0
Sunday 31 Aug 2014 00:28

مولانا فضل الرحمن، خاموش رہنا عذاب الٰہی کو دعوت دینا

مولانا فضل الرحمن، خاموش رہنا عذاب الٰہی کو دعوت دینا
تحریر: ڈاکٹر عبداللہ حجازی
  
29 اگست 2014ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی رہائش گاہ پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ضلعی مجلس عاملہ کے اجلاس سے خطاب کے موقع پرجے یو آئی کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اسلام آباد کے دھرنے میں بے حیائی کی نمائش ہے، ہماری اسلامی تہذیب پر حملے ہیں۔ یورپ میں ایسے دھرنوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اسلامی ممالک میں نہیں۔ پاکستان کے اسلامی تشخص کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ یورپ میں ایسے دھرنوں کو برداشت کیا جاسکتا ہے پاکستان جیسے نظریاتی ممالک میں نہیں۔ بے حیائی کے دھرنوں پر خاموش رہنا عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے۔ (نوائے وقت، راولپنڈی، 30 اگست 2014ء)

مولانا فضل الرحمن دیوبندی مکتب فکر کے ایک مقتدر عالم ہیں اور اس مکتب کی ایک نہایت اہم تنظیم کے امیر ہیں۔ یقینی طور پر وہ فحاشی و بے حیائی کے حوالے سے اپنا ایک خاص نظریہ رکھتے ہیں اور اس پر اظہار خیال کا بھی انھیں حق پہنچتا ہے۔ البتہ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا پر جس طرح کے پروگرام اور عریانی و فحاشی کے مناظر ہر روز دکھائے جاتے ہیں، وہ ان مناظر سے کہیں زیادہ اندوہناک ہیں جو ان دنوں اسلام آباد کے دھرنوں میں دکھائے جا رہے ہیں۔ ان دھرنوں میں عام طور پر جو ترانے اور قوالیاں پیش کی جاتی ہیں ان میں بالعموم ایسی عبارتیں اور اشعار نہیں ہوتے کہ جن پر مسلمانوں کے تمام مسالک کے علماء کو اعتراض ہو۔ اگرچہ چند مصرعوں اور جملوں پر اختلاف رائے ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں کی بیٹیوں کو یقینی طور پر اپنے آپ کو ڈھانپ کر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور انھیں اس کی پاسداری کرنی چاہیے لیکن اگر مسئلہ بعض خاص مناظر کی وجہ سے یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ مولانا کو یہ فرمانا پڑ گیا کہ ان پر خاموش رہنا عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے تو پھر وہ بدتر مناظر جو ہر روز پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا خاص طور پر دکھاتا ہے، وہی میڈیا جن پر اکثر ہمیں مولانا کی گفتگو سننے اور زیارت کا بھی موقع ملتا ہے۔ اس کے خلاف زیادہ بلند آواز سے احتجاج کرنے کی ضرورت ہے اور اس پر خاموش رہنا زیادہ عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس کے خلاف جے یو آئی کو زیادہ متحرک ہونا چاہیے اور اس کے خلاف زیادہ مظاہروں اور دھرنوں کا انتظام کرنا چاہیے۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ مخالفین یہ سوچنے لگیں کہ شریعت کا نام یہاں پر سیاسی مخالفت کی وجہ سے لبوں پر آیا ہے۔

جہاں تک دین اور شریعت کے احکام کی ترجیحات کا مسئلہ ہے تو اس میں کسی کو شک نہیں کہ ایک بے گناہ مسلمان بلکہ انسان کو جان بوجھ کر قتل کر دینا اسلام آباد کے دھرنوں کے مناظر سے کہیں زیادہ دردناک ہے اور اللہ تعالٰی کی نظر میں ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا(مائدہ:۳۲)
جس کسی نے ایک انسان کو کسی انسان کے بدلے یا فساد فی الارض کے بغیر قتل کر دیا تو اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کر دیا۔

ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(نساء:۹۳)
جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے تو اس کی جزاء جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار رکھا گیا ہے۔

اگر یہ آیات سچی ہیں اور یقیناً سچی ہیں تو پھر مولانا کو چاہیے تھا کہ ان دنوں وہ اسلام آباد کے دھرنوں کے خلاف جس طرح کے مظاہرے کر رہے ہیں، اس سے بڑے مظاہرے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہونے والے قتل عام کے خلاف کرتے۔ ہمیں شک نہیں کہ مولانا ان مقتولوں کو انسان اور مومن سمجھتے ہوں گے۔

جنوری 2013ء میں جب کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے لاتعداد مظلوموں کے لاشے علمدار روڈ پر پڑے تھے اور شہیدوں کے وارث ان کی مظلومیت کی دہائی دے رہے تھے اور قاتلوں کے خلاف بے حس حکومت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہے تھے، مولانا جس حکومت کا حصہ تھے، اس وقت بھی مولانا نے فرمایا تھا کہ شریعت کا حکم یہ ہے کہ جنازوں کو فوراً دفنا دیا جائے۔ مولانا جنازوں کو کندھا دینے کو تو نہ پہنچے اور نہ آج تک ان مظلوموں کی حمایت میں انھوں نے کوئی مظاہرہ کیا لیکن جنازوں کو فوراً دفنانے کا شرعی حکم بیان کرنا انھوں نے اپنی شرعی ذمے داری ضرور سمجھا۔ مولانا سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ شریعت میں ترجیحات اور مرجحات کا بھی ایک باب ہے۔ اہم اور مہم کا بھی ایک موضوع ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ مولانا کی ترجیحات اپنی ہیں۔

عمران خان کو مولانا مسلسل یہودی ایجنٹ کہتے آرہے ہیں۔ دلیل کا جواب دلیل سے دینا مشکل ہوتا ہے لیکن الزامات لگا دینا آسان ہوتا ہے۔ مولانا جانیں اور یہودی ایجنٹ کا الزام جانے، ہمیں کسی کی وکالت نہیں کرنا، لیکن ہم اتنا ضرور عرض کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ قبلہ! کیا عمران خان کی یہ بات بھی غلط ہے کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد آج تک جتنے حلقے کھولے گئے ہیں ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں اور بے اعتدالیوں کے ثبوت ملے ہیں۔ اس کے بعد اگر وہ یہ کہتے رہے کہ چار حلقے کھول دیئے جائیں تو کیا اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے مولانا صاحب اور ان کے ساتھی یہ آواز نہیں اٹھا سکتے تھے کہ ’’یہودی ایجنٹ‘‘ کو خاموش کرنے کے لیے ان چار حلقوں کو کھول دیا جائے، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔

اسی طرح سے اس ملک میں مولانا سمیت بڑی بڑی سیاسی شخصیات پر مالی کرپشن کے بھی الزامات ہیں۔ نقل کفر کفر نباشد۔ ہم اس پر کچھ نہیں کہتے، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ اربوں روپوں کی بددیانتی کے الزامات کی اس ملک میں غیر جانبدارانہ تحقیق قابل عمل دکھائی نہیں دیتی۔ کیا اس ملک کے مظلوم عوام کی اس دولت کے بارے میں حقائق منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ’’یہودی ایجنٹ ‘‘ہی میدان میں آئے، بھوک کی وجہ سے خود کشیاں کرنے والوں کے ملک میں شریعت اسلامی کا عالم اس پر کیوں نہ میدان میں آئے بلکہ سب سے پہلے تحقیقات کے لیے اپنے آپ کو پیش کرے اور تحقیقات نہ ہوں تو دھرنے بھی دے اور مظاہرے بھی کرے۔ اگر آبگینوں کو ٹھیس لگنے کا خیال نہ ہوتا تو کہنے کو اور بھی بہت کچھ تھا، یار زندہ صحبت باقی۔
خبر کا کوڈ : 407379
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش