0
Tuesday 17 Jun 2014 20:25

عراق کے خلاف میڈیا دہشت گردی

عراق کے خلاف میڈیا دہشت گردی
اسلام ٹائمز [مانیٹرنگ ڈیسک] – ابھی عراق کے شمالی صوبے نینوا کے دارالحکومت موصل پر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش یا آئی ایس آئی ایس اور سابق عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کے بچے کھچے بعثی فوجی کمانڈرز کے قبضے کو کچھ دن ہی گزرے تھے کہ چند مغربی اور عربی ذرائع ابلاغ نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت عراق کے خلاف نفسیاتی جنگ کا آغاز کر دیا۔ ان ذرائع ابلاغ نے دنیا کے وحشی ترین دہشت گردوں کے حملے کو ایک حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس نفسیاتی جنگ کا انداز بالکل ویسا ہی تھا جو چند سال پہلے شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی سرگرمیاں شروع ہوتے وقت شام کے بارے میں اپنایا گیا تھا۔

بیت المقدس سے شائع ہونے والے ایک نشریے المنار کے مطابق یوسف قرضاوی جیسے بعض عرب شیوخ بھی اس نفسیاتی جنگ میں برابر کے شریک ہو گئے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں سرگرم "انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز" نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے دہشت گردوں کو "انقلابی" کا لقب دیتے ہوئے مرجع عالی قدر شیعیان جہان آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کی جانب سے تکفیری دہشت گردوں کے خلاف ہمہ جہت جہاد کے فتوے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے "اہلسنت کے خلاف ایک انقلاب" قرار دے دیا ہے۔ البتہ شیخ یوسف قرضاوی جیسے شخص سے ایسا موقف بعید بھی نہیں کیونکہ انہوں نے شام کے مسئلے میں بھی امریکہ اور قطر کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ایسے زہر آلود فتوے بھی دیئے جو ہزاروں شامی عوام کے قتل کا باعث بنے تھے۔

آج بھی انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز کی جانب سے عراق میں جاری بحران کے بارے میں موقف جس میں دہشت گردوں کی یلغار کو ایک پرامن عوامی جدوجہد قرار دیا گیا ہے درحقیقت ماضی میں انجام پانے والی فتنہ انگیزی اور امت مسلمہ کے اندر تفرقہ ڈالنے کی کوششوں کا ہی تسلسل نظر آتا ہے جس کا واحد مقصد اسرائیلی ناپاک منصوبے "گریٹر مڈل ایسٹ" کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ شیخ یوسف قرضاوی وہی شخص ہیں جنہوں نے شام کے معروف سنی عالم دین اور جامعہ مسجد اموی دمشق کے خطیب محمد سعید رمضان البوطی کے تکفیری دہشت گرد عناصر کے ہاتھوں وحشیانہ قتل پر مبارکباد پیش کی۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی عجیب موقف اختیار کئے جس میں عرب لیگ نے بھی ان کی ہمراہی کی۔

اگرچہ عرب دنیا میں پیش آنے والے مسائل میں عرب لیگ کا کردار ہمیشہ منفی اور دوسروں کے تابع رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب لیگ کا ہر موقف بین الاقوامی اداروں میں ایک قانونی شاہد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر لیبیا کے مسئلے میں عرب لیگ کی جانب سے سز جھنڈی دکھائے جانے کے بعد سے ہی اس ملک کی نابودی کا سلسلہ شروع ہوا اور اس کے بعد شام کے مسئلے میں بھی عرب لیگ کے گرین سگنل پر ہی انسانی امداد کے بہانے سے تکفیری دہشت گردوں کو بڑے پیمانے پر اسلحہ اور رقوم فراہم کی گئیں اور اس ملک میں ایک خوفناک خانہ جنگی کی آگ لگائی گئی۔

آج عراق کو توڑنے اور اس کے جغرافیائی نقشے کو تبدیل کرنے کی ایک اور کوشش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ دنیا والے کبھی بھی شام کے حکومت مخالف محاذ کے ایک معروف رہنما "مائیکل کلو" کے اس بیان کو فراموش نہیں کر سکتے جس میں اس نے عراق کے شہر موصل کے حالیہ واقعات کو ظلم کے خلاف اٹھنے والی ایک عوامی اور انقلابی تحریک قرار دیا ہے۔ ماضی کے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ جہاں بھی "عربی انقلاب" کی اصطلاح سننے میں آئی ہے وہاں کسی نہ کسی سازش کی بو محسوس کی گئی ہے۔ گریٹر مڈل ایسٹ منصوبے کے بانی عرب اسپرنگ یا عربی انقلاب کی آڑ میں اپنے شکست سے دوچار منصوبے کو ایک بار پھر حقیقت کا رنگ دینے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔

دہشت گردی اور دہشت گرد عناصر اور ان کے پیچھے کارفرما عوامل کا حقیقی مقصد مختلف ممالک میں موجود تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا ہے تاکہ اپنی مالی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے دوسروں کو آسانی سے خرید کر اپنا حامی بنا سکیں۔ ایسے حالات میں دنیا میں انسانی حقوق کے دعویداروں کی جانب سے عراق اور شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی جانب سے انجام پانے والے انسانی تاریخ کی بدترین مجرمانہ اقدامات سے آنکھیں موند لینا کوئی تعجب والی بات محسوس نہیں ہوتی۔ وہ حقیقت جس میں ذرہ برابر شک نہیں یہ ہے کہ عراق اور شام کی جانب سے مشترکہ فوجی کاروائی انسانی تاریخ کی اس عظیم دہشت گردی کو ہمیشہ کیلئے صفحہ ہستی سے محو کر دے گی۔ انشاءاللہ۔
خبر کا کوڈ : 392923
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش