0
Friday 27 Jun 2014 13:09

امریکہ عراق میں دہشتگردی اور افراتفری میں ملوث

امریکہ عراق میں دہشتگردی اور افراتفری میں ملوث
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)

عراق ایک مرتبہ پھر ذرائع ابلاغ کی ٹاپ اسٹوریز میں ہے، خصوصاً مغربی میڈیا تو کچھ زیاد ہ ہی سرگرم عمل نظر آ رہا ہے، مغربی میڈیا پر عراق کے حالات کی عجیب و غریب ہی تصویر کشی کا عمل جاری ہے، آدھا سچ بلکہ جھوٹ پر مبنی خبریں، منفی پراپیگنڈا سمیت ہر وہ قدم اٹھایا جا رہا ہے جس سے عالمی سامراج امریکہ کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ میں دعوے کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کا کوئی بھی ٹی وی چینل یا اخبار آپ کو یہ بات نہیں بتائے گا کہ امریکہ ہی ہے جو داعش نامی دہشت گرد گروہ کی مالی اور مسلح معاونت میں مصروف عمل ہے۔ آپ کو کسی بھی ذرائع ابلاغ سے ایسی خبر بالکل نہیں دی جا ئے گی کہ امریکہ دہشتگردوں کی عراق میں براہ راست مدد کر رہا ہے بلکہ ایسی خبریں ضرور دی جا رہی ہوں گی اور دی بھی جا رہی ہیں کہ امریکی صدر باراک اوبامہ کو عراق میں دہشت گردوں کی دہشت گردانہ کاروائیوں پر شدید تشویش ہے اور وہ انتہائی بےچین ہیں۔

مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے عراق کے حالات پر کی جانے والی رپورٹنگ میں آپ کو کبھی بھی یہ نہیں بتایا جائے گا کہ عراق کی موجودہ حالت کا ذمہ دار بھی خود واشنگٹن ہے، کیونکہ آپ کو بتایا ہی نہیں جائے گا کہ عراق سے دسمبر 2011ء میں امریکی افواج کے انخلاء کے باوجود اب بھی وہاں پر 200 سے زائد فوجی ٹروپس اور امریکی اعلیٰ سطح کے مشیر اور اہم ترین افراد موجود ہیں، آخر یہ افراد عراق میں کر کیا رہے ہیں؟ ان خبروں کو کبھی بھی کوئی بھی میڈیا اپنے ٹی وی چینل کی زینت نہیں بنائے گا۔ اس طرح کی بھی کوئی خبر شاید آپ کو نہیں بتائی جائے گی کہ جو امریکی اعلٰی سطحی عہدیدار آج بھی عراق میں موجود ہیں وہ داعش جیسی خطرناک دہشت گرد تنظیموں کی نہ صرف تربیت میں مصروف عمل ہیں بلکہ ان کو مالی وسائل کی فراہمی اور اسلحہ کی فراہمی کے لئے بھی سب سے اہم ترین وسیلہ یہی لوگ ہیں۔

ہمیشہ کی طرح ذرائع ابلاغ کے مرکزی ذرائع آپ کو کبھی یہ نہیں بتائیں گے کہ کیا ہو رہا ہے اور کس کی ایماء پر کیا جا رہا ہے، یہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی عالمی طاقتوں کے مفادات اور اپنے ذاتی فائدے کی خاطر حقیقت کے رخ کو موڑ توڑ کر پیش کریں گے اور یہ کام عراق پر داعش کے حملے کے پہلے روز سے ہی شروع کر دیا گیا ہے۔ یقینا اپنے مقاصد اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی خاطر یہ ذرائع آپ کو یہی بتائیں گے کہ عراق میں ''سول وار'' چل رہی ہے۔ عراق کو غیر مستحکم کرنا اور وہاں پر افراتفری پھیلانے کا منصوبہ امریکہ اور اسرائیل کا مشترکہ منصوبہ ہے جو صرف عراق تک محدود نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ یہ منصوبہ بندی کوئی ہنگامی بنیادوں پر نہیں کی گئی بلکہ امریکہ اور اسرائیل کی اس منصوبہ بندی کو کئی سالوں کا عرصہ بیت چکا ہے جس کے بعد اب ان کے یہ منصوبے عملی صورت حال اختیار کرتے ہی چلے جا رہے ہیں، پہلے فلسطین، پھر لبنان، مصر، شام اور اب عراق، اور پھر نہ جانے کون سا ملک، خاک بہ دہن کہیں اگلا نمبر ہمارے وطن عزیز پاکستان کا ہی تو نہیں؟ اور شاید یہ منصوبہ پھیلتے پھیلتے پورے گلف کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لے گا شاید ایران کی سرحدوں پر بھی گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور پھر اسی طرح ایک طرف افغانستان بھی موجود ہے، اور وسطی ایشیاء کے وسائل پر پہلے ہی امریکہ اور غاصب اسرائیل نے نظریں جما رکھی ہیں۔

امریکا کے نئے مشرق وسطیٰ کے منصوبے میں لبنان سے لے کر عراق تک تمام علاقوں میں افراتفری کا ہونا امریکی منصوبہ بندی کی ایک کڑی ہے، امریکہ اور اسرائیلی ماضی میں ہی نئے مشرق وسطٰی کا منصوبہ متعارف کروا چکے ہیں، اگر لبنان 2006ء میں امریکہ کے ساتھ بالواسطہ اور اسرائیل کے ساتھ براہ راست 33روزہ جنگ میں کامیاب نہ ہوتا تو امریکی اور اسرائیلی ''نیا مشرق وسطٰی'' منصوبہ اپنے آخری مراحل میں ہوتا۔ امریکہ اور اسرائیل کے اس نئے مشرق وسطٰی کے قیام کے منصوبے میں ایک طرف لبنان اور شام کے درمیان خلیج پیدا کرنا ہے تو دوسری طرف خلیج فارس میں ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنا بھی شامل ہے، اور یہ امریکہ اور اسرائیل کا لمبی مدت تک کام کرنے والے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ عرب بادشاہتیں آج بھی امریکہ کو معاونت فراہم کر رہی ہیں تاکہ امریکہ اپنے نئے مشرق وسطٰی کے قیام کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو جائے جبکہ دوسری طرف غاصب صہیونی ریاست اسرائیل ہے کہ جس نے امریکہ کے ساتھ مل کر گریٹر اسرائیل جیسے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے حکمت عملی وضع کر رکھی ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بنایا جانا والا ''نیا مشرق وسطٰی '' اور ''گریٹر اسرائیل'' کے منصوبوں پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ان شیطانی قوتوں نے پہلے فلسطین، پھر لبنان، پھر مصر، لیبیا، افغانستان، شام اور اب شام کے بعد عراق میں اپنے پنجے گاڑھنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے گریٹر اسرائیل کے ناپاک منصوبے کہ جس میں مکہ مکرمہ تک اسرائیلی غاصبانہ تسلط اور عرب ریاستوں کی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کا عمل شامل ہے، اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کی خاطر مسلم ممالک کو دہشت گردوں کی آماجگاہ بنایا جا رہا ہے۔ آج مغربی ذرائع ابلاغ شام سے فرار اختیار کرنے کے بعد عراق پہنچنے والے داعش نامی دہشت گرد گروہ کو اپنی خبروں میں سنی شدت پسند، سنی انتہا پسند، سنی جہادی، سنی گروہ کے نام سے متعارف کروا رہے ہیں آخر اس کے پیچھے ان کے کیا مقاصد ہیں، یقینا مغربی قوتیں اپنے ذرائع ابلاغ کی قوت کو استعمال کر کے نہ صرف یہ کہ عراق میں فرقہ واریت کو ہوا دینا چاہتی ہیں بلکہ عراق کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر مسلم ممالک میں بھی فتنہ و فساد کی آگ کو بھڑکانے میں مصروف عمل ہیں۔ آج عالم مغرب اور سامراجی قوتیں مسلمانوں کے درمیان فرقہ و فساد کو ہوا دینے کے لئے جس قوت سے سر گرم عمل ہیں شاید ہی تاریخ میں اس کی کوئی مثال ملے۔

شام کے بعد عراق پر حملہ آور تکفیری گروہ داعش کو مغربی ذرائع ابلاغ روز اول سے ہی ایک سنی انتہا پسند گروہ کے عنوان سے پرچار کر رہا ہے، تو کیا واقعی داعش سمیت شام میں اور عراق میں مظلوم انسانوں کا خون بہانے والے خون خوار دہشت گرد سنی مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں؟ مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے عراق کے علاقے موصل پر داعش کے تکفیری دہشت گردوں کے حملوں اور قبضے کے بعد اس طرح کی شہہ سرخیاں چلائی گئیں، ملاحظہ کریں،"سنی انتہا پسندوں کا موصل پر کنٹرول، سنی جہادی گروہ نے موصل پر قبضہ کر لیا۔ سنی جہادیوں نے عراق کے شمال کو اپنے تسلط میں لے لیا"

مغربی ذرائع ابلاغ اور ان کے زرخرید عرب ذرائع ابلاغ نے عراق میں تکفیری دہشت گردوں کے حملوں کو سنی مسلمان جہادیوں کا حملہ قرار دیا اور اس بات کو پھیلانے کی کوشش کی کہ عراق میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان کوئی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ جس دہشت گرد گروہ کو سنی مسلم گروہ قرار دیا جا رہا ہے اس کا نام داعش ہے اور وہ القاعدہ کا باغی گروہ ہے جو آپس میں چند ہزار ڈالروں کی تقسیم کے معاملے پر ایک دوسرے سے جدا ہو گیا ہے۔ لیکن سوال پھر یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی داعش سنی عقیدہ مسلمان گروہ کا نام ہے؟ بہت سے ماہرین سیاسیات کا خیال ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کے جید علمائے کرام اور اسلامی حلقوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اس فتنے کا مقابلہ کیا جا سکے ورنہ مغرب اور مغربی میڈیا مغربی سامریوں کے اشاروں پر پوری دنیا کو خون میں لت پت کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے، آج اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اولیاءاللہ، بزرگان دین، اہل بیت، صحابہ کرام اور برگزیدہ شخصیات کے مزارات مقدسہ بھی صیہونی ایجنٹوں کے نشانوں پر ہیں، ہمیں سوچنا ہوگا ورنہ پاکستان میں جاری مشکلات بھی شام اور عراق کی مشکلات سے کم نہیں ہیں، افواج پاکستان نے ان کی سرکوبی کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے دیر آئے درست آئے، اللہ تعالی ہماری پاک فوج کے جوانوں کی حفاظت فرمائے اور ان کو کامیابی وکامرانی عطا فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 395058
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش