0
Monday 28 Jul 2014 00:16

پشاوری چاند سے لاہوری شیر تک

پشاوری چاند سے لاہوری شیر تک
تحریر: عمران خان
 
اب شک و شبے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ پٹھان، قبائلیوں کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ اب تک کی تاریخ گواہ ہے کہ انہیں فتح کرنے کے لیے جتنی بھی کوششیں ہوئیں وہ سب ناکامی سے دوچار ہوئیں، حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ یہی قبائلی انگریزوں کو خراج بھی دیتے رہے اور انہیں محفوظ راستے بھی، خیر بات موضوع سے ہٹ جائیگی۔ پٹھانوں نے دنیا کی کئی قوموں کے ساتھ پنگا لیا اور آخرکار جیت کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا۔ ان کی یہ کامیابی صرف میدان جنگ تک محدود نہیں ہے بلکہ صحت، تعلیم، کھیل، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں بھی ان کی ترقی بے مثال ہے۔ پچھلے کئی عشروں سے ناسا کی جدید ترین ٹیکنالوجی کو پٹھانوں نے بیکار کرکے رکھا ہوا ہے۔ ناسا کی ہائی کمان اور ماہرین کی اب تک کئی میٹنگز ہوچکی ہیں، مگر تاحال وہ پٹھانوں کو زیر نہیں کرسکے۔

ناسا کی ساری تحقیق کا مغز یہ تھا کہ دنیا میں جتنے بھی سیارے ہیں، ان کے اپنے چاند ہیں۔ زمین کا صرف ایک چاند ہے۔ زمین سورج اور چاند کا درمیانی فاصلہ اتنا ہے کہ سورج سائز میں بڑا ہونے کے باوجود چاند کے برابر معلوم ہوتا ہے۔ ناسا اپنے ماہرین اور سائنسی آلات کے بل بوتے پر یقینی طور پہ یہ کہہ سکتا ہے کہ کونسے وقت میں زمین کے کس حصے سے چاند کتنی مقدار میں نظر آئے گا، لیکن ایک عشرے سے زائد وقت ہونے کو ہے، پشاور میں مسجد قاسم علی خان کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے ناسا کے تمام تر سیٹ اپ کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ناسا والے پاکستان میں اس چاند کی کھوج میں ہیں، جو صرف مفتی شامزئی یا ان کے چیدہ چیدہ ’’صاحب نظر‘‘ احباب کو نظر آتا ہے، مگر تاحال انہیں کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ ناسا والے ابھی اس مسئلہ سے نمٹنے نہیں پائے تھے کہ ایک میڈیا رپورٹ نے ان کے اوسان خطا کر دیئے، جس میں بتایا گیا تھا دو مرتبہ پاکستان میں یہ انہونی بھی ہوچکی ہے کہ دن کے بارہ بجے ان مفتی حضرات کو چاند نظر آگیا، جس کے نظر آنے کی خوشی میں عید کا اعلان دن بارہ بجے ہوگیا۔   

ناسا کا پہلا گمان یہ تھا کہ زمین کا ایک نہیں دو چاند ہیں، دوسرا چاند صرف پشاور میں ہے۔ اب ان کے خیال میں پشاور میں ایک نہیں ایک سے زائد چاند ہیں۔ جو کبھی دن میں نظر آتے ہیں، کبھی رات میں۔ اس چاند میں اور کوئی خوبی ہو یا نہ ہو لیکن یہ خوبی ہے کہ یہ چاند مفتی صاحب کی عید ضرور کرا دیتے ہیں، البتہ دن والا چاند تو روزے کے لیے بھی مہلک ثابت ہوتا ہے۔ ویسے ساری باتیں سنی سنائی ہیں، ہم نے مفتی صاحب کے نہ دن والے چاند کو دیکھا ہے اور نہ رات والے چاند کو دیکھا ہے۔ وفاقی حکومت نے خیبر پختونخوا کی حکومت سے باقاعدہ درخواست کی تھی کہ رویت ہلال کمیٹی کے درمیان روابط کو فروغ دیکر کوشش کی جائے کہ ملک بھر میں رمضان اور عید ایک ساتھ ہو۔ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے یہی پیغام مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ مفتی صاحب نے اس کا انتہائی مشکل اور ادبی جواب دیا، جواب لے جانے والے نے صوبائی حکومت کو اس کا سلیس ترجمہ کچھ یوں پیش کیا، کہ  ادھر سے چاند تم دیکھو، ادھر سے چاند ہم دیکھیں۔ تم اپنے چاند کو دیکھو، ہم اپنے چاند کو دیکھیں۔

بعد میں مفتی صاحب کو اپنا چاند نظر آگیا تو انہوں نے رمضان کا اعلان ایک دن پہلے کر دیا، اور آج انہیں اپنا چاند نظر آیا تو انہوں نے عید کا اعلان بھی کر ڈالا۔ ناسا کے وہ ماہرین جنہوں نے پشاور کو قریب سے دیکھا ہے، وہ بڑے مطمئن ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں پشاور میں چاند زیادہ ہیں۔ مسجد قاسم علی خان کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کا چاند کسی نے دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو، معروف شاعر سید سلمان گیلانی نے اپنی ایک نظم میں دعویٰ کیا ہے کہ
وہ جو کہتے ہیں چاند نہیں نکلا نکلا ۔۔نہیں ۔تو کل عید نہیں چاند اپنی آنکھ سے دیکھا ہے
پیشاور میں کوئی کہتا ہے  اے چاند۔ کمیٹی والو۔۔ تم کیوں چاند فلک پر ڈھونڈتے ہو میرے سامنے والی کھڑکی میں اک چاند کا ٹکڑا رہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ 
ناسا اور ترقی یافتہ ملکوں نے چاند کی جانب اپنے خلائی مشن روانہ کرکے انتہائی فخر کا اظہار کرکے ہمیں متاثر کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ جانتے بھی تھے کہ یہ متاثرہ قوم متاثر ہونے کے بجائے متاثر کر دے گی۔ پھر وہ واقعی متاثر ہوگئے جب انہیں پتہ چلا وہ چاند جس کی جانب سفر کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں، پاکستانیوں کا تو قریبی رشتہ دار ہے۔ کسی کا چندو ہے، تو کسی کا انکل مون، تو کسی کا چندا ماما، حالانکہ دو دفعہ ماں کہیں تو ایک ماما بنتا ہے، اتنی گہری تعلق رشتہ داری سے انہوں نے متاثر ہی ہونا تھا۔ ناسا والے اب غصے میں ہم سے یہ نہیں کہہ سکتے اور ہم مفتی صاحب سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ  ’’چن تیرا ماما لگدا، ،، جو ہر ویلے تینوں نظر آجاندا‘‘  کیونکہ چاند واقعی ان کا چندا ماما لگتا ہے۔

چاند کا مسئلہ اپنی جگہ کچھ عرصہ قبل لاہور کے چڑیا گھر میں مرنے والے شیر کے بارے میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔ پڑوسی جانوروں کے مطابق پاکستانی عوام کے ناروا رویے، لعن طعن سے عاجز شیر نے ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دی ہے۔ پہلے بچے جو سلوک بندروں سے کرتے تھے، وہی سلوک وہ شیر سے کرنے لگے تھے۔ چڑیا گھر کی سیر کو آنیوالے جس شیر کی دھاڑ سن کر تالیاں بجاتے تھے اور خوفزدہ ہوتے تھے، اب اسی شیر کو دونوں ہاتھ کھول کھول کر اخلاق سے ساقط اشارے کرتے تھے۔ جانوروں کے مطابق غم و غصے اور نفرت کا اظہار وہی زیادہ کرتے تھے، جنہوں نے شیر کو ووٹ دیا تھا۔ اتنی بے عزتی شیر برداشت نہ کرسکا اور پینے کے لیے رکھے پانی میں منہ ڈال کر مر گیا، جانوروں کے مطابق پانی چلو بھر سے زیادہ تھا۔ حالانکہ چڑیا گھر میں پنجاب پولیس کے کئی اہلکار سول کپڑوں میں ڈیوٹی پر بھی تعینات تھے کہ کوئی بھی شیر کی شان میں گستاخی نہ کرنے پائے، مگر اس کے باوجود بھی عوام باز نہ آئے، جبکہ جگہ جگہ بورڈ بھی لگائے گئے تھے کہ جانوروں کو تنگ نہ کریں۔

لوڈشیڈنگ کا ستایا بھلا مانس ٹکٹ لیکر خاص طور پہ شیر کی تذلیل کرنے چڑیا گھر آیا تو آگے پنجرہ خالی پاکر بہت رنجیدہ ہوا اور پھر اچانک ہی چلانے لگا، نکما ہے۔ نکماہے، ۔۔۔ وزیراعظم نکما ہے۔ سول کپڑوں میں ڈیوٹی پر تعینات پولیس والے نے دوتھپڑ رسید کئے تو بھلے مانس کو اندازہ ہوا، پولیس تو چڑیا گھر میں بھی موجود ہے، فوراً کہنے لگا، حضور میں تو بھارت کے وزیراعظم کے متعلق کہہ رہا تھا۔ آپ تو خوامخواہ ہی برا مان گئے۔۔۔ پولیس والے نے دو جھانپڑ اور رسید کر دیئے۔۔۔  قانون کو بے وقوف بناتا ہے۔۔ کیا مجھے نہیں پتہ کہاں کا وزیراعظم نکما ہے ۔۔۔۔۔  چڑیا گھر کے جس بورڈ پر لکھا تھا ۔۔ ’’جانوروں کو تنگ مت کریں‘‘  اس بورڈ کی پشت پر بھلے مانس نے پولیس والوں سے بدلنا لینے کی خاطر نظر بچا کے لکھ دیا  ’’پڑھنے والا پاگل‘‘۔ چڑیا گھر میں موجود پولیس والے جب  بھی اس تحریر کو پڑھیں، انہیں بڑا غصہ آئے، بالآخر ایک اعلٰی افسر بلوایا گیا، جس نے تحریر میں تبدیلی کرکے بھلے مانس سے بدلہ لے لیا ۔۔بھلا کیسے۔ پہلے لکھا تھا،پڑھنے والا پاگل ۔۔۔  اب لکھا تھا "لکھنے والا پاگل‘‘
خبر کا کوڈ : 401885
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش