0
Wednesday 6 Oct 2010 13:50

11 ستمبر، ایک اور مقدس گائے

11 ستمبر، ایک اور مقدس گائے
تحریر: سید علی جواد ہمدانی
ایران کے صدر محمود احمدی نژاد کے 24 ستمبر 2010 کو اقوام متحدہ کے اجلاس سے دھماکہ خیز خطاب نے انکے مخالفین کے درمیان شدید بوکھلاہٹ پھیلا دی ہے۔ اٹلی کے ماہرِ نفسیات "فرانچکو بارینی" نے آکی نیوز ایجنسی سے احمدی نژاد کی شخصیّت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ احمدی نژاد انتہائی سرد مزاج اور سوق الجیشی شخصیت (Strategic Personality) کے مالک ہیں اور مذاکرات کے دوران بڑے نپے تلے انداز میں مکمل معلومات پر مبنی بات کرتے ہیں جسکی وجہ سے حریفوں پر آسانی سے حاوی ہو جاتے ہیں۔
پیشے کے لحاظ سے لوہے کے کام سے منسلک، تہران کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے، لوہے کے مانند آہنی ارادے اور امیدوں سے مالامال ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے تہران کی معروف یونیورسٹی میں لیکچررشپ سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور 2003 میں تہران کے میئر اور پھر 2005 میں اپنے انقلابِ اسلامی کے اصولوں پر مبنی منشور کی بدولت اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر منتخب ہوئے اور اس وقت سے نمرود وقت اسرائیل اور امریکہ کے خلاف انقلابی اصولوں کے تحت ڈٹے ہوئے ہیں۔ جبکہ امریکہ ا پنی سر توڑ کوششوں کے باوجود انکے ارادوں میں ذرّہ بھر بھی لچک پیدا نہیں کر سکا۔
اس سال جب 11 ستمبر کا واقعہ ایک دفعہ پھر بڑی آب و تاب کے ساتھ منایا گیا اور اس واقعے کی سالانہ تقریب سے پہلے ہی گرانڈ زیرو پر بننے والے اسلامک سینٹر کی مخالفت اور پھر قرآن سوزی کا شدّت سے پرچار کیا گیا، تو ایک مرتبہ پھر انقلابِ اسلامی کے سپوت، احمدی نژاد نے اپنے خطاب میں اس اسلام مخالف مھاجمانہ یلغار کا بڑے منطقی انداز میں منہ توڑ جواب دیا اور اپنی تقریر میں 11 ستمبر کے واقعے کی اقوام متحدہ کے غیر جانبدارانہ کمیشن سے تحقیقات کا مطالبہ کیا، وہ واقعہ جسکی وجہ سے عراق، افغانستان اور پاکستان میں ہزاورں قیمتی جانیں ضائع اور عالمی سطح پر کروڑوں کا نقصان ہوا ہے۔ احمدی نژاد نے اقوام متحدہ سے 11 ستمبر کے بلیک باکس کو نہ فقط نئے سرے سے کھولنے کا کہا بلکہ اس ایڈونچر میں خود امریکہ کے شامل ہونے کے بارے میں کھل کر اظہار نظر کیا جسکی وجہ سے امریکہ اور صیہونی لابی بری طرح بلبلا اُٹھی ہے۔ ساتھ ہی احمدی نژاد نے اس تحقیق کا ہدف بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ضروری ہے کہ ایک آزاد کمیشن اس کالے کرتوت کا آزادانہ جائزہ لے ورنہ کچھ عرصے بعد اس واقعے کو بھی صیہونی ہولوکاسٹ کے افسانے کی طرح مقدّس بنا کر اسکے بارے میں بھی تحقیق کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آج ہولوکاسٹ کے افسانے میں یھودیوں کے مارے جانے والی 60 لاکھ کی تعداد پر بھی اگر کوئی شک یا تشویش کا اظہار کرے تو اسکی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے، رہا سوال اسکی مکمل نفی کرنے والوں کا!۔
احمدی نژاد کے 11 ستمبر اور ہولوکاسٹ سے متعلق دونوں سوال مکمل طور سے مستدل اور منطق پر مبنی ہیں۔ ہولوکاسٹ پر بھی احمدی نژاد کا پہلا سوال یہی ہے کہ آزادی بیان کے حامی مغربی ممالک اس افسانے کی تحقیق کرنے یا اس پر کسی کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟ اور اگر اس فرضی داستان کو سچ مان بھی لیا جائے تو اس بھیانک جرم کی تلافی فلسطینیوں کے سر کیوں؟۔ اگر یہ جرم یورپی سرزمین پر انجام پایا ہے تو اسکے تاوان یا بدلے میں یہودیوں کو ایک سرزمین وہاں ہی دی جانی چاہئے تھی!۔
اور اب دوسرا سوال یہ کہ 11 ستمبر 2001 کا واقعہ جسکو بنیاد بنا کر نیٹو اور امریکہ نے آدھی دنیا کو آگ میں جھونک رکھا ہے، تو اس مسئلے کی عالمی سطح پر اقوام متحدہ کو آزادانہ تحقیق کرنی چاہئے نہ یہ کہ صرف امریکی رپورٹ پر اکتفاء کرتے ہوئے امریکہ کو پوری دنیا میں دندنانے کا لائسنس عطا کر دینا چاہئے۔ اگر مسئلہ حقیقی ہو تو اس دہشتگردی کے خلاف سب ہی کو شریک ہونا چاہئے، جبکہ اس وقت خود امریکہ کے اندر ہی امریکن فری پریس (AFP) اور کئی اداروں اور شخصیات کی طرف سے اس واقعہ پر شکوک و شبہات اور امریکی صیہونی لابی کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت پیش کئے جا رہے ہیں۔ لہٰذا اس وقت اقوام متحدہ کا فرض بنتا ہے کہ 11 ستمبر کے اس "کالے ڈبے" کا نئے سرے سے تفصیلی جائزہ لے۔
احمدی نژاد کی اس تقریر کے بعد الجزیرہ نیوز چینل کی طرف سے امریکہ میں کرائے گئے ایک سروے میں تقریبا 83 فیصد شرکت کرنے والوں نے 11 ستمبر کے واقعے میں امریکی حکومت کو ملوث قرار دیا ہے!
اس سلسلے میں قارئین یو ٹیوب پر موجود AFP کی Loose Change، جسکا اردو ترجمہ بھی موجود ہے کو ابتدائی طور پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

خبر کا کوڈ : 39376
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش