0
Saturday 16 Aug 2014 20:21

فلسطین، مظلومیت بمقابلہ ظلم!

فلسطین، مظلومیت بمقابلہ ظلم!
تحریر: صابر کربلائی

بچپن میں ہر کسی نے بہت سی کہانی سن رکھی ہوں گی، جن میں ظالم بادشاہوں اور جابر حکمرانوں کی کہانیوں سمیت متعدد شامل ہوں گی، یہ کہانی ایک ایسی کہانی ہے کہ جہاں مظلومیت ظلم کے مقابلے میں برسرپیکار ہے اور یہ سلسلہ رکا نہیں ہے بلکہ جاری ہے، 1948ء سے اب تک، اس وقت سے کہ جب غاصب صیہونی اسرائیلیوں نے امریکی اور برطانوی ایماء پر انبیاء علیہم السلام کی سر زمین ’’فلسطین‘‘ پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے کے ساتھ ساتھ مظلوم فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد تقریباً ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ایک ہی دن میں ان کے گھروں اور کھیت کھلیانوں اور باغیچوں سے بے دخل کر کے فلسطین کے پڑوس میں بسنے والی عرب ریاستوں شام، لبنان، اردن اور مصر جانے پر مجبور کر دیا۔ ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی عوام کہ جن میں معصوم بچے، خواتین، مرد اور بزرگ شامل تھے بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور ایک ناجائز اور غاصب ریاست اسرائیل کو برسرپیکار لایا گیا جس نے اس دن سے لے کر آج کے دن تک مظلوم فلسطینیوں پر زندگی تنگ کر دی ہے۔

جی ہاں! میں آج بات کر رہا ہوں فلسطینی پٹی غزہ کی کہ جہاں اٹھارہ لاکھ انسان زندگی گزارتے ہیں، بلکہ زندگی کیا گزار رہے ہیں یوں کہیئے کہ اپنی زندگی سے جان چھڑائے جانے کا انتظار کر رہے ہیں، کیونکہ اس علاقے میں غاصب اسرائیل نے 2006ء کے بعد سے اس وقت کے جب غزہ کے عوام نے عام انتخابات میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کو ووٹ دے کر کامیاب کیا، یہی بات عالمی سامراجی قوتوں بالخصوص شیطان بزرگ امریکہ کو پسند نہیں آئی اور غاصب اسرائیل تو پہلے سے ہی موقع کی تلاش میں تھا، غزہ پر بری جنگ کا آغاز کر دیا گیا اور یہ جنگ اس وقت بھی 22روز تک جاری رہی تھی جس کے نتیجے میں صیہونی اسرائیل نے غزہ کا انفرا سٹرکچر تباہ کر دیا تھا، ہزاروں انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا اور ہر وہ ظلم بپا کیا گیا تھا جو غاصب اسرائیل کر سکتا تھا، لیکن غزہ نے مزاحمت کی اور غاصب اسرائیل کو اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب نہ ہونے دیا۔ امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل نے غزہ میں شکست کھانے کے بعد غزہ کا محاصرہ کر دیا اور غزہ کی طرف آنے والے سمندری راستے اور زمینی راستے پر اپنا مکمل کنٹرول قائم کر دیا تا کہ دنیا بھر سے غزہ کے مظلوموں کی لئے آنے والی امداد غزہ کے عوام تک نہ پہنچ سکے اور اس ناپاک مقصد کے لئے غاصب اسرائیل نے زمینی راستوں سے آنے والے قافلوں کو نہ صرف روکا بلکہ ان کے ساتھ آنے والے امدادی ساز و سامان کہ جس میں خوراک، ادویات سمیت روزمرہ کی ضروریات زندگی کی اشیاء بھی موجود تھیں ان سب چیزوں کو اپنے قبضے میں لے کر ضائع کر دیا اور غزہ کے مظلومین تک نہ پہنچنے دیا، فریڈم فلوٹیلا پر ہونے والا صیہونی حملہ بھی اسی کڑی کا ایک سلسلہ تھا جسے کھلے سمندر میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔

آج فلسطینی پٹی غزہ پر آگ و خون کی بارش جاری ہے، آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اس دن تک پندرہ سو سے زائد فلسطینیوں کی شہادت ہو چکی ہے، غزہ مظلوم ہے اور ظلم کے مقابلے میں ڈٹا ہوا ہے، ایسی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شائع ہو چکی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ غزہ کے مظلوموں کی سحر اور افطار بھی خون میں غلطاں ہوئی، اسپتالوں کی ان عمارتوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جن پر غاصب صیہونی افواج نے ہیلی کاپٹروں اور بھاری توپ خانے سے حملے کئے ہیں، مظلوم فلسطینیوں کے گھروں کی تو بات ہی نہ کیجئے کیونکہ گھر نام کی کوئی چیز تو شاید فلسطینی عوام کے لئے بنی ہی نہیں ہے، ہزاروں ایسے مسمار شدہ گھر ہیں کہ جن کے ملبوں تلے آج بھی معصوم بچوں کی لاشیں نکالی جا رہی ہیں، ظلم تو یہ ہے کہ ایک طرف غاصب اسرائیلی غزہ کے مظلوم عوام کے گھروں کو مسمار کر رہے ہیں تو دوسری جانب ان گھروں میں موجود انسانوں کو بھی گھروں کے ساتھ ملبوں تلے دبایا جا رہا ہے، عالمی ضمیر اور انسانی حقوق کی چیمپئین تنظیموں سے سوال کیا جانا چاہیئے کہ کیا ان لوگوں کا جرم صرف یہ ہے کہ یہ فلسطینی ہیں؟ اگر اس بات کا جواب ہاں میں ہے تو مجھے بھی ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے یہ کہنے میں فخر حاصل ہے کہ اگر فلسطینی ہونا گناہ ہے اور عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کسی بھی فلسطینی کو زندہ نہیں چھوڑنا چاہتے تو پھر میں بھی فلسطینی ہوں، میں ہی کیا بلکہ پورا پاکستان اور یہاں بسنے والے بیس کروڑ انسان بھی اعلان کریں کہ ہم سب کے سب فلسطینی ہیں اور سب کچھ فلسطین کے لئے ہے۔ اگر فلسطینی ہونا گناہ ہے یا کوئی جرم ہے تو ہم خوشی خوشی یہ گناہ اور جرم کرنے پر تیار ہیں، ہمیں فخر ہو گا کہ ہم بھی ایک فلسطینی کہلواتے ہوئے دنیا کے ظالموں اور جابروں کے سامنے سینہ سپر ہو کر شہادت کا سفر طے کریں۔

غزہ پر حملہ کا آغاز غاصب اسرائیل نے کیا لیکن سلام پیش کرنا چاہیئے کہ غزہ کے ان مجاہدین کو کہ جنہوں نے تین ہفتوں سے زائد گزر جانے کے بعد غاصب اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں، اسرائیلی انتظامیہ چاہتی تھی کہ غزہ پر زمینی کنٹرول بھی حاصل کر لیا جائے اور غزہ کے عوام کو غزہ سے نکال دیا جائے تاکہ پورے فلسطین پر غاصب صیہونیوں کا قبضہ قائم ہو جائے، تاہم ان صیہونی دہشت گرد ظالموں کے مقابلے میں مظلوم اپنا دفاع کرنے میں مصروف عمل ہیں اور جہاد اسلامی فلسطین سمیت حماس کی القسام بریگئیڈ صیہونی دشمن کا مقابلہ کر رہی ہے، اور دنیا میں ہمشیہ یہی ہوا ہے کہ فتح تلوار پر خون کی ہوئی ہے، آج پوری دنیا ایک طرف تماشائی بنی ہوئی ہے تو دوسری طرف غاصب اسرائیل کو کھلی چھٹی دی گئی ہے کہ وہ جس طرح چاہے اور جیسے چاہے غزہ پر اپنا تسلط قائم کر لے اور حماس کو نیست و نابود کر دے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے تقدیر کچھ اور ہی لکھ رکھی ہے اور شاید جو لوگ اسلامی مزاحمتی تحریکوں کو غیر مسلح کرنے اور انہیں ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں ان کی یہ خواہشات ان کے ساتھ قبروں میں جا پہنچیں گی۔

خلاصہ یہ ہے کہ غزہ لہو لہو ہے، صرف فلسطین ہی لہو لہو نہیں بلکہ پورا عالم اسلام لہو لہو ہے، فلسطین، مصر، لبنان، شام، لیبیا، اردن، بحرین، یمن، افغانستان ،عراق اور خود ہمارا وطن عزیز پاکستان بھی عالمی صیہونزم کی سازشوں کے نشانے پر ہے، بس دنیا کے مظلوم ترین عوام آج دنیا کے بدترین ظالم، فرعون، نمرود، یزید جیسوں سے برسرپیکار ہیں اور امید ہے کہ فتح و نصرت حق والوں کی ہو گی اور اللہ کا یہی وعدہ ہے کہ وہ زمین پر مظلومین اور مستضعفین کی حکومت کو قائم کر کے ہی رہے گا اور اپنے نور کو ظاہر کر کے ہی رہے گا خواہ یہ بات مشرکین اور منافقین کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔
خبر کا کوڈ : 404613
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش