0
Saturday 5 Jul 2014 13:05

دہشتگرد خلافت

دہشتگرد خلافت
تحریر: محمد عامر رانا
(سکیورٹی انلیسٹ، ڈائریکٹر آف پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس)، اسلام آباد، پاکستان)

عسکریت پسند اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ الشام (آئی ایس آئی ایس) کی کامیابی پر خوشیاں منا رہے ہیں جس نے عراق اور شام کے کچھ علاقوں میں ایک "اسلامی ریاست" یا "خلافت" قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عسکریت پسندوں نے کچھ علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں اسلامی رٹ یا شریعت کا نفاذ کیا ہو۔ افغانستان، پاکستان کے قبائلی علاقے، شمالی مالی اور صومالیہ، عسکریت پسندوں کی جانب سے اس قسم کی کوششوں کو جھیل چکے ہیں گو ان سب کا لیول مختلف درجے کا تھا۔

آئی ایس آئی ایس کے عروج کا مطلب القاعدہ کا زوال نہیں
بہت سے ماہرین، عراق اور شام میں رونما ہونے والی حالیہ ڈویلپ منٹس کا تجزیہ کرتے ہوئے آئی ایس آئی ایس کے عروج میں القاعدہ کا زوال دیکھ رہے ہیں اور یہ ایک غلطی کے سوا کچھ نہیں۔ عسکریت پسندوں کی اسٹریٹیجیز کا ایک حقیقت پسندانہ جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سب سے پہلے ایک متبادل سوشیو کلچرل اور سیاسی نریٹیو فراہم کر کے ریاست کے بنیادی ستون کو چیلنج کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد، وہ فزیکل علاقے کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں۔ ان کے بیچ اسٹریٹیجیز پر اختلاف ہو سکتے ہیں، جیسا کہ آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ میں ہیں تاہم وہ ان اختلافات پر قابو پا لیتے ہیں اور ایک ہو جاتے ہیں۔ القاعدہ کے لئے شاید اس وقت آئی ایس آئی ایس کی کامیابیاں حیران کن ہوں تاہم وہ اسٹریٹیجیز پر بحث کرنے کی بجائے خلافت کے ماڈل کے حوالے سے ایک اتفاق رائے قائم کرنے کو ترجیح دے گی۔

کچھ کیسوں میں تو عسکریت پسند، نیشنلیسٹ گروپوں کے ساتھ بھی اتحاد بنا لیتے ہیں
شمالی مالی میں یہی
ہوا تھا جہاں نیشنل موومنٹ فور دی لبریشن آف ازواد (ایم این ایل اے) نے اسلامی گروپوں کے ساتھ مفاہمت کر لی تھی تاہم جب انہوں نے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا تو اسلامی گروپوں نے شرعی قوانین نافذ کرنا شروع کر دیئے۔ آپسی لڑائی سے اتحاد کمزور ہونا شروع ہو گیا اور پھر فرانسیسی فوجوں کی طرف سے شروع کئے جانے والے آپریشن کے نتیجے میں بالآخر ٹوٹ گیا۔

ایک خطرناک انسپریشن
گروپ ڈائنامکس کے علاوہ، انسپریشن بھی عسکریت پسندوں کی دنیا کے دوسرے حصوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو دہرانے کی کوششوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آئی ایس آئی ایس کا عروج اور کامیابی، پاکستان میں ایک خطرناک اور انسپریشنل رول ادا کر سکتی ہیں جہاں دو سو سے زیادہ مذہبی تنظیمیں قومی اور علاقائی سطح پر آپریشنل ہیں۔ ان تنظیموں کے بہت سے ایجنڈے ہیں جیسے کہ معاشرے کو اپنے نظریات کے مطابق ڈھالنا، شرعی قوانین کا نفاذ، خلافت سسٹم کا قیام، اپنے اپنے فرقہ ورانہ مقاصد کا حصول اور پاکستان کے اسٹریٹجک اور نظریاتی مقاصد کو عسکریت پسندی کے ذریعے حاصل کرنا۔ ایسی تنظیموں پر آئی ایس آئی ایس کی کامیابی کے اثرات مختلف انداز میں ہو سکتے ہیں، چند تو اپنے آپ کو صرف اخلاقی حمایت تک محدود رکھیں گی جبکہ دیگر شاید آئی ایس آئی ایس کی جانب سے کی جانے اپیل پر ان کی چندے اور مالی معاونت کی صورت میں عملی طور پر مدد فراہم کریں۔

مشترکہ مقصد، ریاست خراساں کا قیام
اس کے علاوہ بھی دیگر گروپس جن میں بنیادی طور پر مذہبی انتہا پسند اور عسکریت پسند تنظیمیں شامل ہیں، آئی ایس آئی ایس کی اسٹرٹیجیز اور ٹیکٹکس سے انسپریشن حاصل کر سکتی ہیں، ایسا اس لئے ممکن ہے کیونکہ مختلف علاقوں میں کام کرنے والے مختلف گروپس بھی ایک دوسرے سے اپنے تکفیری نظریات اور ایک دوسرے کے ساتھ شیئر ہونے والے تنظیمی لنکس کی بنیاد پر اتفاق کر سکتے ہیں۔ آئی ایس آئی ایس کی طرف سے جاری کئے جانے والے نقشے میں توسیع کئے جانے والے ملک سیاہ رنگ سے مارک کئے گئے ہیں جس میں شمالی افریقہ سے لے کر اسپین تک، پورے مشرق وسطیٰ سے لے کر وسطی اور جنوبی ایشیا کے علاقے بھی شامل ہیں۔ ان ریاستوں کو عین اس حالت میں دکھایا گیا ہے جیسا کہ وہ مسلم کنٹرول میں آج یا کبھی ہوتے تھے۔ اس نظریئے کے مطابق، اگر کوئی علاقہ ایک بار مسلم حکمرانی میں آ جائے تو وہ ہمیشہ کے لئے اسلامی خلافت کا حصہ بن جاتا ہے۔ اگر یہ علاقے بعد میں غیر مسلموں کے قبضے میں چلے بھی جائیں تو انہیں غیر قانونی طور پر مقبوضہ علاقہ تصور کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کے لئے یہ لازم ہو جاتا ہے کہ انہیں دوبارہ حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کریں۔

کیا پاکستان کا مقدّر آئی ایس آئی ایس کے درندوں کی وحشی خلافت کا ایک صوبہ بننا ہے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایس آئی ایس کے نقشے میں افغانستان اور پاکستان، دونوں کو اسلامی خلافت کے صوبہ خراساں کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کا ماننا ہے کہ اسلامی ریاست خراساں کی تحریک جس علاقے سے ابھرے گی اس میں افغانستان کے صوبہ کنڑ اور نورستان اور پاکستان کے ملاکنڈ کے علاقے شامل ہیں۔ وہ انٹرنیشنل جہاد کے لئے خراساں کو بیس کیمپ سمجھتے ہیں جہاں سے وہ اسلامی ریاست کی حدود کو غیر مسلم علاقوں تک بڑھائیں گے۔ ملا فضل اللہ اسی نظریئے سے انسپائرڈ ہیں اور خود کو تحریک خراساں کا بانی سمجھتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کی حالیہ قیادت، جس میں بنیادی طور پر فضل اللہ، ان کے نائب قیوم حقانی اور فاٹا کی مہمند اور باجوڑ ایجنسیوں میں خالد خراسانی گروپ شامل ہیں، نہ صرف عسکری حوالے سے بلکہ نظریاتی طور پر بھی اس تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔

دوسری جانب کنڑ اور نورستان میں موجود القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے انتہا پسندوں کا ذہن بھی یہی ہے کہ وہ اس علاقے کو ریاست خراساں کے قیام کے لئے ایک بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں گوکہ وہ اتنے مضبوط نہیں کہ وہ عراق کی طرح یہاں کسی قسم کی بڑی عسکری مہم جوئی کر سکیں تاہم وہ سکیورٹی کے حوالے سے ایک مسئلہ رہیں گے اور علاقے کے انتہا پسند ذہنوں کو انسپریشن بھی فراہم کرتے رہیں گے۔ شمالی وزیرستان میں شروع ہونے والی فوجی کارروائی کا مقصد عسکریت پسندوں کی آپریشنل بیس لائن کو نقصان پہنچانا ہے تاہم اس نے ساتھ ہی ساتھ عسکریت پسندوں کو خوست، نورستان اور کنڑ کے علاقوں میں جمع ہونے کا موقع فراہم کر دیا ہے اور یہ علاقے اس کام کے لئے بہت مناسب ہیں جہاں سے وہ بالآخر اپنے تخیلاتی اسلامک اسٹیٹ کے قیام کے لئے ایک مسلح جدوجہد کا آغاز کر سکتے ہیں۔

(بشکریہ از ڈان)
خبر کا کوڈ : 397596
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش