0
Monday 11 Aug 2014 00:21

غزہ، عبرتگاہ مسلمین

غزہ، عبرتگاہ مسلمین
تحریر:سید محمد رضوی
Email: smrizvimagam@gmail.com

6 اگست 2014ء کو اسرائیلی غاصب فوج کے غزہ سے پیچھے ہٹ جانے کے بعد لگتا ہے کہ غزہ کی جنگ ختم ہو گئی ہے اور اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق، اسرائیل کے ذریعہ فلسطینیوں کی نسل کشی میں تقریبا 2 ہزار افراد شہید اور 10 ہزار  افراد زخمی ہو گئے ہیں جن میں ایک چوتھائی تعداد بچوں اور بزرگوں کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسرائیلی جارجیت میں 22 ہزار ٹن کے وزن کی گولیوں اور بموں کا استعمال ہوا ہے اور 60 ہزار بار غزہ کے مظلوم اور بےبس عوام کو زمینی، ہوائی اور سمندری حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔  اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ اور اس کے نزدیک دوسرے شہروں کا بنیادی ڈھانچہ بالکل تباہ ہو گیا ہے یہاں تک 49 مسجدیں اور اقوام متحدہ کے سکولز اور امدادی ادارے بھی ان وحشیانہ کاروائیوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ غزہ کی اس ساری غم انگیز اور دردناک داستان میں دنیا کے مسلمانوں کے لئے درس اور عبرت کے متعدد نکتے موجود ہیں جن میں سے ہم یہاں چند نکات کو عرض کرتے ہیں تاکہ آگاہ افراد مسائل پر مزید توجہ کرکے امت اسلامی کی بیداری میں اپنا رول ادا کرکے اس حوالے اپنی ذمہ داری کو انجام دیں۔

1۔ آج پھر ایک بار اسرائیل نے  War crimes  انجام دے کر پوری دنیا پر یہ بات ثابت کردی کہ دنیا میں جنگل کا راج ہے اور اقوام متحدہ اور دوسرے انسانی حقوق کے نام نہاد اداروں کی کوئی بھی اہمیت و افادیت نہیں رہی ہے بلکہ یہ ادارے بڑی طاقتوں کے آلہ کار ہیں اور زیادہ تر انہی کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں، لہذٰا دنیا کی مستضعف اور مظلوم ملتوں کو ان اداروں سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیئے۔

2۔ گذشتہ کی طرح اس بار بھی عرب حکمران، اسرائیل اور امریکہ کے ڈر کی وجہ سے غزہ کی نسل کشی پر لب کشائی نہ کرسکے بلکہ برعکس کچھ عرب ممالک نے تو اسرائیل کے حق جاسوسی اور مخبری جیسی شرمناک حرکتیں بھی انجام دیں اور اس طرح سے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے قتل میں شریک ہوکر اپنے لئے غداری اور مکاری کے ایک اور ننگ کو رقم کر دیا۔ O.I.C اور عرب لیگ کا بھی یہی کردار رہا اور انہیں بھی غزہ کے بچوں اور خواتین کی پکار جگا نہ سکی، کاش یہ لوگ یورپی یونین اور امریکہ سے سبق لیتے کہ کس طرح انہوں نے اپنے نئے اتحادی "یوکرائن" کی حمایت میں "روس" پر بین الاقوامی دباو ڈال کر اسے ایک بڑی مشکل سے دوچار کردیا۔

3۔ اگرچہ بڑی طاقتیں جن میں امریکہ اور برطانیہ سرفہرست شامل ہے، غزہ کی نسل کشی میں اسرائیل کی حمایت کے علاوہ ان مظالم کا جواز فراہم کرنے کے لئے بھی کوشان رہیں لیکن وہیں پر امریکی لاطینی ھویتیں جس میں Argentina, Venezuela, Brazil  قابل ذکر ہیں اسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیار کرگئیں اور اپنے سفیروں کو بھی اسرائیل سے واپس بلا کر اسرائیل کے ساتھ سیاسی اور سفارتی تعلقات کو ختم کرنے کی دھمکیاں بھی دیں۔
کاش مصر اور اردن بھی ایسا ہی کرتا، برعکس مصر اس حد تک گر چکا ہے کہ آج کے  مذاکرات میں بھی اسے زیادہ تر اسرائیلی مفادات کا خیال ہے اور غزہ کے محاصرے میں بھی اس کا سازشی رول ہے۔

4۔ اس بار عالمی سطح پر {بلا تفریق مذہب و ملت} آزاد اندیش لوگوں اور ملتوں نے، اسرائیل کے خلاف احتجاجی ریلیاں منعقد کرکے غزہ کے لوگوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کی نئی مثال پیش کردی یہاں تک نیویارک اور لندن جیسے ظلم کے ایوانوں کے نزدیک بھی اسرائیل مردہ باد اور Gaza will be free  کے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے اور اسی احتجاج کا نتیجہ تھا کہ برطانوی نائب وزیر خارجہ استعفٰی دے گئے اور امریکی اور برطانوی حکمران، اسرائیل کو عالمی غضب سے نجات دینے کے لئے جنگ بندی کے منصوبے پر سوچنے لگے۔

5۔ حماس نے صرف کم رینج کے چھوٹے میزائلوں کے ذریعہ دنیا کو ایک ایسی سفاک فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جس نے 47 سال قبل تین عرب ممالک، مصر، اردن اور لبنان کی فوج کو شکست دے کر انہیں سرنڈر کرنے کے لئے مجبور کر دیا تھا اور اس طرح سے یہ بات واضح اور روشن ہوگئی کہ اسرائیل کی شکست افسانہ نہیں ہے بلکہ ایک حققیت ہے اور اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ عرب ممالک تیل سے حاصل شدہ عظیم ثروت سے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے کے بجائے فلسطینیوں کو جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے مسلح کرکے اسرائیل کی نابودی اور خاتمہ میں اپنا کردار ادا کریں۔

6۔ غزہ کی یہ جنگ اگرچہ فلسطینیوں کی جانی اور مالی تباہی کا سبب بنی لیکن اس جنگ نے تو خود اسرائیل کی معیشت کو دیوالیہ بنا دیا۔ چنانچہ اسرائیلی اخبار "ہارٹز" نے اپنی حالیہ رپورٹ میں حکومتی عہدیداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ غزہ کی پٹی پر حملے کے پہلے بارہ دنوں میں حکومت کو 585 ملین ڈالر کی رقم صرف کرنا پڑی ہے۔ حماس کا اسرائیلی راجدھانی کو نشانہ بنانے کہ وجہ سے دسیوں غیر ملکی فضائی کمپنیوں نے اسرائیل کے لئے اپنی پروازیں معطل کیں جس کے نتیجے میں اسرائیلی اقتصاد کو پہنچنے والا نقصان اس کے علاوہ ہے جو 585 ملین ڈالر سے کئی گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔

اسرائیل کے ایک اور بڑے اخبار" یذیعوت امروتوٹ" نے اپنے عبرانی ایڈیشن میں بتایا ہے کہ غزہ پر بمباری اسرائیل کو خاصی مہنگی پڑ رہی ہے اور صرف " آئرن ڈوم پر روزانہ 10 ملین ڈالر کے اخراجات کے برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے خیال میں غزہ پر ایک ماہ کی یلغار کے دوران اسرائیل کے کئی ارب ڈالر کی قیمت چکانی پڑی ہے اور اسرائیل کے کئی ہوائی اڈوں پر پروازوں کی آمدورفت کی منسوخی کے بعد"تل ابیب" مجموعی طور پر  بھوتوں کا شہر بن چکا ہے۔ لہذٰا ان حقائق کو مدنظر رکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل حماس کی مقاومت “Resestence” کی وجہ سے اقتصادی طور بھی کافی غیر مستحکم ہے جس کی وجہ سے وہ طولانی مدت کی جنگ کی برداشت کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا اور یہی اس کے شکست کی دلیل ہے۔


خبر کا کوڈ : 404059
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش