0
Thursday 2 Oct 2014 21:53

نون لیگ کیا کرے؟...

نون لیگ کیا کرے؟...
تحریر: حسن نثار      

باقی کیا رہ گیا سوائے ڈھٹائی کے کہ اب تو ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ کنیئرڈ کالج، ایف سی کالج اور سنٹرل ماڈل سکول تک بھی جا پہنچا ہے لیکن میری دعا ہے کہ عوام کا یہ ’’روحانی‘‘ پیغام بروقت ان کی سمجھ میں نہ آئے اور جب سمجھ میں آئے تو اتنی دیر ہو چکی ہو کہ چاہیں بھی تو تلافی نہ کرسکیں۔ نفرت کی ہنڈیا ہلکی آنچ پر چڑھی ہوئی ہے اور کون نہیں جانتا کہ ’’سہج پکے سو عمدہ ہو‘‘۔ نفرت پوری طرح ’’پکنے‘‘ سے پہلے ہی کچی پکی اتارلی جائے تو اس بات کا امکان رہ جاتا ہے کہ ’’واپسی ‘‘ ہو جائے گی یا لوگ ٹرکوں، ویگنوں اور رکشوں کے پیچھے یہ لکھوا کر پچھتاوے کا اظہار کریں کہ۔۔۔۔’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘ لیکن نفرت کا پھل اگر پوری طرح پک جائے تو سنکھیا سے زیادہ زہریلا ہو جاتا ہے۔ سچ یہ کہ میں نون لیگ کے بارے پریشان ہوں اور اس سے بھی بڑا سچ یہ کہ اس پارٹی کیلئے میری ناپسندیدگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن اس کے باوجود میں کبھی نہ چاہوں گا کہ یہ پنجاب میں پیپلز پارٹی ہی کی طرح قصہ پارینہ بن جائے۔ ان کی مناپلی کا ٹوٹنا تو بہت نیک شگون ہے لیکن ان کا خاتمہ کوئی اچھی خبر نہیں کیونکہ تجربہ ہمیں بتاتا اور سکھاتا ہے کہ یہاں جس کی اجارہ داری قائم ہو جائے، وہ ’’انا کا دیوتا‘‘ اور ’’میں ‘‘ کا مائونٹ ایورسٹ بن جاتا ہے جس کی بہترین مثال خود شریف خاندان ہے۔ قدرت نے انہیں فرش سے عرش پر پہنچا دیا۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ ان کے سجدے پاتال تک کا حال بیان کرتے، لوگ ان کے عجز و انکسار کی مثالیں دیتے۔ یہ ’’خاص‘‘ بننے کا فلوک لگنے کے بعد بھی عوام میں رچے بسے رہتے، یہ اپنے بزرگوں کی محرومیوں، غربتوں اور مزدوریوں کا انتقام لینے کیلئے ان جیسے عوام کو پروٹوکول کے کوڑوں اور دروں سے دھتکارنے کی بجائے انہیں اپنے خاندان کا حصہ سمجھتے کہ ابھی کل تک یہ انہی کا حصہ تھے لیکن طبقہ تبدیل ہوتے ہی ان کے طور طریقے اس طرح تبدیل ہوئے کہ ذلیل افتادگان خاک بھی حیران رہ گئے۔ عوام تو چھوڑو، ان کیلئے تو ان کے نام نہاد خاندانی ایم این اے، ایم پی اے بھی ’’شودر‘‘ قرار پائے۔ انہیں یہ بات بچھو کی طرح لڑ گئی اور پہلے پور کی دیسی شراب کی طرح چڑھ گئی تھی کہ ان کا ہر منتخب ’’کھوتا، گھوڑا، خچر، کھمبا‘‘ ہے، جسے ووٹ نواز شہباز کی وجہ سے ملتا ہے۔

یہی سوچ بھٹوز کو بھی برباد کر گئی، میرے ہم عمروں کو یاد ہو گا جب بھٹو نے کرسی کے ہتھے پر دھپہ مارتے ہوئے یہ نمرودی، شدادی، فرعونی جملہ بولا تھا کہ ۔۔۔۔’’یہ کرسی بہت مضبوط ہے ‘‘ تب میں نوجوان تھا لیکن لرز کے رہ گیا کہ برکلے کا پڑھا ہوا، سر شاہنواز بھٹو کا یہ پولیٹکل جینیئس بیٹا نہیں جانتا کہ مضبوط صرف ہمارے خالق و مالک کی کرسی ہے۔ پھر بیگم بھٹو۔۔۔۔ نصرت بھٹو مرحومہ و مغفورہ کا وہ تکبر میں بھیگا جملہ''Bhuttos are born to Rule'' بادشاہوں کے بادشاہ نے بھٹوز ہی ختم کر دیئے اور وہ بھی اس طرح کہ زرداری بچے بلاول کو ’’بھٹو‘‘ ڈیکلیئر کرنا پڑا۔ حیرت ہے کہ ایسے جینوئن خاندانیوں کا خاتمہ دیکھ کر بھی اس ’’فرسٹ جنریشن اشرافیہ‘‘ کو کچھ سمجھ نہ آئی اور انہوں نے غرور، تکبر، نخوت جیسی امراض کو اپنی وجہ شہرت بنا لیا تو شاید ابھی کچھ وقت ہے ۔۔۔۔۔شاید کچھ مہلت مل سکے۔

میرا عنوان اور سوال یہ تھا کہ ۔۔۔۔۔’’نون لیگ کیا کرے؟‘‘ نون لیگ کو سیاسی جماعت کہنا تو اس کی توہین ہے کہ معاملہ سو فیصد خاندانی ہے لیکن پھر بھی ہر شے کا کوئی نہ کوئی نام تو ہوتا ہی ہے سو سب سے پہلا مشورہ یہ کہ اپنی والدہ کے پاس جائو اور ان سے دعا کی درخواست کرنے سے پہلے اس بات کا اعتراف کرو کہ ’’ہماری ’’ادائوں ‘‘ نے آپ کی دعائوں کو گرہن لگا دیا۔ ہم اصلاح اور توبہ کا وعدہ کرتے ہیں ‘‘ پھر جب ماں کی دعا ناہموار رشتہ ہموار کر دے تو ایک طویل سچا سجدہ، ہر فیصلہ میرٹ پر اور ’’سیاسی مائیلج‘‘ کو پس پشت ڈال کر، پروٹوکول سے پناہ مانگو کہ ویسے بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھن جائے گا، سرکاری ملازموں کو ذاتی چاکروں کے ساتھ کنفیوژ نہ کرو، تمہاری تصویریں اور تعریفیں تمہاری ٹوپیوں کے پھندے نہیں گردنوں کے پھندے ہیں، درباریوں سے بچو کہ دربار اور مزار ایک ہی شے کے دو مختلف نام ہیں۔ اپنے ساتھیوں کو عزت اور احترام دو اور اسے اپنا احسان نہیں ان کا وہ حق سمجھو جو تم پر مدتوں سے واجب الادا قرض ہے۔

عوام سے محبت کا ڈرامہ نہیں سچ مچ محبت کرو کہ انہی بھوکے ننگے، گندے مندے، کالے پیلے بدبودار لوگوں کی وجہ سے تم سرمایہ دار بنے اور برسراقتدار آئے اور یہ جو تم طاقت اور دولت کے ارتکاز والے جنون میں مبتلا ہو، اس سے نجات حاصل کرو، عوام کو اقتدار میں زیادہ سے زیادہ شریک کرو۔ چلاکیاں بلکہ چیم چلاکیاں یعنی چتر چلاکیاں چھوڑ کر سادگی اور معصومیت کی طرف لوٹو کہ انسان جب ایک خاص حد سے آگے چالاکی اختیار کرتا ہے تو قدرت یہ کہتے ہوئے اپنا ہاتھ کھینچ لیتی ہے کہ ۔۔۔۔’’یہ تو خود کفیل ہو گیا‘‘ ہر ہزیمت کو اپنی حماقت اور ہر فتح کو فاتح الفاتحین کا انعام اور بخشش سمجھو ورنہ جان لو کہ بربادی کا آخری باب لکھا جا رہا ہے۔ باقی تم جانو اور تمہارا کام۔۔۔۔ جو’’تمام‘‘ کی سرحد پر انجام کا روپ دھارنے کو بیقرار ہے اور میں اسے اپنے وطن کیلئے اس وجہ سے بہتر نہیں سمجھتا کہ جہاں بھی ’’ اجارہ داری ‘‘ ہو گی۔۔ وہاں’’غریب ماری‘‘ ضرور ہو گی۔

(بشکریہ از جنگ)
خبر کا کوڈ : 412943
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش