0
Monday 1 Sep 2014 14:41

حماس، عسکری اور سیاسی قیادت کا حتمی فیصلہ

حماس، عسکری اور سیاسی قیادت کا حتمی فیصلہ
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


فلسطینی پٹی غزہ پر غاصب اسرائیل کی جانب سے مسلط کی جانے والی یک طرفہ جنگ کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اس یکطرفہ جنگ میں غزہ میں بسنے والے شہریوں اور معصوم انسانوں میں سے لگ بھگ ڈھائی ہزار کے قریب شہید ہو چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد تو بارہ ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے، اس جنگ میں غاصب اسرائیل نے غزہ میں کسی بھی ایسے مقام کو نہیں چھوڑا ہے کہ جہاں انسان پناہ لیتے ہوں، اسکولوں، پناہ گزین بستیوں، عمارتوں، بجلی گھروں، پٹرول پمپس، اور اسپتالوں سمیت ہر اس مقام کو سفاکانہ دہشت گردی اور میزائلوں کا نشانہ بنایا جہاں ذرہ برابر بھی شک موجود تھا کہ یہاں کوئی فلسطینی موجود ہو سکتا ہے۔ غاصب اسرائیل نے غزہ پر مسلط کی جانے والی اس یک طرفہ جنگ کا آغاز اپنے تین یہودی آباد کاروں کے اغوا اور قتل کے بہانے سے شروع کیا کہ جو خود غاصب اسرائیل کی متعین کردہ حدود کے اندر سے ہی غائب کئے گئے اور پھر بعد میں انہیں قتل کر کے پھینک دیا گیا، بعد ازاں اسرائیلی پولیس اور سکیورٹی اداروں نے بھی اس قسم کی رپورٹس ذرائع ابلاغ کو بتائیں کہ تین یہودی آباد کاروں کے قتل کے معاملے میں کسی فلسطینی کا کوئی تعلق نہیں ہے، جبکہ اس سے قبل ہی فلسطینی کاز کی حمایت کرنے والے اور حریت پسندوں نے تو پہلے ہی ان تین یہودی آباد کاروں کے قتل کو اسرائیلی ڈرامہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ خود اسرائیلی سفاک دہشتگرد انتظامیہ کی کاروائی ہے جبکہ اس کاروائی میں بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد کی خدمات بھی لی گئی ہیں، تاہم یہ غاصب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو تھا کہ جس نے روز اول سے ہی ان تین یہودی آباد کاروں کے معاملے کا ذمہ دار اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کو قرار دینا شروع کر دیا اور پھر بالآخر اپنے ناپاک منصوبے کو جس کے تحت غزہ پر صیہونی جارحیت کا آغاز کرنا تھا۔ ٹھیک 08 جولائی کو حملہ شروع کر دیا گیا جو تاحال جاری ہے۔

اسرائیل نے غزہ پر 2008ء اور 2012ء کے بعد جس نئی جنگ کا آغاز کیا اس کو ''غزہ پر مکمل قبضہ'' سمیت فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کو ''غیر مسلح'' کرنے کے نعرے کے ساتھ شروع کیا اور ایک ایسے وقت میں اس کاروائی کو انجام دیا گیا کہ جب اسرائیل بخوبی جانتا ہے کہ مصر میں آنے والی تازہ ترین حکومت اخوان المسلمون کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد وجود میں آئی ہے اور جنرل السیسی اخوان اور اس کی کسی بھی شاخ جیسا کہ فلسطین میں حماس ہے کی حمایت نہیں کریں گے، لہذٰا اسرائیل نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غزہ پر اپنا مکمل تسلط حاصل کرنے اور فلسطین کی جدوجہد آزادی کے لئے کوشاں فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریکوں جہاد اسلامی فلسطین، حماس اور القسام سمیت دیگر مزاحمتی گروہوں کو غیر مسلح کرنے کے لئے بھرپور حملہ کردیا اور ہزاروں انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔

دوسری طرف مغربی پنڈت اور ان کے نمک خوار ذرائع ابلاغ نے غزہ پر جاری صیہونی جارحیت کو آشکار کرنے کی بجائے غاصب اسرائیل کی حمایت کا کام شروع کر دیا اور غزہ میں ہونے والی تمام تر تباہ کاریوں سمیت غزہ کے معاشی بحران اور غزہ کے محاصرے کا ذمہ دار فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کو قرار دیا جانے لگا، مغربی ذرائع ابلاغ تو جیسے موقع کی انتظار میں تھے کہ غزہ پر کب حملہ ہو اور کب وہ اسرائیل کی حمایت میں اپنا راگ الاپنا شروع کر دیں۔ بہرحال غزہ پر اسرائیل حملے کے نتیجے میں اور اس حملے میں اسرائیل نے نفسیاتی اور جغرافیائی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن شاید ظالم و جابر بھول چکے ہیں کہ جن کے ساتھ اللہ کی مدد و نصرت ہو انہیں ان تمام باتوں کی پرواہ نہیں ہوا کرتی، ایک ابابیل کے کنکر سے ابراہا کے بدمست ہاتھیوں کا کام تمام ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی تحریک کی ابابیلیں بھی اپنے سیاسی نظام کے حکم کی منتظر تھیں کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو غاصب اسرائیل کے اس حملے کا جواب دینے کے لئے کیا احکامات دیئے جاتے ہیں اور پھر وہی ہوا جس کا مجاہدین کو بہت دیر سے انتظار تھا، حماس کی سیاسی قیادت ہو یا پھر عسکری قیادت ہو سب نے مشترکہ اور حتمی فیصلہ کیا کہ غاصب اسرائیل دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔

فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے عسکری ونگ القسام کے ایک اہم ترین کمانڈر نے ذرائع کو بتایا کہ القسام نے پہلے ہی غزہ پر ہونے والے اس صیہونی جارحانہ حملے کے بارے میں حکمت عملی وضع کر لی ہے اور دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار ہیں، جبکہ القسام کے مطابق اس مرتبہ کی جنگ گذشتہ جنگوں کی نسبت کافی تبدیل ہے اور مجاہدین نے اس جنگ سے نمٹنے کے لئے جو حکمت عملی بنائی ہے اس کے تحت سیاسی قیادت کو گفت و شنید کے راستے سے مسائل کو حل کرنے اور غزہ پر صیہونی جارحیت کو روکنے کا فارمولا رکھا گیا ہے جبکہ عسکری قیادت مسلسل عسکری ذرائع سے اسرائیل کے خلاف کاروائیوں کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھے گی جب تک غزہ کا محاصرہ ختم نہیں کیا جاتا اور غزہ پرمسلط یک طرفہ اسرائیلی جنگ کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ القسام رہنما کے مطابق غزہ پر صیہونی اسرائیلی ریاست کا محاصرہ ہے اور یہ رہے گا، تو اسرائیل کی طرف سے شروع کی جانے والی اس جنگ میں سیاسی فیصلوں کا کیا مستقبل ہو سکتا ہے؟ تو کیا ہم معاہدوں کا انتظار کریں کہ عالمی قوتیں آئیں اور آ کر معاہدے کریں، نہیں، ہم غاصب اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے اور اس وقت تک رکھیں گے جب تک فلسطینیوں کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے۔

فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے عسکری ونگ القسام کے ایک رہنما ابوعبیدہ کے مطابق القسام کے پاس اس وقت اتنے ذخائر موجود ہیں کہ اسرائیل سوچ بھی نہیں سکتا اور ہم اس جنگ کو کئی مہینوں تک لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس بات کا اندازہ اسرائیل کو نہیں ہے، انہوں نے بتایا کہ مزاحمتی گروہ کو مسلح کرنے میں ایران اور حزب اللہ نے کو کردار ادا کیا ہے اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ لہذٰا یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی سیاسی قیادت کو بھی واضح طور پر پیغام دیا ہے کہ غاصب اسرائیل کے ساتھ کوئی بھی جنگ بندی کا معاہدہ غزہ کے محاصرے کے خاتمے، قیدیوں کی رہائی، راستوں کو کھولنے سمیت فلسطینیوں کی آزادانہ آمدورفت کو یقینی بنانے جیسے مطالبات کی منظوری کے بغیر نہ کیا جائے۔ فلسطینی مزاحمتی تحریکوں جہاد اسلامی فلسطین اور حماس کے عسکری ونگ القسام کے مجاہدین کہتے ہیں کہ ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ مذاکرات کا دور کتنا طویل اور کتنا وقت لیتا ہے، ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر اسرائیل یہ جنگ سالوں تک جاری رکھنا چاہتا ہے تو ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ دوسری جانب دونوں مزاحمتی گروہوں کی سیاسی قیادت ان مجاہدین کی میدان میں موجود صلاحیتوں اور عسکری مہارتوں اور قوت سے بھی بخوبی واقف ہے۔


ایک سیاسی تجزیہ نگار حسین الدجانی کہتے ہیں کہ اسرائیلی یقینا فلسطینی مزاحمت کی قابلیت سے آگاہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے پر جلد از جلد عمل درآمد چاہتا ہے تاہم جنگ بندی کا جو معاہدہ مصر کی جانب سے پیش کیا گیا ہے اسے حماس کی سیاسی قیادت نے مسترد کر دیا ہے کیونکہ اس معاہدے میں حماس اور فلسطینیوں کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا جا رہا تھا، اسرائیل چاہتا ہے کہ حماس اور جہاد اسلامی کو غیر مسلح کیا جائے اور اس کے بدلے میں اسرائیل اربوں ڈالرز خرچ کر کے غزہ کو از سر نو تعمیر کرنے کی پیش کش بھی کر رہا ہے لیکن القسام کے کمانڈر کہتے ہیں کہ آج فلسطینی مزاحمت پہلے کی نسبت بہت زیادہ طاقتور ہو چکی ہے، کیا اسرائیل نے کبھی یہ سوچا تھا کہ ہم اس کے ایک فوجی کو گرفتار کریں گے اور پانچ سال تک اپنے پاس گرفت میں رکھیں گے اور اسرائیل جیسی خونخوار ریاست اسے تلاش کرنے میں ناکام رہی، بس آج بھی ہم یہی کہتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینی مزاحمت کی طاقت سے ناآشنا ہے، مزاحمت نے اس جنگ میں اسرائیل کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے جسے وہ دنیا کے سامنے چھپا رہے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ عالمی سامراج امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے اس خواب کو کہ فلسطینی مزاحمتی گروہ غیر مسلح ہو جائیں کسی صورت بھی پورا ہوتے نہیں دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ اسرائیل نے غزہ پر جنگ تو مسلط کر دی ہے لیکن اس جنگ میں اب اسرائیل خود بھی بری طرح پھنس چکا ہے اور باہر نکلنے کا راستہ مانگ رہا ہے تاہم فلسطینی مزاحمت کارتنظیموں حماس اور جہاد اسلامی فلسطینی کی سیاسی قیادت ہو یا مسلح قیادت دونوں کا مشترکہ اور حتمی فیصلہ ہے کہ جنگ بندی صرف اور صرف ہمارے مطالبات کے مکمل ہونے کی صورت میں ہو سکتی ہے بصورت دیگر اسرائیل جب تک چاہے ہم اس جنگ کو لڑنے کے لئے تیار ہیں۔
خبر کا کوڈ : 407400
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش