1
0
Saturday 26 Jul 2014 23:44

انبیاء کے قاتل اور داعش

انبیاء کے قاتل اور داعش
تحریر: سید اسد عباس تقوی

حضرت موسٰی علیہ السلام کی قوم کے بارے میں قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ ان لوگوں نے بہت سے انبیاء اور عدل خواہوں کو بے جرم و خطا قتل کیا۔ بنی اسرائیل کا یہ گروہ اللہ تعالٰی کی واضح نشانیوں کو جھٹلاتا تھا۔ جانتے بوجھتے ہوئے عدل کا حکم دینے والوں کو قتل کرتا تھا۔ خدا نے اس قوم کو بہت سی نعمتوں سے نوازا، لیکن اس قوم نے ہمیشہ کفران نعمت کیا۔ یہ وہ قوم ہے جس پر آسمان سے من و سلوی نازل کیا گیا، ان کے درمیان متعدد انبیاء بھیجے گئے، ان کو فرعون کے شکنجہ ظلم سے نجات بخش کر عظیم الشان حکومت عطا کی گئی، لیکن اس کے جواب میں ان کا طرز عمل قرآن کی متعدد آیات میں وضاحت سے درج ہے۔ بالآخر اس قوم کو المناک عذاب کی بشارت دی گئی۔ خدا کا وعدہ سچا ہے یہ قوم ضرور اپنے انجام کو پہنچے گی۔ کیا یہ کم عذاب ہے کہ یہ لوگ خدا کے منفور ہیں۔؟ بنی اسرائیل کا ایک گروہ آج بھی اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ ہم خدا کی ٹھکرائی ہوئی قوم ہیں اور ہمیں اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔ یہ یہودی دنیا کے مختلف کونوں میں آباد ہیں اور اسرائیل کے وجود کو اپنی مذہبی تعلیمات کی روشنی میں گناہ تصور کرتے ہیں ۔

اسرائیل میں موجود بنی اسرائیل کی نسلیں آج بھی اپنے آباء کی روش پر چلتے ہوئے احکام خداوندی کی خلاف ورزی کی مرتکب ہیں۔ انسانیت کے خلاف کیے گئے اس قوم کے جرائم اقوام عالم سے پنہاں نہیں ہیں۔ بچوں، خواتین، بزگوں اور بے گناہ شہریوں پر وحشیانہ اور اندھا دھند بمباری کے باوجود اس قوم کی ڈھٹائی دیدنی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے ایک پریس کانفرنس میں ببانگ دہل اس ڈھٹائی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ کو عام شہریوں کے قتل پر تشویش ہے تو ہمیں اس تشویش سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح اس نے کہا کہ ہم مدارس، گھروں اور مساجد پر جان بوجھ کر حملے کرتے ہیں اور ہمیں اس کام سے کوئی بھی روک نہیں سکتا۔ صہیونیوں نے پوری دنیا کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی لحاظ سے یوں اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے کہ دنیا کا طاقتور ترین انسان بھی ان کے سامنے اختلاف کی جرات نہیں کرسکتا۔ مہذب اور آزاد دنیا کے بہت سے شہری مجبور ہیں کہ وہ اسرائیل کے مقدس قتل عام کے ڈرامے کو من و عن تسلیم کریں۔ کسی بھی انسان کو یہ جرات نہیں کہ وہ اس مقدس قتل عام کی حقیقت کا کھوج لگائے یا کم از کم اس کے بارے میں کوئی بات کرے۔ اس کھوج کو روکنے کے لیے مغربی دنیا میں قانون سازی کی گئی ہے۔ بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں، جہاں ہولوکاسٹ پر بات کرنے والوں کو سزائیں سنائی گئیں۔ وہ لوگ جو سزاؤں کو خاطر میں نہ لائے، اس مکروہ گروہ کی اندھی گولیوں کا نشانہ بنے۔

اسلام ماسبق انبیاء کی نبوت پر ایمان کو دین کا جزو سمجھتا ہے۔ ہماری نظر میں آدم سے لے کر خاتم تک پیدا ہونے والے تمام الٰہی نمائندے عزت کا مقام رکھتے ہیں۔ مسلمان رسالت مآب صلی اللہ والہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی اور افضل الانبیاء سمجھتے ہیں، تاہم قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں جانتے ہیں کہ حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ادریس، حضرت یونس، حضرت ابراھیم، حضرت اسماعیل، حضرت اسحٰق، حضرت یوسف، حضرت سلیمان، حضرت موسٰی، حضرت عیسٰی، حضرت یحٰی سلام اللہ علیہم اور وہ تمام انبیاء جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے، خدا کے مقرب بندے تھے اور ان کا احترام اسی طرح ہر مسلمان پر واجب ہے جیسے خود نبی آخر الزمان صلواۃ اللہ علیہ کا۔ اس احترام کی بنیاد قرآن کریم کے بعد خود رسالت ماب صلی اللہ والہ وسلم نے رکھی۔ آپ خود ان انبیاء کا ذکر نہایت ادب و احترام سے کرتے اور صحابہ کو بھی یہی تعلیم دیتے کہ ان اہل اللہ کا احترام کریں۔

گذشتہ چودہ صدیوں میں عالم اسلام پر مختلف خانوادوں، نظریاتی گروہوں اور مسالک کے لوگوں نے حکومتیں کیں۔ ان حکمرانوں میں بنی امیہ، بنی عباس، بنی فاطمہ اور عثمانی قابل ذکر ہیں۔ عالم اسلام پر حاکم ان قوتوں کے ادوار میں عالم عرب و عجم کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مقابر انبیاء ہمیشہ مرجع خلائق رہے۔ دمشق کی مسجد بنو امیہ میں واقع مقام حضرت یحٰی علیہ السلام ہو یا موصل میں موجود مقام حضرت یونس و دانیال علیہم السلام، فلسطین میں موجود مزارات انبیاء ہوں یا اردن میں واقع مقدس مقامات۔ ابتداء سے ہی ان مقامات کی حرمت کا لحاظ رکھا گیا۔ جس کا بنیادی سبب قرآن کریم اور نبی خاتم صلی اللہ والہ وسلم کی وہ تعلیمات ہیں، جن میں ان انبیاء کے احترام اور ان کی نبوت پر ایمان کو جزو دین قرار دیا گیا۔

وائے ہو آج کے انسان نما شیطان پر جو اسلام کے لبادے میں اسلامی اقدار اور تعلیمات سے کھلواڑ کر رہا ہے۔ آپ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا اشارہ کس جانب ہے۔ عراق کے شمالی شہر موصل میں جس طرح داعش نامی گروہ نے حضرت یونس ارواحنا لہ الفداہ اور حضرت دانیال علیہم السلام کے مزارات اور اس سے متصل مسجد کو دھماکوں سے مسمار کیا، پورے عالم انسانیت کے لیے باعث تشویش ہے۔ ان مزارات کی بے حرمتی اس بات کی جانب واضح نشاندہی کرتی ہے کہ داعش کی فکر بنی اسرائیل کی فکر سے جدا نہیں اور ضرور ان کے تانے بانے کہیں نہ کہیں آپس میں ملتے ہیں۔ موصل میں قبضے کے بعد داعش نے متعدد اولیاء، علماء اور اسلام کی سربرآوردہ شخصیات کے مزارات کو منہدم کیا۔ سمجھا یہ جا رہا تھا کہ شاید عقیدتی اختلاف اس انہدام کا باعث ہے، تاہم حضرت یونس و حضرت دانیال علیہم السلام کے مزارات سے کیسا عقیدتی اختلاف۔ یہ کام تو گروہ شیطان کے علاوہ کسی اور کا نہیں ہوسکتا، جو ہمیشہ سے ان انبیاء علیہم السلام کی راہ میں روڑے اٹکاتا رہا۔ اپنی ذلتوں کا بوجھ اٹھائے شیطان دنیا میں سرگرداں رہا، حق کے پرچم روز سربلند ہوتے رہے۔ اس نے حق کو خاموش کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہ کئے، لیکن آدم، نوح، ادریس، یونس، دانیال، ابراھیم، اسماعیل، اسحٰق، یعقوب، یوسف، موسٰی، عیسٰی، محمد مصطفٰی صلواۃ اللہ علیہم اجمعین اور ان کے پیروکار ہمیشہ حق کی سربلندی کے لیے سرگرم عمل رہے۔ آج شیطان ان اولیائے خدا کے مراقد اور مزارات پر حملہ آور ہے، وہ ان بزرگوں کے مزارات کے انہدام سے انسانیت کو یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ میں آج بھی ہارا نہیں ہوں اور حق کے خلاف میری جنگ آج بھی جاری ہے۔

داعش کو اگر توحید کا اتنا ہی خیال تھا اور وہ واقعاً حضرت یونس علیہ السلام کے مزار پر کوئی شرک ہوتا دیکھ رہے تھے تو اس مزار کو شہید کرنے کا کوئی ایسا طریقہ بھی اپنا سکتے تھے جس میں توہین کا پہلو نہ ہوتا۔ اس مسجد اور اس سے متصل مزار کا ایک ایک پتھر محبت اور احترام سے اکھیڑا جا سکتا تھا، وہ مقام جہاں خدا کے برگزیدہ انبیاء حضرت یونس و حضرت دانیال علیہم السلام کے اجساد اطہر دفن تھے کو دھماکوں سے اڑانا یہ اعلان کرتا ہے کہ ہم انبیاء اور ان کے مشن کے دشمن ہیں۔ ہماری نظر میں ان برگزیدہ ہستیوں کے اجساد اور تعلیمات کی کوئی اہمیت نہیں۔ میری نظر میں اگر توحید خداوندی کو ان مزارات سے واقعی کوئی خدشہ ہوتا تو خداوند کریم اپنی آخری شریعت میں، جو تاقیام قیامت انسانوں کے لیے ہدایت کا سامان ہے، مردوں کو جلانے کا حکم دیتا، تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری ۔

بہرحال ان مزارات کے انہدام سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ شیطان کا لشکر اپنی پوری قوت کے ساتھ رحمان کے مقابلے میں اتر چکا ہے۔ شیطان نے تاریخ انسانیت کے ہر مصلح سے بدلہ لینے کا انتظام کر لیا ہے۔ اس نے انبیاء و الیائے خدا کے مزارات کی توہین کے لیے ایسے چیلے اکٹھے کر لیے ہیں، جن میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی۔ وہ انسانوں کو ذبح کرنے، خواتین کو بے عصمت کرنے، بچوں کو زندگی سے محروم کرنے جیسے اعمال کو اپنے لیے قابل فخر سمجھتے ہیں۔ آج اللہ کے پیارے نبی حضرت یونس و حضرت دانیال علیہم السلام کے مزارات کو منہدم کیا گیا، کل شاید حضرت نوح، حضرت آدم علیہم السلام کے مزارات کی باری ہو۔ ( نقل کفر کفر نہ باشد) داعش اس امر کا پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں۔ تاریخ سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ نجف اشرف جہاں امیر المومنین علی ابن طالب علیہ السلام کا مزار ہے، وہیں خدا کے یہ برگزیدہ پیغمبر بھی دفن ہیں۔ خداوند کریم حق کی قوتوں کو مجتمع کرنے والے اپنے آخری ولی، انبیاء کے محنتوں کے وارث، ان کے خون کا انتقام لینے والے کو جلد از جلد اذن ظہور دے، تاکہ شیطان اور اس کے پیروکاروں کے ساتھ آخری معرکہ وقوع پذیر ہو۔ حق سربلند ہو اور باطل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوجائے۔ (آمین یا رب العالمین)
خبر کا کوڈ : 401692
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Very nice
ہماری پیشکش