1
0
Monday 6 Oct 2014 00:45

صرف آرمی کے جوتے قسط (4)

صرف آرمی کے جوتے قسط (4)
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com 
 
آج عید الاضحٰی کا مبارک دن ہے۔ یہ دن ہمیں راہِ حق میں قربانی اور ایثار کا درس دیتا ہے۔ میں ایک ایسے ملک میں عید منا رہا ہوں جو دین اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا اور اب اس کے گلی کوچوں میں مسلمانوں اور عام انسانوں کا قتلِ عام کیا جا رہا ہے۔ یہ قتلِ عام کبھی بلواسطہ ہوتا ہے اور کبھی بلاواسطہ۔ آیئے کوٹلی آزاد کشمیر کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں چلتے ہیں جہاں اس وقت ایک نومولود بچہ موت کے گھاٹ اتر چکا ہے ۔فیصلہ آپ خود کریں کہ یہ قتل بلواسطہ ہے یا بلاواسطہ۔۔۔؟

میں نے گذشتہ قسط میں ایک ایس ڈی او کی بات کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ کوٹلی آزاد کشمیر میں ہر ادارے کے ہیڈ کو یقین ہے کہ وہی جنگل کا بادشاہ ہے۔ تفصیلات کے مطابق چوہدری سلمان ایڈووکیٹ کے ہاں ایک بچے کی ولادت نوماہ کے بجائے آٹھ ماہ میں ہوئی۔ بچے کو جب ڈسٹرکٹ ہسپتال کوٹلی میں لایا گیا تو چاہیے تھا کہ قبل از وقت ولادت کے پیش نظر ڈیوٹی پر مامور عملہ اس بچے پر خاص توجہ دیتا اور بالخصوص اس کے والدین کو احتیاطی تدابیر وغیرہ سے آگاہ کیا جاتا۔ احتیاطی تدابیر تو دور کی بات یہاں بچے کو کنولہ بھی صحیح طریقے سے نہیں لگایا گیا۔ جس کی وجہ سے خون بہتا رہا اور جب خون تولئے سے رس کر باہر آیا تو والدین کو پتہ چلا۔
 
فوری طور پر اسٹاف والوں کو پکارنا شروع کیا، لیکن یہ چیخ و پکار کسی کام نہ آئی۔ بچے کے والد نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر جہانگیر کو فون کیا تو عزت ماب نے جواب دیا کہ میں ایک ایم ایس ہوں نہ کہ۔۔۔بالاخر خون بہتا رہا اور باشعور دنیا کی تاریخ میں بے حسی اور شقاوت کا ایک اور صفحہ رقم ہوتا گیا۔ ڈھونڈ ڈھانڈ کر اسٹاف میں سے کسی کو لایا گیا، کنولہ درست کیا گیا لیکن بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے بچے کی حالت غیر ہوگئی۔ بچے کے ورثاء نے شکایت کے لئے آواز اٹھائی تو اسٹاف نے طیش میں آکر بچے کو راولپنڈی ریفر کر دیا۔ بچے کے والد نے واویلا کیا کہ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے بچہ راولپنڈی نہیں پہنچ سکے گا، لیکن اسٹاف کا یہی فیصلہ تھا اور پھر وہی ہوا ۔۔۔

کوٹلی شہر سے نکلنے کے کچھ دیر بعد بچہ دم توڑ گیا اور عوامِ علاقہ نے کوٹلی شہر میں احتجاج کیا۔ احتجاج کے ایک ہفتے بعد تک قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اسٹاف یا ایم ایس کے بارے میں کسی قسم کی کارروائی نہیں کی۔ جس کے بعد 2 اکتوبر 2014ء کو مختلف سماجی تنظیموں اور عوام علاقہ کی طرف سے دوبارہ احتجاج کیا گیا۔ دوسری طرف پی ایم کوٹلی، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کوٹلی۔۔۔وغیرہ وغیرہ جیسی تنظیموں نے بھی مشترکہ اجلاس بلاکر اپنے پیٹی بھائیوں کی زبردست حمایت کی ہے، تفصیلات کے لئے 3 اکتوبر 2014ء کے روزنامہ جنگ راولپنڈی کا صفحہ نمبر 2 ملاحظہ فرمائیں۔ یہ تو بچے کا باپ وکیل تھا، کچھ لوگوں سے روابط تھے، کچھ تنظیمیں آشنا تھیں تو ایک دو مرتبہ احتجاج ہوگیا۔

ورنہ یہاں عام آدمی کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے آپ ہمارے ساتھ ایک اور ادارے یعنی کوٹلی آزاد کشمیر کے پاسپورٹ آفس آجایئے اور دیکھئے کہ یہاں ظلِ الہی، خلقِ خدا کی کھال کیسے اتار رہے ہیں۔ جب تک ہم کوٹلی آزاد کشمیر کے پاسپورٹ آفس کا دروازہ نہیں کھولتے اس وقت تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ خود ہی سادہ کپڑوں میں جاکر، عام لوگوں کے ساتھ گھل مل کر تماشائے اہلِ کرم دیکھیں۔ منتظر رہیئے جلد ہی پاسپورٹ آفس کا دروازہ کھلنے والا ہے۔ البتہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ بقولِ شاعر:
مرے احباب کہتے ہیں یہی اک عیب ہے مجھ میں
سرِ دیوار لکھتا ہوں پسِ دیوار کے قصے
پاسپورٹ آفس میں پسِ دیوار کا قصہ جاننے کے لئے ہمارے ساتھ رہیئے گا۔۔۔ 
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 413285
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

خدا آپ کو جزائے خیر دے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرپرستی میں ہی سب کچھ ہو رہا ہے۔
ہماری پیشکش