0
Sunday 17 Aug 2014 20:04

عظیم تر اسرائیل! مشرق وسطٰی کیلئے صیہونی منصوبہ

عظیم تر اسرائیل! مشرق وسطٰی کیلئے صیہونی منصوبہ
تحریر: صابر کربلائی

عظیم تر اسرائیل یا پھر گریٹر اسرائیل کے جملے سے تو دنیا آشنا ہے، لیکن اس بارے میں شاید اکثریت اس بات سے آشنا نہیں ہے کہ آخر یہ گریٹر اسرائیل کیا ہے؟ گریٹر اسرائیل کہاں سے شروع ہے اور کہاں پر ختم، شاید کوئی نہیں جانتا لیکن دنیا کے باشعور اور سیاست دان اور حکومت دان اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ آخر یہ گریٹر اسرائیل کا ماجرا کیا ہے؟ اور اس کے پیچھے کیا منطق کارفرما ہے۔ گریٹر اسرائیل ایک ایسے منصوبے اور خواب کا نام ہے جسے صیہونیزم کے بانی تھیوڈر ہرزل نے بنایا اور دیکھا تھا، اس خواب کی تعبیر کچھ اس طرح سے کی گئی تھی کہ اسرائیل کا قیام سرزمین فلسطین پر کیا جائے جس میں بظاہر صیہونی کامیاب ہوئے اور اس کامیابی میں برطانوی سامراج (بوڑھے استعمار) اور عالمی دہشت گرد امریکہ اور یورپی ممالک کی سرپرستی حاصل تھی، بہرحال غاصب اسرائیل کے وجود کا تعین ہرزل نے کچھ اس طرح کیا ہے کہ اسرائیل کی سرحدیں نیل کے ساحل سے فرات تک جا ملتی ہیں جسے ’’گریٹر اسرائیل ‘‘ کہا جاتا ہے۔

اسی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ماضی میں متعدد جنگیں بھی لڑی گئیں جس کے نتیجے میں اسرائیل مصر اور سینا میں کافی حد تک علاقوں پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوا، اسی طرح شام اور لبنان پر بھی اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوا، البتہ لبنان میں اسرائیل کو 2000ء میں حزب اللہ کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پھر لبنان سے نکل کر اسرائیل واپس اپنی حدود بندی میں چلا گیا لیکن آج بھی شیبا فارمز، اور گولان کی پہاڑیاں جو شام اور لبنان کا حصہ ہیں پر صیہونیوں کا تسلط قائم ہے۔ موجودہ صیہونی حکومت اور اس کے کارندے جس میں نیتن یاہو اور صیہونی افواج شامل ہیں اس کوشش میں مصروف عمل ہیں کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو کس طرح کامیابی تک پہنچایا جائے اور صیہونیزم کے بانیوں کی خواہشات اور خواب کے مطابق ایک عظیم تر اسرائیل کا وجود عمل میں لایا جائے جس کی سرحدیں فلسطین سے شروع ہو کر نیل (مصر) سے ہوتے ہوئے فرات تک جا پہنچیں جس میں لبنان اور شام بھی شامل ہوں۔ موجودہ دور کو دیکھ کر اور گزرتے ہوئے حالات و واقعات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اسرائیل یکے بعد دیگرے اپنی سازشوں اور حملوں کے باعث اس کوشش میں مصروف عمل ہے کہ کسی بھی طرح گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا جائے، یہی وجہ ہے کہ شاید گذشتہ تین برس سے شام میں صیہونیوں کی منصوبہ بندی کے تحت چند نام نہاد اسلام کے نام لیوا گروہ شامی حکومت جو فلسطینی کاز کی حمایت دار ہے کا خاتمہ کرنے کے لئے معصوم انسانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں اور پوری عالمی سامراجی قوتیں اور عرب مسلم ریاستیں آپس میں مل کر اس محاذ پر آ چکی ہیں لیکن تاحال ان کو ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے۔

مشرق وسطٰی بالخصوص مصر، عراق، لبنان، شام کی موجودہ صورتحال کو دیکھ کر واضح طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ دراصل صیہونی منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے، جسے صیہونی گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل تک لے جانا چاہتے ہیں۔ غاصب اسرائیل نے ایک طرف صیہونی آباد کاری میں تیزی دکھانا شروع کر دی ہے اور صیہونی ریاست اسرائیل یہ چاہتی ہے کہ فلسطین میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کر دیا جائے تاکہ 1948ء میں بےگھر کئے جانے والے فلسطینیوں کی فلسطین واپسی کا جواز ہی ختم ہو جائے، اسی طرح ایک طرف اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے تو دوسری طرف مغربی کنارہ بھی اسرائیل کے محاصرے میں ہے جہاں انسانوں کی زندگی کو درجنوں خطرات لاحق ہیں۔ بعض محققین اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ صیہونیزم کے بانی تھیوڈر ہرزل کے منصوبے کے مطابق تعمیر ہونے والے گریٹر اسرائیل مصر، سینا، وادی نیل سے ہوتا ہوا گزرتا ہے اور اس میں دوسری طرف لبنان اور شام سمیت عراق اور سعودی عرب بھی شامل ہیں، یعنی گریٹر اسرائیل کا مطلب القدس سے مکہ المکرمہ تک صہیونی ریاست اسرائیل کا قیام ہے۔

Mahdi Darius Nazemroaya کی 2011ء میں گلوبل ریسرچ رپورٹ میں The Yinon Plan جو کہ برطانوی کالونیوں کے لئے بنایا گیا ہے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ، The Yinon Plan میں واضح طور پر اسرائیل کے لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے وجود اور حدود کو ازسرنو جائزہ لے کر خطے میں اردگرد موجود چھوٹی عرب ریاستوں کو اپنے اندر سمیٹ لے یا پھر ان کو کمزور کرے تاکہ ان کے ساتھ جب چاہے جس طرح چاہے تعلقات سے فائدہ اٹھا سکے۔ اس رپورٹ میں اسرائیل کے لئے سب سے بڑا اور اہم چیلنج عراق کو قرار دیا گیا ہے جو اسرائیل کے لئے سر کرنا انتہائی مشکل ترین کام ہو سکتا ہے، کیونکہ عراق ایک ایسا ملک ہے جو نہ صرف عربوں کے لئے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ایشیائی ممالک کو بھی اسی سہولت سے آراستہ کرتا ہے۔ لہذٰا The Yinon Plan میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل عراق کو دو الگ ریاستوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے یعنی کردستان اور عراق میں دو عرب ریاستیں تشکیل دی جائیں جس میں ایک شیعہ مسلمانوں کے لئے جبکہ دوسری سنی مسلمانوں کے لئے، The Yinon Plan میں واضح طور پر اشارہ دیا گیا ہے کہ اسرائیل صرف اور صرف عراق کو تقسیم کرنے کے عمل سے ہی اپنے مقاصد کی تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران پر عراق کا حملہ بھی اسی منصوبہ بندی کا ایک جز تھا جسے The Yinon Plan میں زیربحث لایا گیا ہے۔ اسی طرح 2006ء میں لبنان پر اسرائیلی حملہ، 2008ء میں غزہ پر اسرائیلی حملہ، پھر 2011ء میں شام میں دہشت گردوں کی مدد سے اسرائیل نے شام کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کی، یہ سب کچھ صرف اور صرف گریٹر اسرائیل کے قیام کو عمل میں لانے کے لئے کیا گیا ہے۔

2008ء میں The Atlantic اور 2006ء میں U.S. military146s Armed Forces Journal ان دونوں نے The Yinon Plan میں مشرق وسطٰی کے نئے نقشے کو زیربحث لاتے ہوئے اس نقشے کی تصاویر بھی شائع کی تھیں جس سے واضح طور پر نظر آتا ہے کہ گریٹر اسرائیل جو مصر، لبنان،شام، عراق سمیت سعودی عرب تک اپنی سرحدوں کا تعین کرتا ہے۔ اس منصوبے میں عراق کی تقسیم، لبنان کی تقسیم، مصر اور شام کی تقسیم کو بھی زیربحث لایا گیا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ ایران، ترکی اور بالخصوص پاکستان کی تقسیم کار کے عمل کو بھی اسی منصوبے میں زیربحث لایا گیا جس منصوبے کو ہم The Yinon Plan کہتے ہیں۔ اس منصوبے میں شمالی افریقا، لیبیا اور سوڈان کو بھی معاف نہیں کیا گیا ہے۔ گریٹر اسرائیل کا قیام ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ خطے کی عرب ریاستیں تقسیم ہو کر بہت ساری چھوٹی ریاستوں میں تبدیل ہو جائیں، اس منصوبے کا ایک مقصد خطے میں اسرائیل کی بالا دستی اور دوسرا یہ کہ خطے کی تمام چھوٹی عرب ریاستوں پر مکمل کنٹرول۔

یہ بات یاد رکھی جانی چاہیئے کہ صیہونیزم کے بانی تھیوڈر ہرزل اور یہودی ایجنسی کے اعلٰی عہدیدار Rabbi Fischmann نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ، تھیوڈر ہرزل کے مطابق یہودی ریاست کی سرحدیں مصر میں نیل کے ساحل سے لے کر فرات تک ہیں، جبکہ Rabbi Fischmann کے مطابق دریائے مصر (نیل) سے لے کر فرات تک ہیں اور اس میں لبنان اور شام بھی شامل ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل پوری دنیا کے لئے خطرہ بن چکا ہے اور آج دنیا بھر میں مصر، لیبیا، یمن، بحرین، شام، لبنان، عراق، شمالی افریقا، پاکستان، افغانستان سمیت ہر جگہ صیہونی ناپاک منصوبہ بندیاں کارفرما ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمارے ممالک کے لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں جبکہ صیہونیوں نے اپنے ناپاک گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل کے لئے کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو انجام دینے کا عزم کر رکھا ہے۔ واضح ہو چکا ہے کہ اسرائیل دراصل فلسطین ہی نہیں بلکہ پوری دنیا بلکہ پاکستان کا بھی دشمن ہے جو پاکستان کو بھی تقسیم کر کے نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 404612
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش