0
Wednesday 13 Aug 2014 22:31

فلسطین! مزاحمت کی بےنظیر مثال

فلسطین! مزاحمت کی بےنظیر مثال
تحریر: صابر کربلائی 

سرزمین انبیاء علیہم السلام ’’فلسطین‘‘ کی غزہ پٹی پر آج جو کچھ ہو رہا ہے اس بارے میں صرف غزہ کے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کس طرح غزہ پر صیہونی دشمن بھاری گولہ بارود، گن شپ ہیلی کاپٹروں، توپوں، اور جدید ترین اسلحہ سے حملہ آور ہے، یہ سب ایسے مظالم ہیں کہ شاید ہمارے خواب اور خیال سے بھی آگے ہیں، فلسطین میں ایک طرف ظلم اور بربریت اور سفاکیت کی انتہا کر دی گئی ہے لیکن سلام ہو اس ملت عظیم فلسطین پر کہ جس نے غاصب اسرائیلی دشمن کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ فخر سے سر کو بلند کر کے اپنا سر کٹوانا تو پسند کیا ہے لیکن غاصب اسرائیلی دشمن کے سامنے جھکانا نہیں۔

آج مغربی کنارے اور غزہ میں موجود الفتح اور فلسطینی اتھارٹی کے پولیس اہلکار شرمسار ہو رہے ہیں اور اپنے گھروں کو لوٹ کر جانے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ ایک طرف جہاں غاصب اسرائیلی دشمن نے فلسطینیوں پر ظلم کی حدیں پار کی ہیں وہاں یہ نام نہاد فلسطینی اتھارٹی اور اس کے پولیس اہلکار بھی کسی سے کم نہیں ہیں، غزہ پر ہونے والے حملے کے پہلے روز ہی ان پولیس والوں نے اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے 34 اراکین پارلیمنٹ کو گرفتار کر کے غاصب اسرائیل کے حوالے کر دیا، آج یہ سب کے سب شرمندہ ہیں کیونکہ پورا فلسطین مزاحمت کر رہا ہے اور اپنا دفاع کر رہا ہے، یہ سوچ رہے ہیں کہ اب اپنے گھر والوں کو پلٹ کر کیا منہ دکھائیں گے؟ کیونکہ فلسطینی باغیرت، شجاعت اور دلیر ملت نے دنیا بھر کے جابروں اور سامراجی قوتوں کے سامنے اپنا اٹل فیصلہ رکھ دیا ہے اور وہ ہے مزاحمت کا فیصلہ، کہ اب غزہ پر جاری صیہونی جارحیت کا فیصلہ اسلامی مزاحمت ہی کرے گی۔

میں یہاں پر ایک بات عرض کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ شاید پاکستان کے باشعور اور پڑھے لکھے لوگ اس بات کو پڑھنے کے بعد یہ کہنا شروع کر دیں کہ یہ سب جذباتی باتیں ہیں جیسا کہ ہمارے اس باشعور معاشرے میں کہا جاتا ہے، چند افراد کہ جنہیں صرف ٹی وی کے ٹاک شوز پروگراموں میں بیٹھ کر فلسطین اور غاصب اسرائیل کے بارے میں تبصرے کرنا ہوں اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بہت ہی بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہے، تو بات صرف یہاں ٹی وی پروگراموں میں بیٹھ کر باتیں کرنیوالوں تک نہیں ہے، یہاں عملی جدوجہد کرنا پڑتی ہے، اپنی عزت اور ناموس کی حفاظت کے لئے اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے نہ کہ صرف باتیں کی جائیں، بہرحال جو لوگ بھی اس بات کو جذباتی نظر سے دیکھتے ہوں ان کے لئے واضح کرتا ہوں کہ ’’یہ فلسطینی ملت کی غاصب اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں مزاحمت صرف جذبات اور نعروں کی حد تک نہیں، بلکہ ملت فلسطین کی یہ مزاحمت ان کی عزت، شرف، کرامت، شجاعت، دلیری، غیرت اور بہادری کا نتیجہ ہے‘‘۔

دنیا کے تمام باشعور افراد کو مخاطب کرکے کہتا ہوں جو فلسطین کے عظیم عوام کی پاکیزہ جدوجہد اور مزاحمت کو جذبات سے تشبیہ دیتے ہیں خدارا عقل سے کام لیجئے اگر آپ مظلوموں کی مدد نہیں کر سکتے تو کم سے کم ان کے زخموں پر نمک پاشی نہ کریں، ہو سکتا ہے ہمارے معاشرے کے باشعور اور بہت زیادہ پڑھے لکھے افراد کو شاید میری باتیں بھی جذباتی نظر سے سمجھ آ رہی ہوں لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ آج ملت فلسطین غاصب اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں اس قدر تنگ کر دی گئی ہے اور ان پر زندگی کو اس قدر تنگ کیا گیا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شہادت طلب کاروائیاں انجام دیں، اور فلسطینی مزاحمت کی یہ شہادت طلب کاروائیاں صرف اس لئے نہیں کہ جذبات ہیں، بلکہ یہ ملت بزرگ فلسطین کی اللہ پر ایمان، قیامت پر ایمان اور موت پر ایمان اور پھر موت کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر ایمان کا نتیجہ ہے کہ جس نے اس عظیم ملت کو غاصب اسرائیلی صیہونی دشمن کے مقابلے میں مزاحمت اور شہادت پر آمادہ کیا ہے۔

دنیا بھر کے ان باشعور افراد کو چاہیئے کہ جو شاید دانستہ یا پھر نادانستہ طور پر ملت فلسطین کی غاصب اسرائیل کے مقابلے میں دفاعی مزاحمت کو جذبات کا نام دے کر بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس قسم کی باتیں کرنا ترک کر دیں اگر آپ دفاع پر یقین نہیں رکھتے یا پھر مزاحمت پر آپ کسی وجہ سے فلسطینیوں کی مزاحمت کو پسند نہین کرتے تو کم سے کم اتنا ضرور کیجئے کہ فلسطینیوں کی پاکیزہ اور اسلامی مزاحمت کے خلاف اپنی تنقید کو بند رکھئے اور انتظار کیجئے کہ فیصلہ ہو جائے، فلسطین مزاحمت یا پھر غاصب صیہونی دشمن اسرائیل، اسی طرح حکمرانوں اور طاقتور افراد سے بھی گزارش ہے کہ عالمی فورمز پر بیٹھ پر فلسطینیوں کی مزاحمت پر انگلیاں اٹھاتے ہیں لیکن مزاحمت کے اصولوں اور اس کی بنیاد تک سے نابلد ہیں، خدارا فلسطینیوں کی مدد نہیں کر سکتے ہو تو ان کی مزاحمت کے خلاف اپنی سازشیں بھی نہ کرو۔

آج فلسطین میں رونما ہونے والے ہر حادثے کے بعد دنیا اس بات کا مشاہدہ کر رہی ہے کہ فلسطین مزاحمت میں مزید مضبوطی اور پائیداری سے آگے بڑھ رہا ہے، کل تک جو لوگ فلسطین میں فلسطینی مزاحمت سے اختلافات رکھتے تھے آج وہ بھی فلسطین کی بقاء کو مزاحمت کے راستے میں ہی دیکھ رہے ہیں، حتیٰ کہ اب تو الفتح کے اندر بھی کچھ بڑے عہدیداروں نے اپنی تنظیم کو خبردار کیا ہے کہ وہ حماس اور فلسطینیوں کی مزاحمت کے درمیان کسی قسم کی سازشوں کو برداشت نہیں کریں گے اور ایسی تمام کوششوں کو جن سے فلسطین کی مزاحمت کو نقصان پہنچے اس کا راستہ روکیں گے۔ اس کے علاوہ اب تو مصر، اردن اور شام میں بھی مزاحمت کی بھرپور حمایت کی جا رہی ہے، شام جو کہ ایک بڑی جنگ سے نکل کر آیا ہے، شامی صدر بشار الاسد نے اپنی پہلی تقریر میں فلسطینی مزاحمت کی مدد کرتے رہنے کا اعلان کر کے امریکہ اور اسرائیل کے اس ناپاک مقصد کو ناکام بنا دیا ہے جس کے تحت عالم مغرب اور غاصب اسرائیل نے شام میں انارکی پھیلانے کے لئے دہشت گرد گروہوں کی مدد کی تھی۔

لبنان پہلے دن سے مزاحمت کی عظیم الشان مثال ہے کہ جس نے 2006ء میں بھی فلسطینیوں کی مدد کی خاطر غاصب اسرائیل کے ساتھ جنگ شروع کی تھی اور پھر یہ جنگ 33روز جاری رہنے کے بعد اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کی کامیابی اور فتح کے ساتھ ختم ہوئی تھی، اسی طرح لبنان آج بھی فلسطین مزاحمت کے ساتھ کھڑا ہے، حال ہی میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے دنیا پر واضح کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ حزب اللہ اور اس کے مجاہدین فلسطینی مزاحمت کے ساتھ ہیں اور فلسطینیوں کو کسی میدان میں نہ پہلے کبھی تنہا چھوڑا تھا اور نہ اب چھوڑیں گے۔

خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین کے بہادر اور دلیر عوام نے 1948ء سے ہی اپنی آزادی کا جو راستہ اختیار کیا ہے وہ مزاحمت کا ہے، اور یہ جذبہ شہادت ہے جو اس مزاحمت کو کمزور نہیں ہونے دے رہا، آج فلسطین کا بچہ بھی غاصب اسرائیلی ٹینکوں اور توپوں کے سامنے ہاتھوں میں پتھر لئے بہادری سے ڈٹ جاتا ہے لیکن افسوس ہے ہمارے حکمرانوں پر جو نہ صرف فلسطین کی مزاحمت کی حمایت نہیں کرتے بلکہ اس کے خلاف سازشیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، آج ایک مرتبہ پھر وہی صورتحال پیدا ہو چکی ہے جو جولائی 2006ء میں لبنان میں پیدا ہوئی تھی، آج ایک مرتبہ پھر مزاحمت فیصلہ کن مراحل میں ہے، اور پورے کا پورا فلسطین مزاحمت کی بےنظیر مثال بن چکا ہے، جہاد اسلامی فلسطین ہو، یا اسلامی مزاحمت حماس، یا پھر حزب اللہ، اور یا پھر القسام اور سی طرح پالور لبریشن آف فرنٹ سب کے سب متحد ہیں اور غاصب اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکے ہیں، پس فلسطین کی مزاحمت کو دنیا کے لوگوں سے کچھ مدد نہیں چاہیئے، وہ ہم سے یہ مطالبہ نہیں کر رہے کہ ہم بھی ان کے ساتھ میدان میں آ جائیں بلکہ صرف اور صرف ان کا مطالبہ یہ ہے کہ خدارا ٹی وی پروگراموں میں بیٹھ کر باتیں کرنے اور فلسطین کی مزاحمت کے خلاف سازشوں کا سلسلہ بند کر دو۔
خبر کا کوڈ : 404603
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش