0
Thursday 16 Oct 2014 21:07

سعودی عرب، خطرات کی زد میں

سعودی عرب، خطرات کی زد میں
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

سعودی عرب برس ہا برس سے مغرب کا قریبی اتحادی ہے۔ اب سعودی عرب کو اپنی سرحدوں پر داعش کیطرف سے حملوں کے خطرے کا سامنا ہے۔ صرف داعش ہی خطرہ نہیں، بلکہ یمن میں حوثی تحریک کی کامیابیوں کیوجہ سے بھی سعودی حکمرانوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ البتہ امریکہ کے ساتھ ملکر القاعدہ اور اخوان المسلمون کی طرف سے شہنشاہیت کو لاحق داخلی طور پر سیاسی اور سکیورٹی خطرات کو بہت حد تک ختم کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پہلے کی نسبت زیادہ اعتماد کیساتھ داعش کے خلاف بنائے گئے امریکی اتحاد میں شامل ہونے کے بعد سے، سعودی عرب ان سنی جنگجوؤں کے خلاف ایک غیر معمولی فوجی کارروائی میں شریک ہے اور القاعدہ، النصرۃ فرنٹ اور داعش کی ہمنوائی کرنے والے سعودی مفتی ان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی پی آر مہم میں پورے طور پر سرگرم ہیں۔ انہی حالات میں سعودی عرب کی جنوبی سرحدوں پر، یمن میں اس کے حامی اقتدار پر گرفت باقی رکھنے میں مسلسل ناکام ہو رہے ہیں۔ یمن کے حوثی شیعوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایران کے حامی ہیں۔ بحرین اور یمن میں شیعہ آبادیوں میں بیداری اور اپنے حقوق کی آواز بلند کئے جانے کے بعد سے سعودی عرب کے شیعہ، زبردست دباو اور عتاب کا شکار ہیں۔ اسکی تازہ ترین مثال ایک سعودی عدالت کی جانب سے آیت اللہ شیخ باقر النمر کو دی گئی پھانسی کی سزا ہے۔ یہ امر ظاہر کرتا ہے کہ سعودی حکام دباو کا شکار ہیں۔

داعش اور داخلی طور پر خطروں سے عارضی طور پر اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے والی سعودی حکومت اپنی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کی طرف سے داعش کے شام میں ٹھکانوں پر بمباری کی زور و شور سے تشہیر کر رہی ہے، لیکن داعش کی طرف سے سعودی عرب کے لیے بہت سے خطرات ابھی موجود ہیں۔ سعودی عرب میں بھی، شیعہ دشمنی کی بنیاد پر عراق اور شام میں پنپنے والی سفاک تنظیم داعش کی حمایت موجود ہے۔ سعودی سوشل میڈیا پر اب بھی داعش کے حق میں اور داعش کیخلاف فضائی کارروائی کی مخالفت میں ایک طوفان کھڑا ہے کہ جو مسلمان کا قتل کرے وہ مسلمان نہیں رہتا، تکفیری بیج پوری وہابی دنیا میں پھل دے رہا ہے، سعودی عرب سے ہی تعلق رکھنے والے سلفیوں کی جانب سے سعودی فضائیہ کیخلاف مہم اس کی بین دلیل ہے۔ داعش کی حمایت اور سعودی حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کا یہ سلسلہ سعودی حکمرانوں کے لئے راکھ میں دبی چنگاری کی مانند، ہوا پکڑتے ہی ظاہر ہونا شروع ہوجائے گا۔

مغربی اتحاد کے دوسرے اہم حلیف، ترکی کی سرحد پر جنگ کی شدت ہے، دولت اسلامیہ کے خلاف اتحاد میں شامل کئی مغربی ممالک عراق میں بھی بمباری کر رہے ہیں، جہاں سفاک اور توسیع پسند دولت اسلامیہ کے ساتھ عام شہری بھی اس کا نشانہ بن رہے ہیں، جن میں اکثریت اہل سنت کی ہے۔ اس بمباری سے نہ فقط داعش مضبوط ہوگی بلکہ عراق، شام اور سعودی عرب کی سنی آبادی میں داعش کے ساتھ ہمدردی بھی پیدا ہوگی۔ پہلے بعض سنی عرب حلقوں کا خیال ہے کہ عراق اور شام میں سنی عرب علاقوں پر بمباری کرنا، سعودی عرب کے مفاد میں نہیں ہے، انکے خیال میں سنی عرب علاقوں میں پائی جانے والی بے چینی کی وجہ سے ہی عراق میں دولت اسلامیہ وجود میں آئی ہے۔ ان کے بقول داعش کیخلاف حملے اس بے چینی میں اضافے کا باعث بنیں گے، یوں سعودی پالیسی سنیوں کے حق میں نتائج دینے کی بجائے انکے لئے نقصان کا سبب بن رہی ہے۔ اسی طرح سعودی رائے عامہ اس مخمصے کا شکار ہے کہ ان کا ملک متحدہ عرب امارات، اردن اور بحرین کی طرح شام میں صدر بشار الاسد کے مخالفین پر بمباری کرکے ایران کا کام آسان کر رہا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نہ تو سعودی عرب اور نہ ہی اس کے مغربی اتحادی شامی حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ صدر اسد اس میں کامیاب رہے ہیں کہ داعش کے خلاف اپنی کارروائیوں سے ثابت کریں کہ، آج عرب رائے عامہ داعش کو خلیجی ممالک کے حمایت یافتہ شامی باغیوں کا اتحادی سمجھتے ہیں۔

سعودی عرب کے لیے ایک ممکنہ خطرہ اتحادیوں کی طرف سے کی جانے والے فضائی بمباری کا ہدف شام میں القاعدہ کے مقامی اتحادی النصرۃ محاذ بھی ہیں، جنہوں نے سنہ دو ہزار تیرہ میں دولت اسلامیہ میں مدغم ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ النصرہ محاذ نے مبینہ طور پر قطر اور ترکی سے مدد حاصل کی تھی اور دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں میں فری سرین آرمی سے بھی تعاون کیا تھا۔ دوسری طرف خلیجی ممالک کے حمایت یافتہ شامی وہابی باغی، جو داعش کی مخالفت کرتے ہیں، وہ بھی فضائی بمباری کے حق میں نہیں ہیں۔ ان سارے حالات میں سعودی عرب بمباری میں حصہ لے کر بھی خود اپنے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ الزام بھی باقی ہے کہ داعش نے سعودی عرب کے تعاون اور سرپرستی ہی میں جنم لیا ہے۔ سعودی عرب نے عراق اور شام میں بغاوت منظم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی، حالانکہ سعودی عرب میں روایتی طور ایسا آمرانہ نظام رائج ہے کہ جہاں قانونی طور پر بادشاہ کی اطاعت کروائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس سعودی اور مغربی پروپیگنڈہ مشینوں کی گھن گرج کے باوجود، حزب اللہ کے اسرائیل مخالف شاندار کردار کی بدولت عرب رائے عامہ اس طرف مائل ہے کہ استبداد اور ظالم حکمرانوں کیخلاف بغاوت تو شیعہ روایت ہے، جو انقلاب ایران اور عراق کی شیعہ جماعت الدعوۂ کی تاریخ سے ظاہر ہے۔ اس سے واضح ہے کہ سعودی عرب خطے میں غیر منطقی کردار کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔ سعودی عرب کو عالمی طاقتوں کی کاسہ لیسی کے باوجود انکا اعتماد حاصل نہیں، اسی لئے امریکی صدر براک اوباما نے سعودی عرب سمیت اپنے اتحادیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جو دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں کی حمایت کرتے ہیں، لیکن انہی ملکوں سے داعش کو مدد بھی مل رہی ہے۔ صورتحال مخدوش ہے، لاکھ وضاحتوں کے باوجود نفاق کا چہرہ عیاں ہو رہا ہے، سعودیوں کو کہنا پڑ رہا ہے کہ صدر اسد، داعش اور النصرۃ محاذ کے خلاف ایک حکمت عملی کے تحت نرم رویہ اختیار کئے ہوئے ہے، وہ فری سیرین آرمی اور حکومت مخالفین کو ختم کر رہا ہے۔

یمن اور بحرین میں سعودی عرب کے حمایت یافتہ حکمران مسلسل بحران کا شکار ہیں، لیکن عراق میں داعش کیخلاف کارروائی کا حصہ بننے کی پالیسی عراق کو عربوں کی صفوں میں واپس لانے میں اُس کی حوصلہ افزائی کرے گی، اور روایتی طور پر عرب ایران مخاصمت کو ہوا دینے میں مدد دے گی۔ عرب اور عالمی میڈیا میں یہ پروپیگنڈہ پورے زور و شور سے جاری ہے کہ ایران کی پشت پناہی میں شیعہ ملیشیا کے لوگ عراق اور شام میں سنی عربوں کو ہلاک کر رہے خواہ وہ دولت اسلامیہ سے تعلق رکھتے ہوں یا نہ ہوں۔ لیکن حقیقت اس کے خلاف ہے، عراق ہی کے ایک سابق اعلٰی فوجی اہلکار کا کہنا ہے کہ یہی جنگجو جو داعش کیخلاف بر سر جنگ ہیں، دہشت گردوں کا خاتمہ کریں گے۔ مشرق وسطٰی میں صورت حال بہت پیچیدہ ہے اور خطے کے ملکوں کے مفادات میں شدید ٹکراؤ موجود ہے، اسکے سب سے زیادہ برے اثرات سعودی عرب پر مرتب ہو رہے ہیں۔ یمن میں سعودی عرب کی حمایت یافتہ حکومت حوثی قبائل سے نمٹنے کی کوشش میں ہے۔

سعودی عرب حوثیوں کی بغاوت کا ذمہ دار ایران کو ٹھہراتا ہے، لیکن عراق اور شام کی طرح یہاں بھی صورت حال بہت پیچیدہ ہے۔ سعودی عرب میں اہم حکومتی عہدے، وراثت کے بنیاد پر سونپے جاتے ہیں۔ یمن میں پیچیدگیوں میں ایک عنصر سعودی عرب کا اخوان المسلمون کو رد کرنا بھی ہے۔ مزید براں یمن میں سعودی عرب کے اتحادی کمزور ہو رہے ہیں اور مرکزی حکومت کی گرفت بھی کمزور پڑ رہی ہے جبکہ وہاں القاعدہ بھی ایک خطرہ ہے۔ سعودی عرب کے سامنے مشکلات بہت ہیں، امریکہ کے ساتھ اُس کا اتحاد داعش کی وجہ سے مضبوط ہوا ہے کہ مشرق وسطٰی میں ایران کا کردار ناگزیر ہے اور تہران پورے اعتماد کیساتھ صدر بشار الاسد کا حامی ہے، جبکہ سعودی عرب کے لئے اپنے عقب یعنی یمن میں حوثیوں کے ساتھ مفاہمت ناگزیر ہوچکی ہے، عراق میں سعودی عرب کے لئے سمجھوتہ کئے بغیر کوئی چارہ نہیں، داعش اور اخوان کے ساتھ ٹکراو برقرار رہے گا، سعودی عرب کے مغربی اتحادی اپنے مفادات کو ہی مدنظر رکھیں گے، ان کے لئے اسرائیل کی سکیورٹی اہم ہے، لیکن ہچکولے کھاتی سعودی شہنشاہیت کے لئے آخری سہارا صہیونی دوست ہوں گے۔ جلد یا بدیر یہ حقیقت دنیائے عرب میں سعودی نظام کیخلاف بیداری پیدا کرنے کے کافی ہوگی اور اسرائیل کی نابودی کے ساتھ ہی سعودی شہنشاہیت کا سورج بھی غروب ہوجائے گا۔
خبر کا کوڈ : 414967
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش