0
Tuesday 29 Jul 2014 07:37

کربلائے امروز اور ملت خاموش

کربلائے امروز اور ملت خاموش
تحریر: جاوید عباس رضوی

عید سعید کے باوجود اسرائیلی ننگی جارحیت و بربریت غزہ پر جاری ہے، اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 1100 کے قریب فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں، زخمیوں کی تعداد 6500 سے تجاوز کرچکی ہے اور کئی ہزار افراد بے گھر ہوچکے ہیں، جاں بحق ہونیوالوں اور زخمیوں میں اکثریت عام شہریوں کی ہے، جس میں عورتیں اور بچے سب سے زیادہ ہیں۔ رہائشی مکانوں، مسجدوں، ہسپتالوں، سکولوں، اسپورٹس کلبوں، پبلک پارکس، بجلی کی تنصیبات، معذوروں کی بحالی کے مراکز تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، پینے کے پانی اور سیوریج کی متعدد تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا ہے، جس سے کثیر تعداد میں فلسطینی شہری متاثر ہوئے ہیں۔ اسرائیلی بمباری نے اسکول، اسپتال، رہائشی عمارتون، سرکاری دفاتر و مساجد کو بھی شدید نقصان پہنچا کر غزہ کو ایک ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے۔ 60 سالوں میں ایک لاکھ سے زائد فلسطینی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرچکے ہیں اور تقریباً دو لاکھ فلسطینیوں کے مکانات کو مسمار کر دیا گیا، سفاکیت و بربریت کا کھیل جاری ہے۔
 
صیہونی حکومت گذشتہ کئی ہفتوں سے اپنی فضائیہ اور بحریہ کی مدد سے نہتے فلسطینیوں پر مسلسل بمباری اور بربریت میں مصروف ہے، گھر گھر سے شہداء کے جنازے اٹھ رہے ہیں، غزہ میں ہر جگہ دھویں، آگ اور راکھ کے بادل اڑتے نظر آرہے ہیں، صیہونی فضائیہ جنگی قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کرتے ہوئے شہری آبادیوں کو نشانہ بنا رہی ہے، بمباری سے سینکڑوں گھر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں، عورتیں، بچے، بوڑھے کھلے آسمان تلے رات گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر ایک گھنٹے میں اسرائیلی بمباری سے غزہ کا ایک معصوم بچہ جاں بحق ہوتا ہے، آخر قصور کیا ہے ان مسلمانوں کا، تین یہودی لڑکوں کے مبینہ اغوا کا معاملہ مذاکرات کی میز پر بھی حل ہوسکتا تھا، حماس نے تو اس سے واضح طور پر لاتعلقی کا اظہار کر دیا تھا اور اب اسرائیل نے بھی اس معاملے کو فلسطینیوں سے الگ کر دیا اور کہا کہ 3 فوجیوں کے اغوا میں حماس کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، اب فلسطینیوں کا قصور یہی ہے کہ وہ مسلمان ہیں، پکے مسلمان ہیں اور وہ اقوام عالم میں عزت سے جینا اپنا حق سمجھتے ہیں، وہ اسرائیل کی دھونس کو نہیں مانتے، وہ مقاومت جانتے ہیں، وہ مقابلہ جانتے ہیں، وہ قربانیاں دینا جانتے ہیں، فلسطینیوں کا قصور یہی ہے کہ وہ داعشی نہیں ہیں بلکہ دفاعی ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بار پھر فریقین سے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے، بانکی مون نے اسرائیلی جارحیت کی پرزور الفاظ میں مذمت کی ہے اور قتل و غارت روکنے کی اپیل کی ہے، لیکن اسرائیلی جارحیت میں کوئی کمی نہیں دکھائی دیتی ہے، فضائی حملوں کے بعد بھی اسرائیل کی دہشت گردی ختم نہیں ہوئی اور اب زمینی اور سمندری کارروائیوں کی کوشش کر رہا ہے، اسرائیلی درندگی کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج جاری ہیں، دنیا بھر کے احتجاجی ریلیوں میں اسرائیلی پرچم نذر آتش کئے جا رہے ہیں، نتین یاہو کے پتلے جلائے جا رہے ہیں، امریکہ سے بھی برابر نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے، مختلف مذہبی جماعتوں کے قائدین اور جید علماء کرام نے اسرائیل کی فلسطین پر بمباری اور نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے اس بدترین اسرائیلی دہشت گردی کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل امریکہ کے اشاروں پر نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔
 
دانشوران ملت کا کہنا ہے کہ امریکہ، یورپ اور نام نہاد مسلم حکمران اسرائیل کی پشت پناہی کرکے صرف مشرق وسطٰی ہی نہیں پوری دنیا کے امن کو شدید خطرات سے دو چار کر رہے ہیں، ترکی کے صدر عبداللہ گل نے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ وہ غزہ پر زمینی حملہ کرنے سے باز رہے، انہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں آسکتے جب تک غزہ پر حملے بند نہیں ہوتے، اقوام عالم کو تماشہ دیکھتے رہنے کی بجائے تنازعہ کا پائیدار حل تلاش کرنیکی کوشش کرنی چاہیے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک منصفانہ طریقے سے حملہ آور کا ہاتھ نہ روکا جائے، سویلین آبادی، سکولوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں، رہائشی مکانوں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانا جنیوا کنونشن 4 کی خلاف ورزی ہے اور خلاف ورزی کے مرتکب سفاک اور ظالم درندے مستوجب سزا ہیں، ان سب مذمتوں اور اپیلوں اور التماسوں کے باوجود صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ عالمی دباؤ کے باوجود حملے جاری رہیں گے۔

افسوس فلسطینیوں کیخلاف مظالم پر عالمی برادری، بین الاقوامی ادارے، مسلم ممالک، مسلم جہادی، خود ساختہ خلیفے، خودکش بمبار اور مسلم حکمران خاموش ہیں، اسرائیل کے سابق وزیر دفاع نے حال ہی میں کہہ دیا کہ اسرائیل کو سعودی عرب اور امارات کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، افسوس ہے کہ فلسطین کا مسئلہ عرب دنیا کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، ڈیڑھ ارب مسلمان آواز اٹھانے کی بجائے فٹبال ورلڈ کپ دیکھنے میں مصروف رہے، یا پھر فتوے بازی میں، مسلم دنیا متحد ہو کر سلامتی کونسل کے ذریعے مسئلہ کے حل کیلئے دباؤ بڑھاتے تو حالات اس قدر سنگین نہ ہوتے، اسرائیل مسئلہ فلسطین کی جڑ ہے اور اس فاسد جڑ کو اکھاڑے بغیر فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، فلسطین کے مسئلہ کا حل اسرائیل کا خاتمہ ہے، اس کے علاوہ صیہونی اقتصادی کمپنیوں کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے، او آئی سی تنظیم کے وہ ارکان جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے، وہ اپنے ذاتی تعلقات فوراً منقطع کریں اور اپنے سفرا کو واپس بلائیں۔
 
مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور فلسطینی مسلمانوں کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ اسرائیل ان کے خلاف جب چاہتا ہے جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، مہذب یورپ، طاقتور عالمی اجارہ دار امریکہ سمیت اس کے غیر اعلانیہ معاون ہیں، مسلم حکمرانوں کے برخلاف اسرائیل کے مربی و آقا امریکہ، یورپ اور مسلم ممالک دھڑلے سے اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے بڑی دھٹائی سے تمام بین الاقوامی دباو کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جتنا عرصہ ضروری سمجھیں گے، غزہ پر فضائی اور زمینی حملے جاری رکھیں گے، اس کے معنی ہیں کہ اسرائیل نے دنیا کے ہر اخلاقی ضابطے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر کسی میں طاقت ہے تو اسے روک کر دکھائے۔

دن رات انسانی حقوق کا راگ الاپنے والوں نے بھی چپ سادھ لی، انہیں نہ غزہ کی سڑکوں پر بہتا خون نظر آتا ہے، نہ ہی بے بس فلسطینوں کی آہیں اور سسکیاں سنائی دیتی ہیں، عالمی برادری جنگ بندی کرانے کی کوششوں کیلئے تو تیار ہے لیکن اسرائیلی درندگی روکنے کی ہمت کسی میں نہیں، تاخیر تو ہوگئی، تاہم ضرورت اس امر کی ہے امت مسلمہ متحد ہو کر فلسطین کی جدوجہد آزادی کے لئے متحد ہوجائے، ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ حال ہی میں باراک اوبامہ نے وائٹ ہاﺅس میں مسلم ملکوں کے سفیروں کو دیئے گئے دعوت افطار میں کہا تھا کہ اسرائیل کو دفاع کا حق ہے، بظاہر اس بات میں کوئی خامی نظر نہیں آتی کہ ہر ملک اور ہر شخص کو ہی اپنی دفاع کا حق حاصل ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ دفاع کا حق کس سے کس کو حاصل ہے، ہماری اس جدید مہذب اور جمہوریت، سیکولرزم و سوشلزم کی دلدادہ دنیا میں دفاع کا حق صرف زبردستوں کو ہے زیر دستوں کو نہیں، امریکی صدر باراک اوبامہ کی افطار پارٹی میں موجود سبھی مسلم ملکوں کے سفراء تھے جنہوں نے اوبامہ کی نصیحت آمیز گفتگو بڑے عقیدت و احترام کے ساتھ سنی اور کسی نے بھی انہیں بیچ میں ٹوکنے یا اس افطار پارٹی میں سے اٹھ کر احتجاجاً چلے جانے کی گستاخی نہیں کی، کریں بھی تو کیوں اور کیسے، علامہ اقبال کی زبان میں کہ ’’غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر۔‘‘

ویسے فلسطین سے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں ان کی جرات اور جوانمردی کی ہزاروں داستانیں ملیں گی، وہاں ہر بچہ اور ہر جوان اپنے آپ میں ایک جہد مسلسل کا جیتا جاگتا نمونہ ہے، لیکن فلسطینیوں کی جرات مندی و مجاہدانہ کردار کا ان عیاش، مادہ پرست، بے حس، بے غیرت اور بے حمیت مسلم ملکوں کے امراء و سفراء سے کیا تعلق ’’کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور‘‘ بے شک فلسطینیوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایٹم بم اور میزائلوں سے بھی زیادہ قوت رکھتے ہیں، وہ چٹان کا حوصلہ رکھتے ہیں، وہ سمندر کا دل رکھتے ہیں، فلسطینی تو کربلائی ہیں، عاشورائی ہیں، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ امن اور انسانی حقوق کا پرچار کرنے والے ممالک اور ادارے اس صہیونی جارحیت کا تماشا دیکھنے میں مصروف ہیں، ان ممالک کا مسلمانوں کے لیے دوہرا معیار کھل کر پوری دنیا کے سامنے آچکا ہے، اس وقت غزہ سمیت پورا فلسطین اسرائیلی خنجر کی نوک پر ہے اور مسلم حکمران عیش پرستی اور مستی میں مگن۔ غزہ پر مسلسل بمباری اور معصوم فلسطینی مسلمانوں کی شہادت پر عالم اسلام خاص طور پر عرب حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی مسلم امہ کے لیے لمحہ فکریہ اور تازیانہ عبرت ہے۔
 
امتِ مسلمہ کا اتحاد ہی کفار کے مظالم کو روک سکتا ہے، جب تک امتِ مسلمہ متحد ہوکر خود ان مظالم کا راستہ نہیں روکے گی، دنیا بھر میں مسلمانوں پر ظلم و جبر جاری رہے گا۔ امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرکے ہی ہم کفار کی سازشوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ مسلم امہ طاغوت کے خلاف متحد ہوجائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے زیر نہیں کرسکتی، ذلیل نہیں کرسکتی، نام نہاد مسلم حکمران اس لئے بھی خاموش تماشائی ہیں کیونکہ انہیں اپنے مسند اقتدار کو بچائے رکھنا ہے، اپنے عیش و عشرت کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لئے انہوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جبکہ فلسطین کے لئے آواز وہ لوگ اٹھا رہے ہیں، جن کا اس سرزمین سے یا اس سرزمین کے عوام سے کوئی ملی، دینی رشتہ تو نہیں صرف انسانیت کا رشتہ ہے، وہ لوگ دل رکھتے ہیں اور اس میں درد رکھتے ہیں، اور فلسطین دل کا معاملہ ہے دینار کا نہیں، سر کٹانے کا مسئلہ ہے سر کاٹنے کا نہیں۔ فلسطین لہُو مانگتا ہے لہو و لعب نہیں۔
خبر کا کوڈ : 401811
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش