0
Thursday 21 Aug 2014 00:29

انجام حکمراں کیا ہوگا

انجام حکمراں کیا ہوگا
تحریر: عمران خان
 
پاک فوج پارلیمنٹ، وزیراعظم ہاؤس سمیت اہم عمارات میں داخل ہوچکی ہے۔ پاک فوج کی جانب سے جاری ہونیوالے بیان میں کہا گیا کہ تمام فریقین کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور بامعنی مذاکرات کے ذریعے قومی مفاد میں مسئلہ کا حل نکالنا ہوگا۔ محسوس بھی یہی ہو رہا ہے کہ اگر مذاکرات اور گفت و شنید کے ذریعے یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو پارلیمنٹ کے اطراف میں جو تصادم یا خونریزی ہوگی، موجودہ حالات میں ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حکومت کی پسپائی یہیں سے عیاں ہے کہ تمام تر طاقت رکھنے کے باوجود وہ اس مسئلہ کو حل نہیں کرسکی۔ آرٹیکل 245 جس کا اطلاق سیاسی مقاصد کے لیے نہیں ہوتا، مسلم لیگ نواز نے اپنی حکومت بچانے کے لیے اس کا اطلاق کیا ہے۔ اس تناظر میں پاک فوج کے بیان سے صاف محسوس ہو رہا ہے کہ انقلاب یا آزادی مارچ کے شرکاء پر طاقت کا استعمال ہرگز نہ کیا جائے جبکہ عمران خان وزیراعظم نواز شریف کے استعفے اور ڈاکٹر طاہر القادری میاں برادران کی گرفتاری کی مانگ کر رہے ہیں۔ اب جبکہ مارچ کے شرکاء اور وزیراعظم ہاؤس و پارلیمنٹ کے درمیان فاصلہ بھی باقی نہیں رہا، تو حکومت کا خود کو بند گلی میں انتہائی بے بس محسوس کرنا فطری امر ہے۔ شائد کہ مسلم لیگ نواز کی جگہ حکمران جماعت کوئی اور سیاسی پارٹی ہوتی تو نوبت یہاں تک نہ آتی۔

سیاسی ماہرین اپنی آراء میں بلا تعامل موجودہ حالات و واقعات کا ذمہ دار حکومت کو قرار دے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی متعدد مواقع پر اس کا اظہار کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا کہ حکومت کو اپنے سوا کسی اور سے خطرہ نہیں ہے۔ عمران خان (جنہیں عرصہ دراز سے طالبان خان کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا)، ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی تمام حلیف جماعتیں اس وقت ایک صفحہ پر موجود ہیں۔ ان کے مطالبات آئینی ہیں یا نہیں، قانون میں ان پر عملدرآمد کی کتنی گجائش موجود ہے۔ حکومت ان مطالبات پر کس حد تک عملدرآمد کرنے کو تیار ہے، یا سپریم کورٹ کی جانب سے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو جاری ہونیوالے نوٹسز کیا رنگ لائیں گے۔ ان تمام امور سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ پارلیمنٹ کو چہار جانب سے اس عوام نے گھیر رکھا ہے۔ جن کے قائدین میں اس کے سوا اور کوئی قدر مشترک نہیں کہ دونوں ہی میاں برادران سے نجات چاہتے ہیں۔

حالات پر دقیق نظر رکھنے کے دعویدار کبھی بوٹوں کی بازگشت کی نوید سناتے ہیں تو کبھی قومی حکومت اور مڈٹرم الیکشن کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں۔ وزیراعظم، وزیراعلٰی پنجاب سمیت مسلم لیگ نواز کے دیگر رہنماؤں نے آرمی چیف سے الگ الگ ملاقاتیں کیں ہیں، جن کا حاصل یہی ہے کہ فوج کی جانب سے یہی مشورہ ملا ہے کہ سیاسی بحران کو مذاکرات کے ذریعے اور طاقت کے استعمال کے بغیر حل کیا جائے۔ سیاسی ماہرین اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کر رہے ہیں کہ فوج کے اس موقف سے دھرنا دینے والوں کے پلڑے میں وزن زیادہ ہوگیا ہے جبکہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے جو مطالبات پیش کئے گئے ہیں ان پر فوری عملدرآمد کا زینہ ہی وزیراعظم کے استعفٰی سے شروع ہوتا ہے۔ اگر دھرنا دینے والے مطالبات میں کوئی لچک پیدا نہیں کرتے، فوج بھی اپنے اسی اصولی موقف پر قائم رہتی ہے تو موجودہ حکومت کے لیے وزیراعظم کی قربانی ناگزیر ہوجائے گی۔

سطور کی اشاعت تک مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان ہونیوالی پیشرفت سامنے آچکی ہوگی، مگر ان روابط سے قبل پی ٹی آئی اور پی اے ٹی نے جو اشارے دیئے ہیں اس سے صاف محسوس ہو رہا ہے کہ دونوں جماعتوں کی نظر میں حکومت ختم ہوچکی ہے اور اب یہ مذاکرات ریاست کو بچانے کے لیے کئے جائیں گے۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے یہ بیان کہ وزیراعظم کسی صورت مستعفی نہیں ہوں گے، اپوزیشن اور حکومت کی حلیف سیاسی جماعتوں کی جانب سے آئینی و قانونی ہے۔ ان جماعتوں کی جانب سے یہ خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ آزادی و انقلاب مارچ کے نتیجے میں اگر ہیوی مینڈیٹ رکھنے والا وزیراعظم استعفٰی دیتا ہے تو یہ ایک روایت بن جائے گی اور اتنے افراد کے ساتھ مارچ یا دھرنا دینا کسی بڑی سیاسی جماعت بشمول مجلس وحدت مسلمین کے لیے مشکل نہیں ہے۔ اگر ایک مرتبہ یہ روایت قائم ہوگی تو پھر شائد وطن عزیز میں پنج سالہ انتخابات کے بجائے جون میں پیش ہونیوالے ہر سالانہ بجٹ میں انتخابات کے لیے بھی رقم مختص کرنا پڑے گی، کیونکہ ہر سال کوئی نہ کوئی جماعت دھرنے کے ذریعے حکومت سے نجات کا مطالبہ کرے گی۔
 
بعض افراد کے نزدیک حکومت اس وقت جن مشکلات سے دوچار ہے، ان کا تعلق ریاستی پالیسی میں ہونیوالی بڑی تبدیلیوں سے ہے۔ اس خیال کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ لوڈشیڈنگ، ٹارگٹ کلنگ، مہنگائی، دہشت گردی، دھاندلی، اقربا پروری، جاگیردرانہ نظام، وڈیرا شاہی، کرپشن کے مسائل کوئی نئے نہیں ہیں، لہذا ایک یا ڈیڑھ سال کے بعد وزیراعظم کو فقط ان الزامات کی پاداش میں رخصت کر دینا حیران کن ہے۔ دوسری جانب فوج کی جانب سے جاری ضرب عضب آپریشن، طالبان فکر سے ہم آہنگ سیاسی جماعتوں سے تعاون میں بتدریج کمی اور اکثریتی مسالک کو سیاسی حقوق کی فراہمی کی جانب پیش قدمی ریاستی پالیسی میں تبدیلیوں کی جانب نمایاں پیشرفت ہے۔ اس تبدیلی کو سامنے رکھتے ہوئے اگر وزیراعظم کے طرز عمل اور ماضی کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس تبدیلی کی کامیابی کے لئے میاں برادران کی رخصتی ناگزیر ہے، دیر سے ہی سہی لیکن پالیسی میں یہ تبدیلی انتہائی سودمند اور ملکی مفاد میں ہے۔ چنانچہ وہ جماعتیں جو اسٹیبلشمنٹ مخالف رہی ہیں یا وہ جماعتیں جو طالبان فکر کے نزدیک سمجھی جاتی ہیں، اس وقت حکومت کے ساتھ موجود ہیں، جبکہ طالبان مخالف یا اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک سمجھی جانیوالی جماعتیں بالواسطہ یا بلاواسطہ دھرنے میں شامل ہیں یا دھرنے میں شامل جماعتوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کر رہی ہیں۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دھرنے میں رنگ، نسل، مکتب، مسلک، زبان، مقام کے فرق سے بالاتر پاکستانی شامل ہیں۔ جن کا تعلق مختلف طبقات ہے۔ ان میں صوم و صلوۃ کے پابند باریش نوجوان بھی ہیں، ڈی جے پر جھومنے، رقص کرنیوالے بوڑھے بھی، حجاب اوڑھے ننھی بچیاں بھی ہیں، تو تسبیح تھامے، درود کا ورد کرنیوالی نوجوان طالبات بھی، جینز پہنے ادھیڑ عمر رقص کرتی خواتین بھی ہیں اور فیشن ایبل برگر کٹ کھلنڈرے اسٹوڈنٹس بھی، انہی شرکاء میں وہ بھی شامل ہیں جو سونے سے پہلے اور اٹھنے کے بعد جھاڑو ہاتھ میں لیکر سڑک کی صفائی میں عار محسوس نہیں کرتے۔ ان کے درمیان کوئی صوبائی، علاقائی، لسانی، یا مسلکی کوئی نفرت یا تعصب موجود نہیں ہے۔ یہ شرکاء طبقات، نظریات، عادات، رسومات یا رہن سہن میں چاہیے ایکدوسرے سے کتنے ہی دور کیوں نہ ہوں لیکن پاکستان بچانے کے نام پر، روشن پاکستان کے لیے، نئے پاکستان کے لیے یہ ایک ہیں۔ حکمران ریاستی طاقت کے استعمال سے، یا سیاسی بازیگری سے انہیں آج منتشر بھی کرلیں تو کل یہ کسی اور صورت میں موجود ہونگے، کیونکہ ان کے اندر روشن اور نئے پاکستان کا جذبہ حاکم وقت کے خلاف انہیں آمادہ کرتے رہے گا۔ آج یہ پاکستان سے محبت کے دھرنوں کا حصہ بن کر آئے ہیں، اس لیے ابھی تک ایک پتہ بھی نہیں ٹوٹا، اگر کل یہی نفرت کے گھوڑوں پر سوار ہو کر آئے تو حکمرانوں کا انجام انقلاب فرانس سے مختلف نہیں ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 405858
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش