0
Tuesday 23 Sep 2014 18:37

امریکہ داعش گٹھ جوڑ، چند ٹھوس شواہد

امریکہ داعش گٹھ جوڑ، چند ٹھوس شواہد
تحریر: کاظم امیر احمدی

اگرچہ امریکی حکام یہ دعویٰ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ تکفیری – بعثی دہشت گرد گروہ "داعش" کی سرگرمیوں سے بے اطلاع ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے گذشتہ دو سالوں سے اردن میں موجود ٹریننگ کے مراکز میں داعش کے دہشت گردوں کو فوجی تربیت دیتی چلی آ رہی ہے۔ حتی بعض رپورٹس اور بیانات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکام داعش کی بنیاد رکھنے میں بھی بنیادی کردار کے حامل رہے ہیں۔ حال ہی میں ریڈیو روس سے مشرق وسطٰی کے موجودہ حالات کے بارے میں نشر ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "آئی ایس آئی ایس یا اسلامک اسٹیٹ ان عراق اینڈ شام یا "داعش" کا سربراہ ابوبکر البغدادی 2004ء میں عراق میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا اور اسے بوکا جیل میں قید کر دیا گیا تھا لیکن 2009ء میں براک اوباما کے دور حکومت میں اسے آزاد کر دیا گیا"۔ 
 
اسی طرح دمشق کے سنٹر آف اسٹریٹجک اسٹڈیز کے نائب سربراہ طائب ابراہیم کا کہنا ہے، "مجھے سو فیصد یقین ہے کہ عراق میں امریکی جیل میں قید کے دوران ابوبکر بغدادی کے ساتھ امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے نے رابطہ برقرار کر رکھا تھا اور اسے اپنے لئے کام کرنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ امریکہ کے بعض باخبر ذرائع نے مجھے بتایا ہے کہ آج جو کچھ بھی شام اور عراق میں ہو رہا ہے اس کی منصوبہ بندی سی آئی اے کی جانب سے انجام پائی ہے اور سی آئی اے نے ماضی میں افغانستان میں سابق سوویت یونین کے خلاف اپنائے جانے والے فوجی ہتھکنڈوں کو اس بار خطے میں اپنا رکھا ہے۔ اسی طرح داعش کے سربراہ ابوبکر بغدادی کے بارے میں یہ بھی رپورٹ ہے کہ وہ دراصل یہودی ہے اور اس کا اصلی نام شیمون الیوت ہے"۔ 
 
سابقہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے حال ہی میں اپنی زندگی پر ایک کتاب لکھی ہے جس میں داعش کی پیدائش میں امریکی کردار سے متعلق اہم ثبوت اور دلائل تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے، "ہم نے مشرق وسطی کو تقسیم کرنے کیلئے داعش کو تشکیل دیا ہے"۔  اسی طرح اپنی کتاب کے ایک اور حصے میں لکھتی ہیں، "ہم یہ طے کر چکے تھے کہ جولائی 2013ء میں اپنے یورپی دوستوں کے ساتھ ایک مشترکہ اجلاس میں "اسلامک اسٹیٹ" کو رسمی طور پر قبول کر لیں گے۔ میں نے 112 ممالک کا دورہ کیا جن میں اسلامک اسٹیٹ کی تشکیل میں امریکہ کے کردار کو واضح کیا اور ان سے کہا کہ وہ ایسی ریاست تشکیل پانے کے فورا بعد اسے رسمی طور پر قبول کر لیں لیکن پھر اچانک ہی ہماری آنکھوں کے سامنے سب کچھ خراب ہو گیا"۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے جملے "سب کچھ خراب ہو گیا" سے مراد مصر میں جنرل السیسی کی جانب سے اخوان المسلمین سے وابستہ صدر محمد مرسی کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت ہے۔ کیونکہ اس کتاب کے مطابق "اسلامک اسٹیٹ" کی تشکیل میں جس گروہ نے امریکہ کی مدد کرنا تھی وہ "اخوان المسلمین" تھی لیکن مصر میں اس کی حکومت کا تختہ الٹائے جانے کے بعد امریکہ کو اپنا منصوبہ تبدیل کرنا پڑا۔ 
 
داعش کو معرض وجود میں لانے پر مبنی امریکی اعترافات کا یہ ایک نمونہ ہے جسے اہم ترین ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چند اور نمونے بھی پیش کئے جا سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل امریکی سینیٹر جان مک کن کی ایک تصویر شائع ہوئی تھی جس میں وہ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تصویر شام میں خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے کی ہے۔ جان مک کن ایک شدت پسند ریپبلکن جانے جاتے ہیں جو امریکی کانگریس کے رکن ہیں اور شام پر فوجی کاروائی کے شدید حامی تصور کئے جاتے ہیں۔ امریکی ریپبلکن سینیٹر رنڈ پاول نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے شام کے بحران میں امریکہ کی حد درجہ مداخلت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ مداخلت خطے میں دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہ ملنے کا باعث بنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام سے متعلق امریکہ کی غلط پالیسیوں کے باعث عراق کے شمالی حصے بھی شدید بدامنی کا شکار ہو گئے ہیں۔ سینیٹر رنڈ پاول نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے شام مخالف مسلح گروہوں کو بھاری مقدار میں اسلحہ فراہم کئے جانے کی وجہ سے داعش بہت زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا داعش جب تک شام میں تھی ہماری اتحادی شمار ہوتی تھی۔ ہم نے شام کے صدر بشار اسد کی حامی قوتوں کو شکست دینے کیلئے داعش کی بھرپور مدد کی اور اسے اسلحہ فراہم کیا۔ ہم نے شام میں داعش سے وابستہ عناصر کو ایک محفوظ پناہ گاہ مہیا کی۔ میری نظر میں شام سے متعلق ہماری پالیسیاں عراق کے موجودہ بحران کا باعث بنی ہیں۔ 
 
اسی طرح امریکہ کے سابق انٹیلی جنس افسر ایڈورڈ اسنوڈن نے حال ہی میں انتہائی اہم انکشافات کئے ہیں۔ وہ ان دنوں خفیہ معلومات کو فاش کرنے کے باعث ملک سے فرار کی حالت میں ہے۔ اس نے کہا ہے، "امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی انٹیلی ایجنسیز نے دولت اسلامی فی عراق و شام یا داعش نامی گروہ کی تشکیل میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک خفیہ منصوبہ تھا جس کا نام Bee Nest رکھا گیا تھا"۔ ایڈورڈ اسنوڈن کا کہنا ہے کہ دہشت گرد گروہ داعش کی تشکیل کا مقصد اسرائیل کی حفاظت کرنا تھا اور بی نیسٹ نامی خفیہ منصوبے کا مقصد ایک ایسا شدت پسند اسلامی گروہ تشکیل دینا تھا جو پوری دنیا سے شدت پسندانہ سوچ رکھنے والے نوجوانوں اور افراد کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ گروہ تکفیری سوچ کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اسرائیل مخالف ممالک کو اپنا دشمن سمجھتے ہوئے ان کے خلاف سرگرم عمل ہو جائے۔ 
 
معروف نیوز ویب سائٹ The Intercept نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ داعش کا سربراہ "ابوبکر البغدادی" تقریبا ایک سال تک اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے ہاتھوں ٹریننگ لیتا رہا ہے۔ اسے فن خطابت اور علم لاہوت کی ٹریننگ بھی دی گئی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگرچہ واشنگٹن اس گروہ کے مجرمانہ اقدامات سے اچھی طرح واقف ہے لیکن اس کے باوجود اس نے ترکی کے راستے بڑے پیمانے پر دہشت گرد عناصر اور دہشت گردوں کیلئے اسلحہ شام سپلائی کئے جانے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ 
دوسری طرف  Western’s today کے چیف ایڈیٹر کا کہنا ہے کہ امریکی حکام تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اور بعث پارٹی سے وابستہ عناصر کی جانب سے عراق کے شہر موصل پر حملہ کئے جانے کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ تھے۔ امریکی حکام اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان دہشت گردوں کو اسلحہ کہاں سے فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ اسلحہ سعودی عرب کے ذریعے سمندر کے راستے اردن بھیجا جاتا ہے۔ اسی طرح اسرائیل بھی ان دہشت گردوں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ امریکہ نے بھی اس گروہ کو وسیع پیمانے پر ایسے الیکٹرانک آلات فراہم کئے ہیں جن کے ذریعے تکفیری دہشت گرد الیکٹرانک جنگ انجام دے رہے ہیں۔ تکفیری اور بعثی دہشت گرد عناصر نے فیس بک اور ٹویٹر جیسی سوشل ویب سائٹس پر بڑے پیمانے پر سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں اور ان ویب سائٹس کے ذریعے دنیا بھر سے مالی امداد اور افرادی قوت اکٹھی کر رہے ہیں۔ امریکہ میں قائم شام مخالف گروہوں کی حمایت کا مرکز OSOS اب تک عراق اور شام میں سرگرم تکفیری دہشت گردوں کو انٹرنیٹ پر کام کرنے کی ٹریننگ اور ضروری سازوسامان مہیا کرتا رہا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق OSOS نے تکفیری دہشت گردوں کو انٹرنیٹ پر ہیکنگ کے ایسے سافٹ ویئرز مہیا کئے ہیں جن کے ذریعے وہ سائبر وار میں مصروف ہیں۔ اسی طرح امریکی وزارت خارجہ نے داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کو جدید قسم کی ٹریننگ دینے کیلئے دو تربیتی مراکز قائم کئے ہیں جن کا نام “Center for War and Peace Reporting” اور “Freedom House” رکھا گیا ہے۔ یہ مراکز تکفیری دہشت گردوں کو انٹرنیٹ پر کام کرنے کی ٹریننگ بھی دیتے ہیں۔ 
 
داعش کے بارے میں انجام پانے والی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس گروہ سے وابستہ عناصر میڈیا وار کیلئے سب سے زیادہ Twitter کو استعمال کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹویٹر کے مالکین کس حد تک اس دہشت گرد گروہ کو تعاون فراہم کر رہے ہیں۔ اگرچہ امریکی حکام داعش کے خلاف جنگ کا دعوی کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے خود ہی اس تکفیری دہشت گرد گروہ کو اس حد تک مضبوط کیا ہے۔ داعش کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اس گروہ نے شام کے علاقے رقہ پر حملہ کرنے سے پہلے بغیر پائلٹ ڈرون طیاروں کے ذریعے اس علاقے کی مکمل ریکی کا کام انجام دیا تھا۔ اس ویڈیو سے ظاہر ہوتا تھا کہ داعش کیلئے جاسوسی کرنے والے یہ ڈرون امریکی اور اسرائیلی تھے۔ امریکہ اور اسرائیل نے خطے میں اپنی پالیسیوں کے مخالف ممالک جیسے ایران، عراق اور شام اور نیز حزب اللہ لبنان اور حماس جیسے جہادی گروہوں کے خاتمے کیلئے تکفیری دہشت گرد گروہوں جیسے داعش، النصرہ فرنٹ اور القاعدہ کی حمایت کی سیاست اپنا رکھی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل ان تکفیری دہشت گرد گروہوں کو فوجی اور جنگی معلومات بھی مہیا کرتے ہیں۔ شام کے شمال میں واقع الطبقہ فوجی ائیربیس پر داعش کے قبضے کے بعد فاش ہوا کہ حملے سے پہلے امریکیوں نے داعش کو اس اڈے کے بارے میں تمام معلومات فراہم کی تھیں۔ 
 
عراق میں بھی امریکہ بظاہر داعش پر ہوائی حملوں کا ڈراما رچا رہا ہے۔ امریکہ نے عراق میں داعش کا مقابلہ اس وقت شروع کیا جب یہ گروہ اربیل کی جانب پیش قدمی کرنے لگا۔ کرد حکام کے ساتھ امریکہ کے گہرے تعلقات ہیں لہذٰا جب امریکہ نے دیکھا کہ اس کے مفادات خطرے میں ہیں اور تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اس کی مقرر کردہ ریڈ لائنز کو عبور کر رہا ہے تو فورا اس کے خلاف ہوائی حملے شروع کر دیئے۔ امریکہ کیلئے صرف اپنے مفادات اہم ہیں اور اسے عراقی عوام سے کوئی ہمدردی نہیں۔ خود امریکی صدر براک اوباما بھی کئی بار واضح انداز میں کہ چکے ہیں کہ جب تک امریکہ کے مفادات خطرے میں نہیں پڑتے وہ داعش سے نہیں الجھے گا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کی حفاظت کی قیمت بھی بیچارے عراقی غریب عوام کی جیب سے پوری کر رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے داعش کے ٹھکانوں پر انجام پانے والا ہر ہوائی حملہ عراقی حکومت کیلئے 7.5 میلین ڈالر کے خرچے کا باعث بنتا ہے۔ 
 
امریکی حکومت نہ صرف داعش سے مقابلے میں سنجیدہ نہیں بلکہ ایسے ممالک پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کا الزام بھی عائد کرتے ہیں جو انتہائی سنجیدگی اور خلوص نیت سے تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ کردستان عراق کے صدر مسعود بارزانی نے حال ہی میں ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران واضح الفاظ میں ایران کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ایران وہ ملک ہے جس نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف سب سے پہلے انہیں اسلحہ فراہم کیا۔ دوسری طرف امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے کردوں کو اسلحہ فراہم کر کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ ایران نے عراق کو اسلحہ بیچ کر اپنے اوپر لگی امریکی پابندیوں کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ امریکہ کی یہ دوغلی پالیسیاں اور عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کی کوششیں اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ درپردہ داعش کی حمایت اور مدد کرنے میں مصروف ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 411231
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش