی طرح عراق کے سابق آمر صدام حسین کے دور میں بعث پارٹی سے وابستہ صدام حسین کے مخصوص فوجی دستے جو "فدائیان صدام" کے نام سے جانے جاتے تھے بھی داعش میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس تکفیری دہشت گرد گروہ کا مقصد عراق کے ایسے علاقوں میں خلافت اسلامی کا قیام تھا جہاں اہلسنت مسلمانوں کی اکثریت موجود ہے اور اسی طرح شام میں سرگرم حکومت مخالف تکفیری دہشت گرد گروہوں کو انسانی قوت فراہم کرنا تھا۔

تکفیری دہشت گرد گروہ داعش 2013ء کے وسط تک عراق میں تقریبا 1400 گھر تباہ کر چکی تھی۔ داعش کی جانب سے انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات میں 1996 عام شہری جاں بحق جبکہ 3021 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ 2014ء کے شروع میں عراق کے دو شہروں فلوجہ اور رمادی میں شروع ہونے والے احتجاج کے دوران داعش کو دوبارہ موقع میسر آیا اور اس نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں۔ عراق کی سیکورٹی فورسز نے فلوجہ اور رمادی میں اس دہشت گرد گروہ کا مقابلہ کرتے ہوئے اسے شکست سے دوچار کیا اور اس لڑائی میں داعش کا سربراہ بھی ہلاک ہو گیا۔

داعش کی جانب سے شہر سامراء پر ایک ایسے وقت دھاوا بولا گیا ہے جب شام کی سیکورٹی فورسز عراق کے مغربی حصے میں واقع صوبہ الانبار کے دو بڑے شہروں رمادی اور فلوجہ میں داعش کے خفیہ ٹھکانوں کے خلاف بھرپور فوجی کاروائی کرنے میں مصروف تھیں۔ اسی طرح شام کے شمال میں بھی داعش کو شدید شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہاں داعش ایک طرف شام کی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں شدید نقصان کی متحمل ہو رہی ہے تو دوسری طرف اسے النصرہ فرنٹ اور عوامی فورسز کے جانب سے بھی شدید حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فوجی ماہرین کی نظر میں تکفیری گروہ داعش بہت جلد عراق کے شہر فلوجہ سے عقب نشینی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ داعش نے حتمی شکست سے بچنے کیلئے سامراء میں ایک اور محاذ کھولنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ تکفیری دہشت گرد گروہ سامراء شہر پر قبضہ کر کے فلوجہ میں شکست کی صورت میں اسے اپنے نئے مرکز کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا۔ یہ گروہ اس خام خیالی کا شکار تھا کہ چونکہ شہر سامراء میں اہلسنت مسلمانوں کی اکثریت ہے لہذا وہ آسانی سے یہاں اپنا ایک مضبوط گڑھ بنا سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ چونکہ اس شہر میں حرمین عسکریین علیھما السلام جیسا متبرک مقام بھی موجود ہے لہذا اس شہر پر قبضہ کر کے وہ اسے اپنی ایک عظیم فتح قرار دے سکتے ہیں۔

سیاسی ماہرین کی نظر میں شہر سامراء پر داعش کے حملے کی ایک اور بڑی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ وہ یہ کہ چونکہ شام میں انتہائی پرامن ماحول میں صدارتی انتخابات کامیابی کے ساتھ منعقد ہو چکے ہیں لہذا تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اپنی اس عظیم شکست کا بدلہ عراق کی سرزمین پر لینا چاہتا تھا۔ شام میں مسلسل شکست کے باعث داعش نے عراق میں اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو مزید تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ دہشت گرد گروہ شام میں اپنی ناکامیوں کو عراق کی سرزمین پر ازالہ کرنا چاہتا ہے۔

ایران کے معروف سیاسی تجزیہ نگار سعداللہ زارعی نے اس بارے میں بعض انتہائی اہم نکات کی جانب اشارہ کیا ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں:

۱۔ تکفیری دہشت گرد گروہ اپریل 2012ء سے مئی 2013ء تک شام میں ایک انتہائی طاقتور دہشت گرد گروہ کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا جبکہ یہی گروہ اس سے پہلے دو بار شام آرمی سے کہیں زیادہ کمزور سیکورٹی فورسز کے مقابلے میں شکست فاش سے دوچار ہو چکا تھا۔ یعنی 2006ء میں عراق کی سیکورٹی فورسز اور 2007ء میں لبنان کی سیکورٹی فورسز کے مقابلے میں۔ دوسری طرف داعش نے ایک ایسے وقت اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں شام کے شمالی علاقوں سے عراق کے وسطی علاقوں میں منتقل کی ہیں جب عراق کی سیکورٹی فورسز 2006ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور اور مضبوط ہو چکی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کمزور دہشت گرد گروہ اچانک اتنا طاقتور کیسے ہو گیا؟ انتہائی واضح ہے کہ ایک دو سال کے اندر کسی دہشت گرد گروہ کا طاقت پکڑ لینا صرف اس کے اندرونی اسباب سے ممکن نہیں بلکہ بیرونی حمایت اور مدد کے بغیر ایسا نہیں ہو سکتا۔

۲۔ داعش کی وسیع پیمانے پر دہشت گردانہ سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک "قابل اطمینان مالی سپورٹ" سے برخوردار ہے۔ کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا دہشت گرد گروہ جس کے سالانہ اخراجات ایک ملک کے بجٹ سے بھی زیادہ ہوں مسلسل تین سالوں سے مختلف ممالک میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مصروف ہو؟ اتنے بڑے پیمانے پر فعالیت انجام دینے کیلئے عظیم مالی منابع درکار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف اس میں کوئی شک نہیں کہ عراق میں ائمہ معصومین علیھم السلام کے روضات مبارکہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا منصوبہ داعش کا ذاتی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ منحوس منصوبہ اس قدر ڈھکا چھپا بھی نہیں تھا کہ خلیج فارس میں موجود امریکی فورسز کے چیف کمانڈر کی نظروں سے اوجھل رہ گیا ہو۔ جبکہ اس سے قبل یہی چیف کمانڈر اسلامی مزاحمت کے چھوٹے سے چھوٹے اقدامات کی خبریں اوپر تک پہنچانے کا کام انجام دے چکا ہے جو بعد میں امریکہ کی نوکر حکومتوں تک پہنچتی رہی ہیں۔

۳۔ سامراء میں حرمین عسکریین علیھما السلام کو تباہ کرنے کی کوشش اور بزرگ شیعہ ھستیوں کی قبور مطہرہ کی توہین ایسا اقدام ہے جو وہابی افکار و نظریات سے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے جبکہ انجام شدہ تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ داعش میں سرگرم عراقی اور غیرعراقی دہشت گردوں کا تعلق زیادہ تر حنفی مذہب اور "فقہ حنفی" سے ہے جس کے مطابق بزرگان دین کی قبور مطہرہ کی تخریب کو حرام قرار دیا گیا ہے اور اسی طرح "اموات مومنین" کے احترام کو باعث ثواب قرار دیا گیا ہے۔ لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ بزرگان دین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی قبور مطہرہ کی توہین جیسے اقدامات داعش میں سرگرم دہشت گردوں کے اعتقادات سے منافی ہیں اور اس قسم کے اقدامات کے پیچھے جس کی ایک مثال شام میں بزرگ صحابی حضرت حجر بن عدی کے مزار مبارک کی شہادت ہے ایک مخصوص ٹولے کا ہاتھ ہے جو وہابیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسری طرف سامراء میں حرمین عسکریین علیھما السلام پر دہشت گردانہ حملے کا ناپاک منصوبہ ٹھیک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب سعودی عرب ایران کے خلاف شدید ناراضگی اور غصے کا اظہار کر رہا ہے۔ جیسا کہ العربیہ چینل نے بھی اس بات کا اعلان کیا ہے کہ خطے کے مختلف ایشوز پر سعودی عرب ایران کے مقابلے میں بری طرح ناکامی کا شکار ہوا ہے۔

۴۔ اس نکتے کی جانب بھی توجہ انتہائی ضروری ہے کہ ائمہ معصومین علیھم السلام اور بزرگان دین کے روضات مبارکہ اور قبور مطہرہ کی بے حرمتی اور ان کی تخریب اسلام دشمن قوتوں کے منصوبے کا اصلی مقصد نہیں بلکہ یہ اقدامات درحقیقت اصلی ہدف تک پہنچنے کیلئے ایک مقدمے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ داعش جیسے تکفیری دہشت گرد گروہ کے پیچھے کارفرما صہیونی، سعودی اور مغربی اسلام دشمن عناصر کا اصلی ہدف اہلسنت اور شیعہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کر کے مسلمانان عالم کے درمیان تفرقے کی آگ لگانا ہے۔ بزرگان دین اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی قبور مطہرہ اور روضات اقدسہ کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ اہل تشیع اور محب اہلبیت اہلسنت مسلمانوں کے دل میں ان ھستیوں سے عقیدت اور محبت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے لہذا اسلام دشمن عناصر نے اسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے ان پاک ھستیوں کی بے حرمتی کا راستہ اختیار کیا ہے تاکہ آسانی کے ساتھ مسلمانوں کو ایکدوسرے کے مقابلے قرار دیا جا سکے۔

حرمین عسکریین علیھما السلام کی بے حرمتی کے ناپاک منصوبے کا مقصد عراق کے شیعہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا کر وسیع پیمانے پر خانہ جنگی شروع کروانا تھا۔ اگر خدانخواستہ داعش کے احمق دہشت گرد حرمین عسکریین علیھما السلام کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے تو اس منحوس منصوبے کی تشکیل میں کارفرما اسلام دشمن عناصر کا خیال تھا کہ پورے عراق سے شیعہ مسلمان سامراء کی جانب امڈ آئیں گے اور یوں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان ایک خونریز جنگ کا آغاز ہو جائے گا۔ اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ داعش کے خودفروختہ اور کاسہ لیس دہشت گردوں نے جب سامراء کے شہر پر قبضہ کیا تو شہر میں واقع اہلسنت کی 4 بڑی مساجد سے یہ اعلانات کرنے لگے کہ:
"اے غیرت مند سنی مسلمانو، روافض کے خلاف میدان جہاد میں آ جاو اور ہمارے ساتھ ملحق ہو جاو"۔

اب یہ الگ بات ہے کہ سامراء شہر کے باشعور سنی برادران نے ان فتنہ انگیز مزدوروں کی دعوت کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس منحوس سازش کو ناکام بنا دیا۔ یہاں پر ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا "شیعہ سنی جنگ" کا نسخہ عراق کا مقامی نسخہ ہے یا باہر سے درآمد شدہ ہے؟ اگر ہم حنفی مذہب کی فقہ، اس مذہب سے تعلق رکھنے والے علماء کی تاریخ اور ان کے رویوں کے بارے میں تھوڑا مطالعہ کریں تو جان جائیں گے کہ حنفی مذہب کے بانی امامان اور حاضر علماء دونوں اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ دوسرے اسلامی مذاہب کے مقابلے میں احترام، صبر اور رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ تاریخ میں حنفی بزرگان دین نے ہمیشہ دوسرے اسلامی مذاہب جیسے تشیع، زیدیہ، اسماعیلیہ وغیرہ کے مقابلے میں مثالی رواداری اور ہمزیستی کا مظاہرہ کیا ہے۔

امام ابوحنیفہ جو امام ششم حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے کم از کم تین سال بڑے تھے ان کی شاگردی اختیار کی اور ہمیشہ آپ علیہ السلام کا شاگرد ہونے پر افتخار کیا کرتے تھے۔ امام ابوحنیفہ باقی اسلامی مذاہب سے بڑھ کر شیعہ مذہب کے مقابلے اسلامی رواداری اختیار کرنے پر تاکید کیا کرتے تھے۔ لہذا شام اور عراق کے مختلف شہروں جیسے فلوجہ، رمادی، سامراء اور موصل میں داعش کی جانب سے انسان سوز دہشت گردانہ اقدامات کا منشاء ہر گز مذہب یا دینی تعلیمات کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوسری طرف داعش کی تازہ ترین سرگرمیوں سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ لقمہ آل سعود کے منہ سے بھی بڑا ہے۔ کیونکہ اگر خدانخواستہ سامراء میں حرمین عسکریین علیھم السلام کو کوئی نقصان پہنچتا تو سعودی عرب بھی خود کو اس کے بھیانک اور غیرمتوقع ردعمل سے محفوظ تصور نہیں کر سکتا تھا۔

البتہ مغربی قوتیں اس تکفیری گروہ کے جاہل سربراہان جن کی نگاہیں صرف ظاہر تک محدود ہیں اور وہ حقائق کے باطن کو سمجھنے سے قاصر ہیں کی جہالت پر تکیہ کرتے ہوئے ایسے اقدام کی ترغیب دلا سکتی ہیں۔ جیسا کہ مغربی معاشروں میں مقدس شخصیات، مقدس مقامات اور مقدس کتب کی بے حرمتی کے واضح نمونے کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مغربی ممالک میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، مساجد اور قرآن کریم کی بے حرمتی پر مبنی اخلاق سے گرے ہوئے اقدامات بارہا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ 2010ء میں منحوس کشیش "ٹری جونز" کی جانب سے قرآن کریم کی بے حرمتی اور 2012ء میں فرانس، برطانیہ اور ڈنمارک کے رسمی اخباروں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بے حرمتی ایسے گھٹیا اقدامات کے واضح نمونے ہیں۔ وہ مغربی ممالک جنہوں نے ماضی میں ان اسلام دشمن اقدامات کو "آزادی بیان" اور "انسانی حقوق" کی آڑ میں جائز قرار دے کر ان کی حمایت کی ہے، انہیں شام اور عراق میں بزرگان دین کی قبور مطہرہ کی بے حرمتی پر مبنی اقدامات سے کیسے بری الذمہ قرار دیا جا سکتا ہے؟

لہذا ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے آسانی سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ انسانی تاریخ کے عظیم ترین ثقافتی مراکز اور مقدس ترین مقامات پر دہشت گردانہ کاروائیاں کوئی سادہ ایشو نہیں بلکہ اسے خطے میں انجام پانے والی اسلام دشمن سازشوں کے ساتھ رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 390818
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش