1
0
Friday 18 Jul 2014 18:40

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی وجوہات اور اسکے اثرات

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی وجوہات اور اسکے اثرات
تحریر: ڈاکٹر حسن ہانی زادہ

حال ہی میں مقبوضہ فلسطین میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جو اسرائیلی حکومت کی جانب سے غزہ کی پٹی پر فوجی جارحیت کا فیصلہ اپنانے کا باعث بنے ہیں۔ پہلا واقعہ حماس اور فتح کے درمیان بڑھتی ہوئی قربتیں ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان جاری امن مذاکرات کی ناکامی کے بعد فلسطین اتھارٹی نے اپنا کھویا ہوا اعتبار دوبارہ حاصل کرنے کیلئے حماس کے ساتھ تعاون کا سمجھوتہ انجام دیا۔ اس معاہدے کے تنیجے میں ایک قومی حکومت تشکیل پائی۔ اس امر سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرنے کے راستے کی جانب جھکاو روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ فلسطین اتھارٹی کی کوشش ہے کہ وہ حماس کی جہادی صلاحیتوں کو اسرائیل کے خلاف بروئے کار لائے۔

دوسرا واقعہ جو اسرائیل کی جانب سے غزہ پر فوجی جارحیت کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے، وہ اسرائیل کی یہودی بستیوں کے تین باسیوں کا اغوا اور بعد میں ان کا قتل ہے۔ ان تین یہودی باسیوں کی لاشیں ان کے گم ہونے کے بیس روز بعد مغربی کرانے کے شہر الخلیل سے ملیں۔ اسرائیل کی غاصب صیہونیستی رژیم نے ان تین یہودیوں کے قتل کو بہانہ بنا کر غزہ پر دھاوا بول دیا۔ اس کے علاوہ ماضی کے تجربات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جب بھی اسرائیل اندرونی سطح پر یا علاقائی لیول پر گوشہ نشینی کا شکار ہوا ہے، اس نے ایک جدید بحران ایجاد کر کے اس گوشہ نشینی کی حالت سے باہر نکلنے کی کوشش کی ہے۔

اسرائیل کی سیاسی پارٹیاں اور غزہ پر حملہ:
لیکوڈ پارٹی، شاس پارٹی اور بینٹا پارٹی کا شمار اسرائیل کی شدت پسند جماعتوں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح ان پارٹیوں میں بعض شدت پسند شخصیات جیسے اسرائیلی وزیر خارجہ لیبرمین بھی شامل ہیں۔ یہ پارٹیاں چاہتی ہیں کہ اسرائیل کی مسلح افواج حماس کا مکمل خاتمہ کر دیں۔ یہ پارٹیاں اس حق میں ہیں کہ اسرائیل کی زمینی فوج غزہ کی پٹی پر قابض ہو کر حماس اور اسلامک جہاد کے تمام رہنماوں اور سرگرم کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ اس وقت ان پارٹیوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر شدید سیاسی دباو ڈال رکھا ہے، جس کا مقصد غزہ کے جاری اسرائیلی فوجی جارحیت کو مزید وسعت بخشنا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیل کی شدت پسند سیاسی جماعتوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو غزہ پر فوجی حملے کی ترغیب دلائی ہے، تاکہ حماس اور اسلامک جہاد کا خاتمہ ہوسکے۔

دوسری طرف اسرائیل کی بعض معتدل سیاسی جماعتیں جیسے لیبر پارٹی غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی مخالف نظر آتی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل غزہ پر زمینی فوجی کارروائی کرنے سے باز رہے۔ یہ پارٹیاں ایسا ماحول فراہم کرنے کے درپے ہیں، جس کے نتیجے میں سیزفائر عمل میں آسکے کیونکہ لیبر پارٹی اور کادیما پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ غزہ پر زمینی حملے کی صورت میں حماس اسرائیل کے خلاف بھرپور میزائل حملے شروع کر دے۔ اس نکتے کی جانب توجہ بھی ضروری ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی جانب سے فوجی جارحیت پر روزانہ ایک ارب ڈالر کے اخراجات آ رہے ہیں۔ اسی طرح بن گوروین ایئر پورٹ کی بندش اور اسرائیل کے اقتصادی اور مالی مراکز کی معطلی ملک کو شدیدی اقتصادی نقصان پہنچا رہی ہے۔ مزید یہ کہ گذشتہ ایک ہفتے سے تیس لاکھ یہودی انتہائی خوف و ہراس کے عالم میں پناہگاہوں میں زندگی گزار رہے ہیں، جس کے باعث اسرائیل کا اجتماعی نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا تاریخی جائزہ:
ماضی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان دو جنگیں انجام پا چکی ہیں۔ ان میں سے پہلی 2008ء میں شروع ہوئی جو 22 دن تک جاری رہی اور دوسری 2012ء میں انجام پائی جو 8 دن تک جاری رہی۔ لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس بار غزہ کی صورتحال 2008ء اور 2012ء سے بالکل مختلف ہے۔ حماس نے اسرائیل کے ساتھ اپنی پہلی جنگ کے بعد اب تک ان چھ سالوں میں اپنی پوری توجہ اپنی میزائل طاقت کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے میں صرف کی ہے۔

حماس کی جانب سے حالیہ اسرائیلی جارحیت کے منہ توڑ میزائل حملوں سے جواب کے باعث اسرائیل نے غزہ پر زمینی حملہ کافی تعطل کے بعد انجام دیا ہے۔ دوسری طرف اس جنگ میں حماس نے پہلی بار R - 130 نامی میزائل کو استعمال کیا ہے جس کی رینج تقریباً 130 کلومیٹر تک ہے۔ حماس کی جانب سے فائر کئے گئے ان میزائلوں نے تل ابیب کے بن گورین ایئرپورٹ، ڈیمونا جوہری ری ایکٹر کے اطراف، اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر اور کینسٹ کی عمارت کو نشانہ بنایا ہے۔ ماضی میں حماس کے پاس موجود زیادہ سے زیادہ رینج والے میزائلوں کی حد 90 کلومیٹر تک تھی لیکن اب یہ رینج 130 کلومیٹر سے بھی اوپر جا چکی ہے اور مقبوضہ فلسطین کے تمام علاقے حماس کے پاس موجود میزائلوں کی رینج میں ہیں۔

دوسری طرف چونکہ اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں کے پاس حماس کے میزائلوں سے متعلق معلومات انتہائی محدود ہیں، لہذا حالیہ جارحیت کے دوران حماس کی جانب سے لمبی رینج والے میزائلوں کے استعمال نے اسرائیلی حکومت اور فوج کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل نے زمینی حملے میں بہت احتیاط اپنا رکھی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس بار حماس اور فلسطین کی دوسری جہادی تنظیمیں اسرائیل کے زمینی حملے کے مقابلے میں بھی جدید قسم کی اسٹریٹجیز اپنائیں گی۔ اس بات کا بھی قوی امکان موجود ہے کہ حماس اسرائیل کے ڈیمونا جوہری ری ایکٹر کو لانگ رینج میزائلوں سے نشانہ بنانے کی کوشش کرے۔ اس صورت میں خطہ ایک انتہائی سنجیدہ بحران سے روبرو ہوسکتا ہے۔ مزید یہ کہ اس وقت فلسطین کی تمام جہادی تنظیمیں اسرائیل کے خلاف ایک مشترکہ فورس تشکیل دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی اور فوجی میدان میں غزہ کی صورتحال گذشتہ چھ سال یا گذشتہ دو برس سے بہت بہتر ہوچکی ہے۔ حماس نے ماضی میں بھی اسرائیل کو مہار کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اب تو اس کی طاقت میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔ اگر ماضی میں حماس، اسلامک جہاد اور فتح کے درمیان بعض اختلافات موجود تھے تو اب انہوں نے یہ تمام اختلافات ختم کرتے ہوئے اسرائیل کے مقابلے میں ایک واحد محاذ قائم کر رکھا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے فلسطین اتھارٹی اور حماس کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی تمامتر کوششوں کے باوجود اس وقت فلسطین اتھارٹی، حماس اور دوسری فلسطینی تنظیمیں اس نتیجے تک پہنچ چکی ہیں کہ آپس میں اتحاد اور قومی مفاہمت ہی انہیں اسرائیل کے خلاف بہترین مدد فراہم کرسکتا ہے۔ دوسری طرف فلسطین اتھارٹی اور دوسری فلسطینی جماعتوں کی تنظیمی کمزوریوں کا فائدہ صرف اسرائیل کو پہنچتا ہے۔ لہذا تمام فلسطینی تنظیموں اور جماعتوں کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ خود کو مضبوط بنائیں۔ اسی ضمن میں فلسطین اتھارٹی نے حال ہی میں عرب ممالک سے وزراء خارجہ کی سطح پر ایک فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ لہذا اس وقت فلسطین اتھارٹی حماس اور اسلامک جہاد کی حمایت میں مصروف ہے اور فلسطین کی سیاسی جماعتوں کے درمیان کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا۔

علاقائی اور بین الاقوامی سیاسی کھلاڑی اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت:
اگرچہ عرب ممالک نے فلسطین اتھارٹی کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا اور یہ اجلاس منعقد بھی ہوا لیکن کسی نتیجے کے بغیر ہی ختم ہو گیا۔ سلامتی کونسل غزہ کی صورتحال کے بارے میں ایک معمولی سا بیانیہ بھی صادر کرنے میں ناکام رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ عرب ممالک نے چپ سادھ رکھی ہے اور صرف چند ایک عرب ممالک نے بیانیہ صادر کرتے ہوئے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے۔ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ عرب ممالک اس قدر مفلوج ہو گئے ہیں کہ وہ عالمی سطح پر رونما ہونے والے حوادث و واقعات پر ایک مضبوط ردعمل ظاہر کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔

افسوسناک بات تو یہ ہے کہ مصر نے بھی فلسطینیوں پر رفح بارڈر کے دروازے بند کر رکھے ہیں اور حتی زخمیوں کو آنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ دوسری طرف اسلامی تعاون کونسل، او آئی سی بھی حتی ایک بیانیہ صادر نہیں کر سکی ہے۔ درحقیقت او آئی سی اور عرب لیگ جیسے ادارے بہت کمزور ہو چکے ہیں اور عرب حکمران گہری نیند سو رہے ہیں اور کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کرتے۔

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے بارے میں ترکی نے دوغلا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس نے ایک تو طرف اسرائیل کے ساتھ مخفیانہ تعلقات استوار کر رکھے ہیں اور دوسری طرف میڈیا میں غزہ پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رجب طیب اردگان کی حکومت اسرائیل کے خلاف ایک واضح اور شفاف موقف اختیار کرنے میں ناکام رہی ہے اور صرف میڈیا میں اظہار نظر اور ایک بیانیہ صادر کرنے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ لہذا ترکی سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جا سکتیں۔ مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ اور فلسطین کے مظلوم عوام اور جہادی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ جہاں تک ہو سکے اپنی صلاحیتوں پر ہی تکیہ کریں اور ان کی بنیاد پر اسرائیل کے خلاف ڈٹ جائیں۔ 

روس چونکہ یوکرائن کے بحران سے دچار ہے لہذا سیکورٹی مسائل کی وجوہات پر غزہ کے مسئلے میں زیادہ مداخلت کرنے سے باز رہا ہے۔ جبکہ امریکہ اور یورپی یونین ہمیشہ کی طرح غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور بربریت کی کھل کر حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ اگرچہ بعض یورپی ممالک نے غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے لیکن ساتھ ہی فلسطینی جہادی تنظیموں خاص طور پر حماس کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان ممالک نے غزہ پر اسرائیلی حملے کو اسرائیل کی جانب سے اپنا دفاع قرار دیتے ہوئے حماس کی مذمت کی ہے۔ لہذا ایسا نظر آتا ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین اسرائیل کے حامی ہیں۔

غزہ پر اسرائیل کے زمینی حملے کے ممکنہ نتائج:
اگر اسرائیل غزہ پر زمینی حملے کا آغاز کر دیتا ہے تو صورتحال بالکل مختلف ہو جائے گی۔ حماس کی کوشش ہو گی کہ وہ اسرائیل کے خلاف بھرپور طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اس کی جانب سے خوفزدہ کرنے اور رعب و وحشت پھیلانے کی پالیسی کا مقابلہ کرے۔ لہذا حماس اسرائیل کے حساس ترین فوجی مراکز کو اپنے میزائل حملوں کا نشانہ بنائے گی۔ اس صورت میں اسرائیل ایک ایسی دلدل میں پھنس کر رہ جائے گا جس سے باہر نکلنا اس کیلئے بہت مشکل ہو جائے گا۔

درحقیقت مصر پر اخوان المسلمین کی ایک سالہ حکومت کے دوران حماس زیادہ جدید ہتھیاروں کو حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ حماس نے اس مدت میں مصر کے راستے کثیر تعداد میں میزائل غزہ منتقل کئے ہیں۔ لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس بار حماس کے پاس زیادہ آپشن موجود ہیں اور لانگ رینج میزائلوں کا حامل ہونے کی بدولت اس کی دفاعی صلاحیتوں اور فوجی طاقت میں پہلے کی نسبت اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف اگرچہ اسرائیل اس کوشش میں ہے کہ خفیہ معلومات کے حصول کے ذریعے حماس کی فوجی صلاحیتوں اور پوزیشن کی صحیح صورتحال سے آگاہ ہو سکے لیکن حال ہی میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ حماس اور اسلامک جہاد کے بارے میں اسرائیل کے پاس بہت کم معلومات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیمونا جوہری ری ایکٹر کے قریب حماس کے میزائلوں کے گرنے نے اسرائیلی جرنیلوں کو بری طرح چونکا دیا ہے۔ اسی طرح اگر حماس ڈیمونا نیوکلیئر ری ایکٹر کو اپنے میزائلوں سے نشانہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے انتہائی بھیانک اثرات ظاہر ہوں گے۔ اس 50 سالہ قدیمی نیوکلیئر ری ایکٹر سے نکلنے والی تابناک شعاعیں مصر، اردن، شام اور فلسطین کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے غزہ کو زمینی حملے کا نشانہ بنانے سے عرب ممالک انتہائی کٹھن صورتحال سے دچار ہو جائیں گے۔ ایسی صورت میں بھی عرب حکمرانوں کی جانب سے خاموشی اس بات کا باعث بنے گی کہ عرب عوام ان کے حقیقی چہرے کو پہچانتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ ان کی سازباز سے آگاہ ہو جائیں۔ لہذا عرب ممالک ہر گز یہ نہیں چاہتے کہ اسرائیل غزہ میں داخل ہو کر ایک لمبی جنگ کا آغاز کرے۔ عرب ممالک نے غزہ میں تھکا دینے والی جنگ شروع ہونے سے متعلق اسی پریشانی کے سبب اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے ہنگامی اجلاس بلائے جانے کی درخواست کی تھی۔ لیکن سلامتی کونسل بھی کچھ نہ کر سکی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کا زمینی حملہ اور ایک لمبی جنگ کا آغاز بہت سے حقائق برملا ہونے کا باعث بنیں گے۔ یہ حملہ اکثر عرب حکمرانوں خاص طور پر مصری صدر السیسی کے چہرے سے نقاب ہٹںے کا زمینہ فراہم کرے گا۔

غزہ ایک عرصے سے اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کی جانب سے محاصرے کا شکار ہے جس کی وجہ سے وہاں کے مظلوم عوام انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اوپر سے اسرائیل کی جانب سے فوجی جارحیت نے صورتحال کو مزید گھمبیر کر دیا ہے اور جنگ کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف حماس اور اسلامک جہاد جیسی جہادی تنظیمیں اپنے ماضی کے تجربات کی روشنی میں اسرائیل پر کاری ضربیں لگانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس وقت اسرائیل کو ہر روز ایک ارب ڈالر کا اقتصادی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ جنگ کے طولانی ہونے سے اسرائیل شدید اقتصادی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔

مستقبل کی ممکنہ حکمت عملی:
بعض عرب ممالک حتی امریکہ اور خود اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم اور فلسطین اتھارٹی کی مستقبل میں کوشش ہو گی کہ وہ بعض ممالک جیسے مصر کی ثالثی کے ذریعے جنگ بندی کو ممکن بنائیں۔ کیونکہ اس جنگ کا زیادہ دیر چلنے کے نتیجے میں جہاں غزہ میں بھاری جانی نقصان کا خطرہ ہے وہاں دوسری طرف عالم اسلام اور عرب دنیا میں رجعت پسند عرب حکمرانوں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہونے اور ان کے خلاف تحریکوں کے آغاز ہونے کا بھی قوی امکان پایا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں جنگ بندی کی صورت میں فلسطین اتھارٹی اور حماس پر اسرائیل کے ساتھ تعطل کا شکار امن مذاکرات کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے سیاسی دباو میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ حماس کسی صورت میں اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھی گی لیکن عالمی سطح پر فلسطین اتھارٹی پر اسرائیل کے ساتھ نئے سے سے مذاکرات شروع کرنے کیلئے بے تحاشا دباو پڑ سکتا ہے۔ لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مستقبل میں ممکنہ جنگ بندی کی صورت میں فلسطین اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان نئے سرے سے مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 400188
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

nice informations
ہماری پیشکش