0
Tuesday 16 Sep 2014 17:52

وی آئی پی کلچر

وی آئی پی کلچر
تحریر: سید قمر رضوی

اس وقت الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر پی آئی اے کی اس موبائل سے بنی ویڈیو کا بہت چرچا ہے جس میں مسافر حضرات رحمٰن ملک کی وجہ سے ہونے والی تاخیر پر سیخ پا ہیں۔ تفصیلات کے مطابق معمول کے وقت سے ڈھائی گھنٹے زائد انتظار کی وجہ سابق وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک صاحب تھے جو اس ملک پر قابض وی آئی پی کلچر کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور تھے کہ سر تا پا یہ ملک اس غلیظ کلچر کی غلاظت میں لتھڑا ہوا ہے۔ بھلا ہو ان چند بزرگوں اور جوانوں کا جو صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر کھڑے ہوگئے اور دنیا کو اصل حقائق کا پتا چل گیا۔ وگرنہ ہمیشہ کی طرح تکنیکی وجوہات کا بہانہ بناکر لوگوں کو بیوقوف بنا کر انکی منزل پر اتار کر انکے منہ پر احسان مارا جاتا کہ تکنیکی خرابیوں کے باوجود بھی تم کمی کمینوں کو صحیح سلامت زمین پر اتار دیا گیا۔

میں نے جب یہ ویڈیو دیکھی تو فوراً میرے زہن میں آیا کہ اس سے رحمٰن ملک کو کیا فرق پڑا ہوگا۔ وہ جہاز تک آنے سے پہلے واپس بھاگ گیا۔ (جو کہ اس کے مجرم ہونے کی واضح دلیل ہے۔) اور کمالِ تسلی سے کسی اور فلائٹ کی بزنس کلاس میں بیٹھ کر اپنی معمول کی پرواز سے پہلے اسلام آباد پہنچ گیا ہوگا۔ اور تھوڑی ہی دیر بعد رحمٰن ملک کی اپنی صفائی اور پی آئی اے کی مذمت میں ٹوئیٹس آنا شروع ہوگئیں کہ جہاز خراب تھا جسکی وجہ سے دیر ہوئی اور اسکا الزام مجھ پر دھر دیا گیا۔  اگر ایسا ہی ہوتا تو ان صاحب کو الٹے پیروں بھاگنے کی بجائے یہ بات وہیں لوگوں کو بتا کر اپنا دامن صاف کر لینا چاہیئے تھا۔ جہاز میں اصل پاکستانی سوار تھے جو پڑھے لکھے، معاملہ فہم اور تہذیب یافتہ  افراد تھے۔  انہوں نے آپکی بات سننا تھی لیکن آپ کا الٹے پیروں دوڑ لگا دینا آپکے مجرم ہونے کا کافی ثبوت ہے۔

دوستو! یہ ہمارے پیارے ملک پر قابض وی آئی پی کلچر کی ایک ہلکی سی جھلک ہے جو کسی مسافر کے موبائل فون کے کیمرے کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچ گئی۔ حقیقت یہ  ہے کہ یہ ملک اور اسکے اٹھارہ کروڑ عوام بمشکل تیس پینتیس ہزار وی آئی پیز کے نخرے دن کے چوبیس گھنٹے  انکی مرضی کے مطابق اٹھاتے ہیں اور ملک پر مسلط "جمہوریت" نامی بدترین "آمریت" کے خوف سے چوں نہیں کرتے کیونکہ سب کو یہ معلوم ہے کہ اگر کسی نے کچھ کہنے کی کوشش تو درکنار، کچھ سوچا بھی تو اس کے گھر والے انتظار ہی کرتے رہ جائیں گے۔ وہ بیچارے یہ بھی طے نہیں کر پائیں گے کہ اپنے اس ہمت والے پیارے کی برسی کس تاریخ کو منائیں۔

میں چونکہ خود وفاقی دارالحکومت میں رہتا ہوں اس لئے اس وی آئی پی کلچر کی نخوست سے بخوبی واقف ہوں۔ یہاں کبھی بھی اور کہیں بھی بیک جنبشِ چھڑی سے تمام رعایا کو ساکت کردیا جاتا ہے۔ یہ ہل نہیں سکتے جب تک کہ بادشاہ سلامت  یا انکے درباریوں کا قافلہ عوام کے منحوس سایوں اور انکی نظر آلود نظروں سے اوجھل نہیں ہوجاتا۔ رحمٰن ملک صاحب ہی کی بادشاہت کے دور کی بات ہے کہ جب وہ بحیثیتِ ملزم راولپنڈی کی عدالت میں مطلوب تھے تو وہ اپنی وزارت کے پروٹوکول کے ساتھ تشریف لائے اور جب تک عدالتی کاروائی جاری رہی، اس عدالت کے اطراف میں ٹریفک یا پیدل افراد تو درکنار، کسی چڑیا کو بھی اڑنے کی اجازت نہ تھی۔ میں خود جناح پارک والی سڑک پر پونا گھنٹہ کھڑا رہا جبکہ اپنی والدہ کو ہسپتال لے کر جارہا تھا۔

ہم اسلام آباد والے کبھی سنا کرتے تھے کہ کراچی میں ٹریفک جام ہوتا ہے لیکن اب یہاں صورتِ حال کراچی سے بدتر ہے کہ جس شہر کا بنیادی ڈھانچہ کچھ اور سوچ کر بنایا گیا تھا اور اس پر بوجھ کسی اور ڈھنگ سے لاد دیا گیا۔ اسکی سڑکوں کی صلاحیت اور انکی تعمیر اس انداز  کی تھی ہی نہیں کہ جتنا ٹریفک ان پر چھوڑ دیا گیا۔ دوسرے یہ کہ گاڑی سڑک پر لانے کے لئے کسی قسم کی تربیت اور قانون کی پاسداری کا کوئی عمل دخل نہیں۔ نہ ہی قانون کی خلاف ورزی پر کسی قسم کی سزا کا کوئی تصور ہے جسکی وجہ اس اسلام آباد کی سڑکوں پر گاڑی چلانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے بچپن  میں ویڈیو گیمز میں چلایا کرتے تھے۔ اس پر مزید عذاب ان وی آئی پی حضرات نے نازل کیا جو کسی بھی وقت کہیں کی بھی سڑکیں بند کروا کر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

اسی وی آئی پی کلچر کی پیداوار ائیر پورٹس پر موجود وی آئی پی لاؤنجز ہیں جہاں کسی عام پاکستانی کا قدم نہیں پڑسکتا۔ ان مسافروں کے لئے بس اڈہ نما ٹرمینلز ہیں جہاں انسانیت کا قتلِ عام دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں قطار کا تصور ہے نہ انتظار کا۔ بس انسان نما مخلوق کا ایک ریلا ہے جو بس آگے بڑھا چلا جارہا ہے۔ اسکو منظم کرنے کا نہ کوئی انتظام ہے اور نہ ہی کوئی اسکو ٹھیک کرنے کا خواہاں۔ ہاں! یہ سب بیک جنبشِ قلم ٹھیک ہو سکتا ہے کہ ایک ایگزیکٹِو آرڈر ہو کہ اس ملک سے وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ آج سے اس ملک کے تمام لوگ برابر ہیں۔ کسی افسر کو کسی ماتحت پر، کسی سرمایہ دار کو کسی ملازم پر، کسی وڈیرے کو کسی ہاری پر، کسی وزیر کو کسی ووٹر پر، کسی پگڑ پوش مولوی کو کسی عام لباس والے اور کسی امیر کو کسی غریب پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ اس ملک  میں عزت و وقار کا وہی مستحق ہے جو سب سے زیادہ بااخلاق اور تہذیب یافتہ ہے۔
لیکن ۔۔۔۔ لیکن میری یہ خواہش دیوانے کے اک خواب سے زیادہ نہیں۔۔۔

رحمٰن ملک اور انکا قبیلہ ہمیشہ ایسے ہی  وی آئی پی لاؤنج کے زریعے پروازیں لیٹ کروا کر سفر کرتے رہیں گے اور اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام اپنی منزل پر پہلے پہنچنے کے لئے وڈیوگیمز کی طرح ہر رکاوٹ کو عبور کرنے کے چکر میں ہی لگے رہیں گے۔ سڑکیں یونہی بلاک رہیں گی  اور وی آئی پی قافلے یونہی آپکے اور منہ پر اپنی نفرت کی دھول اڑا کر چلتے رہیں گے۔ تاوقت یہ کہ اس جہاز پر موجود کھڑے ہو جانے والے لوگوں کی طرح ناانصافی ہونے والے ہر مقام پر موجود لوگ ہمت کریں اور اس آمریت کے خوف کو کچل کر ان وی آئی پیز کا گریبان پکڑلیں۔ باقی افراد انکا ساتھ دیں اور اس پروٹوکول نامی غیر مرئی چڑیل کا جنازہ نکال دیں۔ جس دن کسی ایک وی آئی پی نے بھی عام آدمی کی تکلیف اور اسکے کرب کا ادراک کرلیا، اس دن ممکن ہے کہ مساوات والا ایگزیکٹو آرڈر آجائے۔
خبر کا کوڈ : 410009
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش