0
Wednesday 20 Oct 2010 14:11

نیٹو کی بے بنیاد الزام تراشیاں بند ہونی چاہئیں

نیٹو کی بے بنیاد الزام تراشیاں بند ہونی چاہئیں
 نیٹو کے حکام نے ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ان کے نائب ایمن الظواہری پاکستان میں ہیں اور چین کی سرحد کے قریب چترال اور کرم ایجنسی کے درمیانی علاقے میں چھپے ہوئے ہیں۔انہیں مقامی لوگوں کے علاوہ پاکستان کی بعض سرکاری ایجنسیوں کی پشت پناہی حاصل ہے جو انہیں باقاعدہ تحفظ دے رہی ہیں۔انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ دونوں رہنما غاروں میں رہنے کی بجائے ایک ہی علاقے کے الگ الگ آرام دہ گھروں میں قیام پذیر ہیں،جہاں انہیں ہرطرح کی سہولتیں حاصل ہیں۔
 ادھر سی این این نے نیٹو کے ایک ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی اطلاعات کے مطابق کوئٹہ شوریٰ کے طالبان لیڈر ملاعمر افغانستان سے کئی مہینے قبل کوئٹہ اور کراچی کے درمیان کسی جگہ منتقل ہو چکے ہیں۔ان ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملاعمر،حقانی اور حزب اسلامی (گلبدین حکمت یار) کو تیس ہزار سخت جان جنگجوؤں کی مدد حاصل ہے۔افغانستان میں نیٹو افواج اور مزاحمت کاروں کے درمیان ہونے والی خونریز جنگ میں پاکستان کو ملوث کرنے کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں۔امریکی حکام اس سے پہلے بھی اس طرح کے الزامات لگاتے رہے ہیں،جن کی پاکستان نے ہربار سختی سے تردید کی۔وزیر داخلہ رحمن ملک نے اس بار بھی القاعدہ اور طالبان کے لیڈروں کی پاکستان میں موجودگی کو خارج ازامکان قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان میں اگر ان کا کوئی نیٹ ورک ہے،جس کا نیٹو یا امریکی سراغرساں اداروں کو علم ہے تو وہ ہمیں اس سے آگاہ کریں تاکہ ہم ان کے خلاف کارروائی کرسکیں۔
 ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے رحمن ملک نے کہا کہ اسامہ بن لادن اور اس کی مدد کرنے والے تمام لوگ دہشت گرد ہیں اور ان کی سرگرمیاں اسلام اور پاکستان کے خلاف ہیں، ہمیں ان کے بارے میں معلومات مہیا کر دی جائیں،تو ہم خود ان سے نمٹنے کو تیار ہیں۔انہوں نے بین الاقوامی برادری کو یقین دلایا کہ ہم دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے مسلسل تگ و دو کر رہے ہیں۔وزیر داخلہ کے تردیدی بیان کی تصدیق ان واقعات سے بھی ہوتی ہے جو نہ صرف پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں رونما ہو رہے ہیں بلکہ جن کا دائرہ ملک کے کئی گنجان آباد اور ہنستے بستے شہروں تک پھیل چکا ہے،جو کبھی امن و امان کا گہوارہ تھے۔یہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو ممالک کی کارروائیوں کا ساتھ دینے ہی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان خود بدترین قسم کی دہشت گردی کا نشانہ بن رہا ہے۔ 
قبائلی علاقوں اور بڑے بڑے شہروں میں خودکش حملے افغانستان کی جنگ کا ہی ”تحفہ“ ہیں۔اس جنگ کی وجہ سے جو امریکہ نے چھیڑی پاکستان میں سینکڑوں بے گناہ لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں اور اس کی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ہمارے وسائل جو ملک کی تعمیر و ترقی کے کاموں پر صرف ہوتے،آج دہشت گردی کی روک تھام،سرحدوں کی حفاظت اور امن و امان برقرار رکھنے کی کوششوں کے لئے مختص ہو چکے ہیں۔پھر بھی حالات کنٹرول سے باہر ہیں۔امریکہ اور نیٹو کو پاکستان کی مشکلات سمجھنے اور اس کی عملی مدد کرنے کی بجائے الزام تراشیوں سے ہی فرصت نہیں۔
دراصل امریکہ افغانستان کی جنگ بقول صدر آصف علی زرداری ہار رہا ہے اور اپنی خفت مٹانے کے لئے پاکستان کی آڑ لے رہا ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سخت ترین زمینی اور فضائی کارروائیوں کے باوجود افغانستان میں انہیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔خود مغرب کے انٹیلی جنس اور نشریاتی ذرائع تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں مزاحمت کی تحریک کمزور ہونے کی بجائے روز بروز مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔نیٹو کے ایک اعلیٰ اہلکار نے جو جنگ سے متعلق روزمرہ امور کی نگرانی پر مامور ہے سی این این کو بتایا ہے کہ فوجی حملوں کے باوجود افغانستان کے سرحدی علاقوں میں 15 سے 25سال تک کی عمر کے 5 سے دس لاکھ بددل نوجوان مزاحمت کی تحریک میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس اہلکار نے امریکہ نواز افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ اگر موجودہ جنگ جلد از جلد ختم کرنی ہے تو ان علاقوں میں سکیورٹی اور معاشی ترقی کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے اور ان نوجوانوں کو روزگار کے مواقع مہیا کرنا ہوں گے۔نیٹو کے اس سینئر اہلکار نے متنبہ کیا کہ وقت بڑی تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔
صدر بارک اوباما پہلے ہی افغان جنگ 2014ء تک جاری رکھنے کی منظوری دے چکے ہیں لیکن افغان حکومت اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہوئی اور جنگجوؤں کے ساتھ مفاہمت کی کوئی صورت نہ نکل سکی تو امریکی فوج کو ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی کے لئے مستقل طور پر افغانستان میں رکھنا پڑے گا۔انہی خدشات کی وجہ سے امریکہ اور کرزئی حکومت طالبان سے مذاکرات پرمجبور ہوئی ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ مزاحمت کاروں کے بعض گروپوں کے ساتھ اعلیٰ سطح پر بات چیت شروع ہو چکی ہے،تاہم طالبان کے بڑے گروپوں نے اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ غیرملکی افواج کا انخلا ہی افغانستان کے مسئلہ کا صحیح حل ہے۔اس اصولی موٴقف پر سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اسامہ بن لادن،ملاعمر یا ایمن الظواہری پاکستان میں انتہائی غیرمحفوظ ہوتے،اس لئے وہ یہاں نہیں آ سکتے۔ساری دنیا جانتی ہے کہ نیٹو کے جنگی ہیلی کاپٹر اور ڈرون طیارے بلاناغہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں پر حملے کر رہے ہیں۔ان حملوں میں زیادہ تر بے گناہ قبائلی مارے جاتے ہیں،لیکن نیٹو حکام القاعدہ اور طالبان کے دہشت گردوں کی ہلاکتوں کے دعوے بھی کرتے رہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ انٹیلی جنس ذرائع سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا پہلے تعین کرتے ہیں۔پھر انہیں نشانہ بناتے ہیں۔ اگر ان کے یہ دعوے درست ہیں تو وہ القاعدہ رہنماؤں کے ٹھکانوں کا بھی پتہ چلا لیتے اور اب تک انہیں ٹھکانے لگا چکے ہوتے۔مگر ان کے یہ دعوے درست نہیں ہیں۔اس لئے اسامہ بن لادن ایمن الظواہری یا ملا عمر کے پاکستان میں ہونے کا دعویٰ بھی بے بنیاد ہے۔امریکہ اور نیٹو حکام کو پاکستان پرالزام تراشی کی بجائے اپنی ناکامیوں کا احساس کرنا چاہئے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 41016
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش