0
Wednesday 27 Aug 2014 20:44

اقتدار کی بھینس اور نواز شریف

اقتدار کی بھینس اور نواز شریف
تحریر: تصور حسین شہزاد

ایک لطیفہ ہے کہ ایک کسان کی بھینس بیمار ہو گئی۔ وہ ہمسائے کسان کے پاس گیا اور پوچھا کہ جب آپ کی بھینس بیمار ہوئی تھی تو آپ نے کون سی دوا دی تھی۔ ہمسائے کسان نے دوائی کا نام بتایا، نام سنتے ہی پہلا کسان بھاگا بھاگا میڈیکل سٹور پر گیا اور بھینس کے لئے وہی ہمسائے کسان کی تجویز کردہ دوا خریدی اور بھاگتے ہوئے گھر پہنچا اور اپنی بھینس کو وہی دوا پلا دی۔ کچھ ہی دیر بعد بھینس دھڑم سے گری اور اس کی روح پرواز کر گئی۔ کسان روتا پیٹتا ہمسائے کے پاس پہنچا اور کہا میری تو بھینس مر گئی ہے۔ پہلے کسان نے اطمینان سے جواب دیا، میری بھینس بھی مر گئی تھی۔

یہی کچھ میاں نواز شریف کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔ میاں نواز شریف کے اقتدار کی بھینس بیمار ہوئی تو انہوں نے فوراً آصف علی زرداری سے رجوع کیا اور ان سے مشورہ مانگا کہ میرے اقتدار کی بھینس کو انقلاب و آزادی مارچ کے دھرنوں کی بیماری لگ گئی ہے۔ کوئی دوا تجویز کریں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے انہیں افرادی طاقت کا مقابلہ افرادی طاقت کے ساتھ کرنے کا مشورہ دیا۔ اس مشورے کے بعد ہی نواز شریف نے اپنے ارکان اسمبلی کو ملک گیر ریلیاں نکالنے کی ہدایت کر دی۔ لاہور میں شاہراہ فاطمہ جناح پر افرادی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا۔ قرطبہ چوک مزنگ چونگی سے فیصل چوک پنجاب اسمبلی تک ’’استحکام پاکستان ریلی‘‘ کے نام سے افرادی قوت کا مظاہرہ کیا گیا۔ ریلی میں لاہور بھر سے ہزاروں کارکنوں کو گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر قرطبہ چوک لایا گیا۔ ہر لیگی ایم این اے اور ایم پی اے کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ اپنے اپنے حلقے سے عوام کو ریلی میں شامل کریں۔ بہرحال یہ ریلی لاہورمیں ایک اچھا شو تھا جسے فارغ بیٹھے لوگوں نے خوب انجوائے کیا۔ ریلی کے لئے شاہراہ فاطمہ جناح کی جانب آنے والے تمام راستوں کو بند کر دیا گیا تھا۔ اس روڈ پر اہم ترین ہسپتال ہے لیکن ریلی کے روز ہسپتال کی طرف آنے والے تمام راستے بند ہونے کی وجہ سے مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا رہا۔ اس کو کہتے ہیں جمہوریت، کہ ہم کھائیں تو حلال دوسرے کھائیں تو حرام۔

ریلیوں کا یہ سلسلہ نواز لیگ کے کارکنوں سے نکل کر کالعدم جماعتوں میں بھی سرایت کر گیا۔ نواز لیگ کے ساتھ ساتھ کالعدم سپاہ صحابہ نے نواز حکومت کو بچانے کے لئے ریلیوں کا اہتمام کیا جس سے نواز لیگ کے وہ تعلقات بےنقاب ہو گئے جس سے نواز شریف اور شہباز شریف ہمیشہ جھوٹ بول کر بچتے چلے آ رہے تھے۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے ساتھ ساتھ جماعت اہل حدیث نے بھی افرادی قوت کا مظاہرہ کر کے نواز حکومت کی گرتی دیوار کو سہارا دینے کی ناکام کوشش کی ہے۔ نواز حکومت اول روز سے ہی دہشت گردوں کی سرپرست رہی  ہے۔ طالبان کی سرپرستی سے لے کر سپاہ صحابہ کی اخلاقی، مالی اور سیاسی سپورٹ تک، نواز لیگ کا کردار نمایاں رہا ہے۔ دہشت گردوں اور نواز لیگ میں پل کا کردار ادا کرنے کی ذمہ داری رانا ثنااللہ کی ہے جو اس وقت بھی نبھا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز لیگ نے جب ریلیوں کا اعلان کیا تو سپاہ صحابہ بھی میدان میں آ گئی۔

کبھی بھی مظاہروں کا  مقابلہ مظاہروں سے نہیں ہوا کرتا، افرادی احتجاج کا مقابلہ شہریوں کو سڑکوں پر نکال کر نہیں کیا جاتا۔ حکومت اپنے عوام کا مقابلہ اس طرح نہیں کیا کرتی۔ یہ غلطی جو آج نواز شریف نے کی ہے یہ وہی غلطی ہے جو ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی۔ بھٹو کے اقتدار کی بھینس جس دوائی سے مر گئی تھی وہی دوائی آج صدر زرداری نے نواز شریف کو تجویز کی ہے اور نواز شریف نے اپنے اقتدار کی بھینس کو وہی دوا کھلا دی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے غلام مصطفٰی کھر کے ذریعے اپنے اقتدار کی بھینس کو کھلائی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی مصطفٰی کھر کو ہدایت کی تھی کہ وہ بھی عوام کو سڑکوں پر لے آئیں اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ ذوالفقار علی پھانسی چڑھ گئے اور عوامی ریلیاں اسے اور اس کے اقتدار کو نہ بچا سکیں۔ آج وہی کچھ نواز شریف کرنے جا رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کے اقتدار کی بھینس مزید کتنے دن زندہ رہتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 406958
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش