0
Friday 14 Nov 2014 21:45

اوباما کا امام خامنہ ای کے نام خط

اوباما کا امام خامنہ ای کے نام خط
تحریر: سعداللہ زارعی

تین امریکی مجلات "نیویارک ٹائمز"، "وال اسٹریٹ جنرل" اور "فارن پالیسی" نے یہ خبر شائع کی ہے کہ امریکی صدر براک اوباما نے ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای کو ایک خط لکھا ہے۔ ان اخبارات نے اس خط میں بیان شدہ بعض مطالب کو بھی شائع کیا ہے۔ لیکن ان خبروں کے آپس میں تضادات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ذرائع ابلاغ کو اس خط تک دسترسی حاصل نہیں ہوئی اور انہوں نے صرف قیاس آرائیاں کی ہیں۔ لیکن حقیقت کیا ہے اور اس کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟ جس طرح ان تین امریکی اخباروں نے اپنی قیاس آرائیوں کا اظہار کیا ہے، اسی طرح ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں۔ اگرچہ اس خط میں بیان شدہ مطالب کو فاش نہیں کیا گیا اور ہمیں ان تک دسترسی حاصل نہیں، لیکن ایران اور امریکہ کے تعلقات سے مربوط بعض ایسے حقائق موجود ہیں جو ہمیں حقیقت سے قریب اندازہ لگانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ اس بارے میں بعض اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
 
امریکی صدر براک اوباما نے اپنی صدارت کے دوران اب تک تین بار ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کو خط لکھا ہے۔ ہر بار صدر اوباما کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ایران کی مدد سے اپنی خارجہ سیاست کو درپیش مشکلات اور پیچیدگیوں کو حل کرسکے۔ اسی طرح ہر خط میں امریکی صدر نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایران کی مدد درحقیقت امریکہ ایران تعلقات کی بحالی میں پہلا قدم شمار کیا جائے گا۔ براک اوباما کی طرف سے امام خامنہ ای کو پہلا خط اپریل 2009ء میں لکھا گیا۔ امریکی صدر نے اس خط میں امام خامنہ ای سے درخواست کی کہ وہ ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں واشنگٹن کی مدد کریں۔ لیکن اس خط کے صرف ایک ماہ بعد ہی ایران میں 2009ء کا فتنہ شروع ہوا اور امریکہ نے پینترا بدلتے ہوئے ایران میں اسلامی جمہوری نظام کی سرنگونی کا مطالبہ پیش کر دیا۔ 
 
امریکی صدر براک اوباما نے دوسری بار فروری 2013ء میں امام خامنہ ای کے نام خط لکھا۔ یہ خط ایسے وقت لکھا گیا جب ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری تنازعات کا سلسلہ چل رہا تھا۔ اس خط میں امریکی صدر نے جوہری تنازعہ پر ایران کے ساتھ حتمی دوطرفہ معاہدہ انجام دینے میں واشنگٹن کی آمادگی کا اظہار کیا۔ لیکن اس بار بھی تقریباً ڈیڑھ سال گزر جانے کے بعد امریکہ نے ایران پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگانا شروع کر دیا۔ امریکہ نے ایران پر ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کو مزید وسعت اور شدت بخش دی۔ 
 
امریکی صدر براک اوباما نے امام خامنہ ای کے نام تیسرا خط تقریباً ایک ماہ قبل لکھا ہے۔ اس بار بھی امریکہ دو بڑی مشکلات کا شکار ہے۔ اس کی پہلی مشکل یہ ہے کہ وہ دوبارہ عراق میں آنا چاہتا ہے لیکن اسے ایران اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ لہذا عراق میں دوبارہ اپنی فوجی موجودگی کو ممکن بنانے کیلئے امام خامنہ ای کی مدد کا سہارا لے رہا ہے۔ امریکہ کی دوسری بڑی مشکل ایران کے ساتھ جاری جوہری مذاکرات ہیں۔ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای نے جوہری تنازعات کے بارے میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کیلئے ایرانی حکومت پر کچھ شرائط عائد کر رکھی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے جب بھی ایران کے سپریم لیڈر کو خط لکھا ہے، اپنی جاہ طلبی اور ناجائز خواہشات کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے لکھا ہے۔ لہذا امریکی صدر کی جانب سے ایک ماہ قبل لکھے جانے والا خط بھی امریکی خارجہ پالیسی خاص طور پر ایران کے بارے میں پیدا شدہ ڈیڈلاک سے براہ راست مربوط ہے۔ 
 
عراق کے بارے میں امریکی پالیسیاں شدید ناکامی اور تعطل کا شکار ہوچکی ہیں۔ امریکہ کے اعلٰی سطحی حکام 2011ء میں عراق سے امریکہ کے انخلاء کے بعد اب تک کئی بار انتہائی واضح الفاظ میں اس حقیقت کا اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ عراق میں امریکی فوجی موجودگی کی واپسی کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ لہذا پینٹاگون، سی آئی اے اور امریکہ کی مسلح افواج میں اوباما حکومت سے وابستہ اعلٰی سطحی اہلکاروں نے سابق امریکی صدر جارج بش کی جانب سے عراق سے فوجی انخلاء کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ اسی طرح ان فوجی اور سکیورٹی عہدیداروں نے بھی سابق امریکی صدر جارج بش کی جانب سے عراق سے فوجی انخلاء کے فیصلے کو ایک واضح غلطی قرار دیتے ہوئے انہیں شدید ملامت کا نشانہ بنایا ہے، جنہوں نے عراق پر حملے کے وقت 3 لاکھ امریکی فوجیوں اور انٹیلی جنس افسروں کو عراق بھیجے جانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اعتراض کرنے والوں میں سی آئی اے کے سابق سربراہ اور عراق میں سابق امریکی سفیر جان نیگرو پونٹے، سابق امریکی نائب وزیر دفاع پال وولفوویٹز، سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی، پال بریمر اور جی گارنر جیسی شخصیات بھی شامل ہیں۔ 
 
گذشتہ سال مئی میں عراق کے صوبوں الانبار، صلاح الدین اور نینوا میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی پیش قدمی کے آغاز کے فوراً بعد وائٹ ہاوس نے اپنے وزیر خارجہ کو عراق بھیجا، تاکہ وہ زمینی صورتحال کا قریب سے جائزہ لے سکیں۔ جان کری نے بغداد اور اربیل کا دورہ کیا اور اپنے مشاہدات کو امریکی حکام کے سامنے پیش کیا۔ ان کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ عراق کی صورتحال اس قدر بھی خراب نہیں، جتنا اسے عرب ذرائع ابلاغ میں خراب ظاہر کیا جا رہا ہے اور حکومت مخالف عناصر ملک میں بڑی تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہیں۔ لیکن دوسری طرف امریکی حکام عراق کے حالات کو اپنے لئے ایک مناسب موقع کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ عراق میں شیعوں، کردوں اور سنیوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں کوئی بڑی سیاسی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ لہذا امریکہ نے عراق کی سکیورٹی صورتحال کو حد سے زیادہ سنگین ظاہر کیا اور دہشت گردی کے خطرے کو پورے خطے میں پھیل جانے کا خطرہ ظاہر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں فوجی اتحاد کی تشکیل اور داعش کے خلاف اس کے کردار پر تاکید کرنے لگا۔ دوسری طرف عراق کے کرد اکثریتی صوبے اربیل پر داعش کے حملے اور صوبہ نینوا کے شمالی حصے خاص طور پر تل افر اور سنجار میں ایزدی قبیلے کے باشندوں کے خلاف اس کے غیر انسانی اقدامات نے بھی عراق میں ازسرنو فوجی مداخلت پر مبنی امریکی پالیسیوں کو ایک ضرورت کے طور پر پیش کیا۔ 
 
دوسری طرف امریکہ 2003ء سے 2011ء کے دوران اپنے گذشتہ تجربات خاص طور پر 2003ء سے 2007ء تک یعنی عراق پر اپنے فوجی قبضے سے لے کر عراقی حکومت کے ساتھ سکیورٹی معاہدے کے انعقاد اور اس کے نتیجے میں عراق سے فوجی انخلاء تک کے تجربات کی روشنی میں اس نتیجے تک پہنچ چکا تھا کہ عراق میں بڑے پیمانے پر فوجی مداخلت کا کوئی فائدہ نہیں اور اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ لہذا اوباما حکومت عراق میں فوجی مداخلت کو دلدل میں گھسنے کے برابر سمجھتی تھی۔ اسی طرح امریکی حکام کا خیال تھا کہ وہ محدود حد تک فوجی مداخلت اور عراق کی سیاسی صورتحال کو مناسب انداز میں کنٹرول کرکے اپنے مطلوبہ سیاسی اہداف یعنی عراق میں امریکہ کے سیاسی اور سکیورٹی اثر و رسوخ کی بحالی کو حاصل کرسکتے ہیں اور اس طرح بڑے پیمانے پر فوجی مداخلت اور اس پر ہونے والے بھاری اخراجات سے بچ سکتے ہیں۔ لہذا امریکہ نے دو بنیادی ایشوز پر کام کرنا شروع کر دیا:
 
ایک: امریکہ نے یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ عراق کے مغربی صوبوں پر داعش کا قبضہ عراقی فوج کے پاس جدید اسلحہ کی کمی کا نتیجہ ہے اور وہ عراق کو جدیدترین فوجی ہتھیار فراہم کرنے کیلئے تیار ہے، 
دوسرا: امریکہ نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ داعش کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنائے گا اور اس طرح اس کی پیشقدمی کو روکے گا۔  
 لیکن امریکہ نے اب تک کئی ماہ گزرنے کے باوجود نہ تو عراقی فوج کو جدید فوجی ہتھیار فراہم کئے ہیں اور نہ ہی داعش کے خلاف موثر ہوائی حملے انجام دیے ہیں۔ بلکہ الٹا کئی مرتبہ خود عراقی فورسز کو ہی نشانہ بنایا ہے جبکہ پیراشوٹ کے ذریعے پھینکی جانے والی طبی اور فوجی امداد بھی داعش کو فراہم کی ہے اور بعد میں یہ اعلان کیا گیا کہ یہ سب کچھ غلطی سے ہوگیا۔ امریکہ انتہائی مکارانہ انداز میں عراق کے اندر اپنے اثر و رسوخ کی دوبارہ بحالی کے راستے ڈھونڈ رہا ہے۔ اس کی جانب سے عراق کی سکیورٹی صورتحال اور بین الاقوامی برادری کی ذمہ داریوں کے بارے میں متضاد دعووں نے اس کا پول کھول دیا ہے اور اب عراق کی مسلح افواج اور رضاکار فورسز امریکہ کے اصلی چہرے کو اچھی طرح پہچان چکی ہیں اور اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ امریکہ داعش کے خلاف ان کی مدد کرنے میں مخلص نہیں، لہذا انہیں خود ہی داعش کی بساط کو لپیٹنا ہوگا۔ 
 
عراق کے مغربی صوبوں پر داعش کے حملے اور امریکی حکام کی جانب سے متضاد بیانات کی درمیانی مدت میں عراق کے بہادر عوام اور مسلح افواج نے نجف اشرف میں مقیم مرجع عالیقدر آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی کی جانب سے جہاد کے فتوے کی پیروی کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت اور مدیریت کے سائے تلے تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف آپریشن کا آغاز کر دیا۔ اس آپریشن میں عراق کی مسلح افواج کے ساتھ ساتھ ایسے جوانوں پر مشتمل رضاکار فورسز بھی شامل تھیں جو جذبہ شہادت اور ایمان سے سرشار تھے۔ یہ رضاکار فورس ایران میں موجود بسیج رضاکار فورس کی طرز پر بنائی گئی تھی، جسے خاص فوجی ٹریننگ دینے کے بعد گوریلا جنگ کی مہارت فراہم کی گئی اور داعش کے خلاف میدان جہاد میں اتار دیا گیا۔ یہ رضاکار فورس جسے عراقی "المراتب" کے نام سے پکارتے تھے تقریباً 1 لاکھ جوانوں پر مشتمل ہے جو اسلام اور قرآن کے عاشق ہیں اور اپنے جذبہ ایمان کی بدولت بہت کم مدت میں داعش کے خلاف بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ 
 
عراق کی یہ نئی دفاعی فورس جسے مرجع عالیقدر آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی کی مکمل حمایت اور ایران کی مالی اور فوجی مدد حاصل تھی، صرف چار ماہ کے اندر اندر عراق کے اکثر علاقوں کو داعش جیسی لعنت سے پاک کرنے میں کامیاب ہوگئی جبکہ اکثر مغربی اور عرب تجزیہ نگار اور سیاسی ماہرین یہ واویلا مچا رہے تھے کہ بہت جلد بغداد پر بھی داعش کا قبضہ ہونے والا ہے۔ المراتب فورسز نے "العظیم"، "آمرلی"، "جرف الصخر" اور "بیجی" کے محاذوں پر اسپشل آپریشنز انجام دینے اور ان میں شاندار کامیابیاں حاصل کرکے تکفیری دہشت گروہ داعش پر اپنی برتری کو ثابت کر دیا۔ یہ کامیابیاں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ فورسز پورے عراق کو داعش کے وجود سے نجات دلانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ 
 
دوسری طرف عراق کی مسلح افواج اور رضاکار فورسز کی جانب سے داعش کے خلاف کامیاب آپریشنز کے دوران امریکہ نے بھی اپنے نام نھاد فوجی اتحاد کے ذریعے عراق کے مختلف علاقوں میں داعش کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ پر یہ خبریں پھیلتی چلی جا رہی تھیں کہ عراق کی رضاکار فورسز ایران کی حمایت اور مدد سے داعش کو مسلسل پسپائی پر مجبور کرتی آرہی ہیں اور داعش کے خلاف تیزی سے حاصل ہونے والی کامیابیاں عراق کی سکیورٹی صورتحال پر ایران کے اثر و رسوخ کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان خبروں کے ساتھ ساتھ اس نکتے کو بھی بیان کیا جا رہا تھا کہ امریکہ کی سربراہی میں بننے والے داعش مخالف اتحاد کے جنگی طیارے عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر حملے کر رہے ہیں۔ اس طرح عالمی ذرائع ابلاغ پر ایک طرح سے ایران اور امریکہ کی طاقت کے درمیان موازبہ شروع ہوگیا، جس نے امریکی حکام کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ 
 
یہاں اس اہم نکتے کو بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ اس دوران امریکہ کا پرزور اصرار تھا کہ ایران اور اس کے اتحادی عراق میں جاری داعش کے خلاف آپریشن میں اسے بھی شامل کر لیں۔ لیکن عراق میں داعش کے خلاف برسرپیکار مجاہد فورسز اور ان کے کمانڈرز اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ امریکہ کسی قیمت پر کسی دوسرے کی سربراہی میں داعش کے خلاف جنگ میں شریک ہونے پر راضی نہیں ہوگا، لہذا امریکہ کی مداخلت کو نہ صرف اپنے لئے مفید اور مددگار تصور نہیں کرتے بلکہ الٹا اپنے اہداف میں خلل پڑنے اور مشکلات ایجاد ہونے کا باعث سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف "المراتب" فورس کے کمانڈرز بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر امریکہ نے داعش کے خلاف ایک گولی بھی فائر کی تو اپنی پروپیگنڈہ مشینری سے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرے گا اور کوشش کرے گا کہ داعش کے خلاف حاصل ہونے والی کامیابیوں کو اپنے نام کرنے کی کوشش کرے۔ اس اقدام کا مقصد عراقی عوام کو یہ تاثر دینا ہے کہ وہ اور ان کی مسلح افواج امریکہ کے بغیر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اس طرح عراقی عوام کو ایک طرح کی مایوسی کا شکار کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ عالمی استعماری قوتوں کی یہ ہمیشہ کی ریت رہی ہے کہ وہ دوسری قوموں میں خود اعتمادی کا احساس پیدا نہیں ہونے دیتیں اور ان کے ذہن میں یہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں کہ کوئی کام ان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ 
 
لہذا عراق کی رضاکار فورسز نے اعلٰی سطحی حکام پر واضح کر دیا ہے کہ وہ ہرگز امریکہ کی شراکت میں داعش کے خلاف کوئی آپریشن انجام نہیں دیں گی اور اگر امریکہ نے عراق میں فوجی مداخلت کی تو وہ اپنا آپریشن روک دیں گی۔ اس موقف کے نتیجے میں عراقی حکام نے بھی عراق میں امریکہ کی فوجی مداخلت کی مخالفت کی ہے۔ عراقی رضاکار فورسز کا یہ موقف انتہائی مثبت نتائج کا سبب بنا ہے اور اگرچہ امریکہ کی جانب سے داعش کے خلاف ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی لیکن آپریشن کے آغاز سے اب تک صرف چند ماہ میں ہی عراق کا تین چوتھائی حصہ اس دہشت گرد گروہ کے وجود سے پاک کر دیا گیا ہے۔ اس صورتحال نے امریکہ کی حیثیت پر پانی پھیر دیا ہے، جس کی روشنی میں امریکی صدر اوباما کی جانب سے امام خامنہ ای کو خط لکھنا ایک فطری ردعمل قرار دیا جا رہا ہے۔ مغربی قوتیں ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کو اسلامی مزاحمتی بلاک کی حالیہ کامیابیوں اور فتح کا حقیقی اور اصلی محور سمجھتی ہیں۔ لہذا امریکی صدر نے انہیں خط لکھ کر ان سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔ میڈیا نے صحیح یا غلط، اس بارے میں لکھا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما نے امام خامنہ ای سے درخواست کی ہے کہ وہ شام کے بارے میں امریکی پالیسیوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے عراق میں داعش کے خلاف جاری جنگ میں امریکہ کو بھی کردار ادا کرنے کی اجازت دیں۔ 
 یہ امریکی صدر کا امام خامنہ ای کے نام تیسرا خط ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ایسا موقف اختیار کریں گے، جس کے صحیح ہونے پر تاریخ گواھی دے گی۔ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای اس بارے میں اپنے اس موقف کو بارہا دہرا چکے ہیں کہ:
"ملت ایران امریکہ پر اعتماد نہیں کرتی، انہوں نے مخملی دستانوں کے اندر فولادی ہاتھ چھپا رکھے ہیں۔" 
 
خبر کا کوڈ : 419526
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش