0
Sunday 7 Sep 2014 23:09

بارش سے چینی صدر کی آمد تک...

بارش سے چینی صدر کی آمد تک...
تحریر: حسن نثار

بھوکے ننگے بےامان عوام کے مال مفت پر کئے گئے مہنگے ترین پروپیگنڈے کی کوکھ سے جنم لینے والی’’گڈ گورننس‘‘ لاہور سمیت پنجاب بھر میں غوطے کھاتی پھر رہی ہے۔ سڑکیں گندے نالوں میں اور سارے انڈر پاسز غلیظ جوہڑوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر
کانپ اٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر
استاد الاساتذہ ظفر اقبال کہتے ہیں؎
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیات
نکلی برون شہر تو بارش نے آ لیا

جیسی گندی جعلی جمہوریت ویسی ہی گندی جعلی ’’گڈ گورننس‘‘ جس کی اصل اوقات کاغذ کے پھولوں سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں جو ایک بارش کی مار بھی نہیں سہہ سکتے۔ بیچاری بوڑھی بدشکل لیکن شوقین مزاج آوارہ عورت کی مانند جو تہہ در تہہ میک اپ میں اپنی بدصورتی اور مہنگے ترین پرفیوم میں اپنی بدبو چھپائے پھرتی ہے لیکن بارش کی ایک بوچھاڑ اس کی بدصورتی اور بدبو کو بری طرح بے نقاب کردیتی ہے ......یہ ہے ہماری گڈ گورننس۔ کبھی کم، کبھی زیادہ اور کبھی بہت زیادہ، بارشیں ہر سال آتی ہیں اور عوام کیلئے تباہی و بربادی لیکر آتی ہیں لیکن میٹرو مارکہ ترجیحات میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ بارشوں سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کیلئے مستقل بنیادوں پر کچھ کیا جائے کیونکہ یہ ان حشرات الارض کا مسئلہ ہے جنہیں عوام کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

بارش سے خوبصورت شے کوئی نہیں۔ ’’بیلی پور‘‘ میں تو ویسے ہی ہر صبح ...... صبح بنارس اور ہر شام ...... شام اودھ سے زیادہ اجلی اور سہانی ہوتی ہے۔ ’’ہانسی حویلی‘‘ کی بالکنی سے بارش کا منتظر مبہوت کردیتا ہے، شہر والے گھر کے ٹیرس میں بیٹھ کر بھی بارش دیکھنا "Gone with the wind" کی اس ہیروئین کی یاد دلا دیتا ہے جو چاہتی ہے کہ اسے موت آئے تو اس طرح کہ اس کے اردگرد بارش ہو رہی ہو لیکن یہاں بارش سے لطف اندوز ہونا تو کیا، دلدوز مناظر دیکھ کر آدمی ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ کچے نیم پختہ گھروں کا ڈھے جانا یا بہہ جانا لوگوں کا بےموت مارے جانا اہل ضمیر کو اک ایسے احساس جرم میں مبتلا کردیتا ہے جو انہوں نے کیا بھی نہیں ہوتا لیکن سرور پیلس، پارک لین اور جاتی امراء والوں کی دنیا ہی نرالی ہے۔ ایاز امیر جیسے باہنر و باضمیر آدمی کا یہ ایک جملہ ایک ہزار کالموں پر بھاری ہے۔
"امید کی جانی چاہیئے کہ حکمرانوں کی طرف سے آئندہ چین، ترکی اور دیگر ممالک کے دوروں کے دوران خاندان کے افراد کی نسبتاً کم تعداد شامل ہوگی اور وہ سیمنٹ کارٹل کے چارٹرڈ طیاروں میں سفر نہیں کریں گے۔ تاہم کیا ہم میٹرو بس، فلائی اوورز، انڈر پاسز اور بلٹ ٹرین خبط سے بھی نجات پا لیں گے"؟
نہیں ایاز امیر! خبطیوں سے نجات پائے بغیر کسی ایک خبط سے بھی نجات ممکن نہ ہوگی اور وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ ...... ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان کیکر کے سوکھ چکے درخت سے لپٹ کر بہار کی امید باندھ لے۔ ادھر منہاج القرآن میں بندوقوں سے چودہ مار دیئے، ادھر بارشوں سے اب تک 120 جاں بحق اور کمال یہ کہ جب اسمبلی کے اندر اور باہر ہر طرف آگ لگی ہے، رہی سہی کسر پانی، بارشوں اور سیلابوں کا روپ دھار کر پورا کیے دیتا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ قدر ت سزا دینے اور انتقام لینے پر تلی ہے تب بھی جھوٹوں کے جتھے جھوٹ پر جھوٹ بولنے اور بدترین صورت حال سے سیاسی مائیلج نکالنے کے درپے ہیں۔

یہ دروغ گو سرعام عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو دوش دیتے رہے کہ ان کی دھرنا سیاست کے سبب چین کے صدر نے پاکستان کا دورہ منسوخ کیا جس کی وجہ سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ چینی ترجمان کا زناٹے دار تھپڑ نما یہ بیان میرے سامنے ہے کہ’’چینی صدر کا دورہ پاکستان باضابطہ طے نہیں تھا‘‘۔ واقعی یہ کہیں بھی عوام کو بیوقوف بنانے، جھوٹ بولنے، واردات ڈالنے سے باز نہیں آتے۔ کہیں کوئی کچا پکا جھوٹا سچا Mou بھی سائن کرلیں تو اس طرح گوالمنڈی بھنگڑا ڈالنا شروع کردیتے ہیں جیسے پراجیکٹ ہی مکمل ہوگیا ہو۔ ایسی ہی واردات چینی صدر کے دورہ کے حوالہ سے بھی ڈال دی اور قوم کو یہ تاثر دیتے رہے کہ صدر تو تشریف لا ہی رہے تھے ...... عمران اور قادری نے یہ دورہ ’’سبوتاژ‘‘ کردیا حالانکہ یہ دورہ تو کبھی باضابطہ طور پر طے ہی نہ ہوا تھا۔ چین کی وزارت خارجہ کو ان کی غلط بیانی پر باقاعدہ یہ وضاحت کرنا پڑی کہ صدر ژی جن پنگ کے دورہ پاکستان کا تو باضابطہ اعلان ہی نہیں کیا گیا تھا تو پھر اس کی منسوخی کا کیا سوال؟ میڈیا کو بریفنگ میں ترجمان نے کہا کہ ’’چین اور پاکستان دوست ہمسایہ ممالک ہیں جن کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون قائم ہے۔ دونوں ممالک کے سربراہان ایک دوسرے کے ممالک کے دورے کرتے رہتے ہیں، تاہم چینی صدر کا دورہ حکومتی سطح پر طے ہی نہیں تھا، لہٰذا اس کے منسوخ ہونے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکے‘‘۔

ایٹم بم کی طرح پاک چین دوستی کا معمار بھی ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ آصف زرداری نے اس عمارت پر میناکاری کی اور گوالمنڈی ڈپلومیسی یہ تاثر دینے کے چکر میں تھی کہ یہ ’’اپنا‘‘ ہی کام تھا۔ مزے کی بات یہ کہ ’’جمے جنج نال‘‘ انتہائی سنجیدگی سے اس تاریخی دورے کی تیاریاں بھی فرما رہے تھے جس کا باضابطہ طور پر طے ہونا ابھی باقی تھا۔ بارش سے لیکر برادر ملک چین کے صدر کے دورے تک قدم قدم پر ’’گڈگورننس‘‘ کیسے کیسے کمالات دکھا رہی ہے۔ اس میں اگر ’’مقدس جمہوریت‘‘ کے سایہ تلے ’’مقدس ایوان‘‘ کے اندر چوہدری اعتزاز احسن اور نثار علی خان کے درمیان ہونے والا گھمسان کا رن بھی شامل کر لیا جائے تو جو تصویر بنتی ہے اس کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوگا کہ یہ مکروہ زیادہ ہے یا مضحکہ خیز؟
(بشکریہ از جنگ نیوز)
خبر کا کوڈ : 408701
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش