0
Friday 17 Oct 2014 20:01

عالم اسلام کے تین بنیادی مسائل

عالم اسلام کے تین بنیادی مسائل
تحریر: محمد جواد اخوان

ولی امر مسلمین امام خامنہ ای نے اس سال حج کی مناسبت سے حجاج کرام کے نام اپنے اہم پیغام میں عالم اسلام کو درپیش تین انتہائی اہم اور بنیادی مسائل کی جانب اشارہ کیا تھا۔ ولی امر مسلمین کی جانب سے حجاج کرام کو دیئے گئے اس پیغام کی اہمیت اور عالم اسلام میں اس کے گہرے اثرات کے ناطے صرف حجاج کرام ہی اس کے مخاطبین میں شامل نہیں بلکہ یہ پیغام درحقیقت پوری امت مسلمہ کے نام ہے۔ اس تحریر میں ہم نے ان تین بنیادی مسائل کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ 
 
1۔ اتحاد بین المسلمین:
امام خامنہ ای نے جس مسئلے کو عالم اسلام کا پہلا اور اہم ترین مسئلہ قرار دیا وہ "اتحاد بین المسلمین اور امت مسلمہ میں اختلاف ڈالنے والے مسائل کو حل کرنا" تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خود حج اتحاد بین المسلمین کا عظیم مظہر اور بڑی عبادت ہے۔ حج آپس کے ایسے اختلافات کو بھول جانے کا بہترین موقع ہے، جنہوں نے اسلامی دنیا میں فرقہ واریت اور مذہبی اختلافات کی آگ بھڑکا رکھی ہے۔ درحقیقت عالم اسلام کے اندر پائے جانے والے تنازعات اور اختلافات کا فائدہ کسی مسلمان فرقے کو نہیں بلکہ اس کا حقیقی فائدہ اسلام دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔ ان تنازعات میں اصل فتح ان اسلام دشمن عناصر کو نصیب ہو رہی ہے جو اسلامی دنیا سے باہر رہ کر عالم اسلام میں فرقہ واریت اور دشمنی کی آگ بھڑکانے میں مصروف ہیں۔ جیسا کہ ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ "استعماری پالیسیوں کے پلید ہاتھ عرصہ دراز سے اپنے منحوس اہداف کے حصول کیلئے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور اختلاف ڈالنے کی پالیسی پر گامزن ہیں، لیکن آج جب اسلامی بیداری کی برکت سے مسلمان اقوام عالمی استعمار اور صہیونیزم کو اچھی طرح پہچان گئے ہیں اور ان کے سامنے ڈٹ گئے ہیں، مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے پر مبنی پالیسیوں میں بھی مزید شدت آگئی ہے۔ مکار دشمن کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کے درمیان آپس کی جنگ کروا کر ان میں موجود مزاحمت اور جہاد کے جذبے کو غلط سمت میں منحرف کر دے اور اس طرح مسلمانوں کے حقیقی دشمن یعنی عالمی استعمار اور صہیونیزم کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ مغربی ایشیائی ممالک میں تکفیری دہشت گرد اور مشابہ گروہوں کی تشکیل اسی غدارانہ سیاست کا نتیجہ ہے۔ یہ ہم سب کیلئے ایک وارننگ ہے کہ ہم اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو اپنے قومی اور بین الاقوامی فرائض میں پہلی ترجیح پر رکھیں۔"  
 
2۔ مسئلہ فلسطین:
ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے جس مسئلے کو امت مسلمہ کا دوسرا اہم مسئلہ قرار دیا وہ "مسئلہ فلسطین" تھا۔ فلسطین عالم اسلام کا وہ اٹوٹ انگ ہے جو گذشتہ 65 برس سے ظالم صہیونی رژیم کے تسلط میں ہے۔ امت مسلمہ کے بدن پر لگایا گیا یہ زخم ابھی تک تازہ ہے اور اس میں سے خون رس رہا ہے۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ غاصب اسرائیل کے معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک دنیا والوں پر دو اہم حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہو چکے ہیں: 
الف)۔ صہیونی حکام کی لامحدود درندگی، سفاکیت اور ظلم، جس کا واضح نمونہ غزہ پر اسرائیل کی تازہ ترین 50 روزہ جارحیت کی شکل میں قابل مشاہدہ ہے، اور
ب)۔ اسرائیل کی فوجی طاقت میں روز بروز آنے والی کمی اور اس غاصب رژیم کا اپنی نابودی اور خاتمے سے قریب پینچ جانا۔ 

فلسطینی مجاہدین اور مزاحمتی گروہوں کی جانب سے بے مثال استقامت اور ثابت قدمی کے مظاہرے کے علاوہ صہیونی حکام کے حد سے زیادہ سفاکانہ اور ظالمانہ اقدامات اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ حقیقت عالم اسلام خاص طور پر فلسطین میں جاری اسلامی مزاحمتی تحریک کی ذمہ داریوں کو بھی مزید بڑھا دیتی ہے۔ ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی جانب سے اسرائیل کی قریب الوقوع نابودی کی بشارت فلسطین کے جہادی اور مزاحمتی گروہوں کیلئے امید کی کرن ہے اور انہیں اپنی مزاحمت اور جدوجہد کو مزید تیز کرنے کی ترغیب دلاتی ہے۔ جیسا کہ ولی امر مسلمین نے مغربی کنارے کے فلسطینی مسلمانوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ بھی مسلح ہو کر اہل غزہ کے شانہ بشانہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے خلاف ڈٹ جائیں۔ اسی طرح آپ کی یہ تاکید تمام امت مسلمہ کو بھی مقبوضہ فلسطین اور قدس شریف کی آزادی کیلئے میدان عمل میں اتر آنے کا پیغام دیتی ہے۔ 
 
3۔ حقیقی محمدی (ص) اسلام اور امریکی اسلام میں فرق کو جاننا:
آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے حجاج کرام کے نام اپنے پیغام میں جس تیسرے اہم اور بنیادی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے وہ "امریکی اسلام اور حقیقی محمدی (ص) اسلام" میں فرق کو واضح کرنے اور مسلمانان عالم کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے کا مسئلہ ہے۔ ولی امر مسلمین جہان نے دنیا بھر کے مخلص اور دلسوز مسلمان علماء سے اس بارے میں عوام کو آگاہ کرنے پر زور دیا ہے۔ اگر ہم اسلامی دنیا میں موجود مسائل اور اختلافات کا دقیق جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے اکثر مسائل کی بنیادی وجہ حقیقی محمدی (ص) اسلام اور امریکی اسلام کے درمیان فرق کو نہ سمجھنا ہے۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں: 
"حقیقی اسلام، دوستی اور روحانیت، پرہیزگاری اور جمہوریت والا اسلام ہے جو "اَشِداءُ عَلَی الکفار رُحَماءُ بَینَهُم" جیسے بنیادی اصول پر استوار ہے جبکہ امریکی اسلام، امت مسلمہ کے ساتھ دشمنی اور غیروں کی غلامی پر اسلام کا لبادہ اوڑھانے والا اسلام ہے۔ ایسا اسلام جو مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت اور اختلافات کو ہوا دیتا ہے، الہی وعدوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے خدا کے دشمنوں پر اعتماد کرنے کی ترغیب دلاتا ہے، صہیونیزم اور عالمی استعماری قوتوں کے خلاف جہاد کی بجائے اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف جنگ کا حکم دیتا ہے، اپنی قوم کے خلاف امریکہ کے ساتھ اتحاد تشکیل دینے کی تعلیم دیتا ہے دراصل اسلام نہیں بلکہ ایسی خطرناک اور تباہ کن منافقت ہے جسے کے خلاف ڈٹ جانا ہر سچے مسلمان کا شرعی وظیفہ ہے۔"  
 
اس حقیقت پر مبنی جائزے کی مدد سے ہی اس معمے کا جواب دیا جاسکتا ہے کہ وہ تکفیری گروہ جو بظاہر امریکہ اور مغربی طاقتوں کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں، کیسے ممکن ہے اسلامی مزاحمتی قوتوں کے خلاف امریکہ اور غاصب صہیونی رژیم کے اتحادی میں تبدیل ہوجائیں؟ اسی طرح اس سوال کا جواب بھی پایا جاسکتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ وہ گروہ جو کفار اور مشرکین کے خلاف جہاد کا دعویٰ کرتا ہے اس قدر ذلت اور پستی کا شکار ہوجائے کہ اسلحہ حاصل کرنے کیلئے غاصب صہیونی حکومت کی آغوش میں جا بیٹھے؟ حقیقی محمدی (ص) اسلام اور امریکی اسلام میں فرق کو پہچاننے کے بعد ہی اس سوال کا جواب بھی دیا جاسکتا ہے کہ دین مبین اسلام کے حقیقی خوبصورت چہرے کو بگاڑ کر ایک شدت پسند اور غیر انسانی چہرہ دکھانے کا اصل فائدہ کس کو ہو رہا ہے۔؟ ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی جانب سے امت مسلمہ کے اہم ترین مسائل کے طور پر پیش کئے جانے والے ایشوز کو عالم اسلام کو درپیش تین بڑے چیلنجز قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان تین مسائل پر توجہ سے ہی امت مسلمہ کو موجودہ بحرانوں سے نجات دلا کر ترقی کی راہوں پر گامزن ہونے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھنے کا زمینہ فراہم کیا جاسکتا ہے۔ 
 
خبر کا کوڈ : 415107
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش