0
Monday 24 Nov 2014 11:27

فیملی فیڈریشن

فیملی فیڈریشن
تحریر: ڈاکٹر بابر اعوان

امیرالمومنین بننے کا آئیڈیا 1990ء والے عشرے کا تھا۔ اب ڈکٹیٹر، آٹو کریٹ، نازی ازم کے رسیا، بادشاہ اور شہزادے بھی اپنے انداز بدل رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو چاروں صوبوں کے وفاق کے بجائے فیملی فیڈریشن بنا دیا گیا ہے۔ کچھ مہربان ثبوت کے بغیر کچھ بھی نہیں مانتے۔ کامران شاہد کے پروگرام میں بھی ایسا ہی ہوا، ایک بار نہیں دو مرتبہ۔ چند ماہ پہلے ایک صاحب نواز حکومت کے حق میں دلائل کی جھاگ اُڑا رہے تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ غیر جانبدار ہیں اور ان کا تجزیہ غیر سرکاری ہے مگر ایک ہفتے کے اندر اندر وہ تجزیہ کارکا عہدہ چھوڑ چھاڑ حکومتی اہلکار بن گئے۔ چند دن پہلے ایک سوال کا جواب دیتے وقت میں نے بتایا کہ حکومت ریڈ زون کو شہرِ ممنوع بنانے کے لیے آرڈیننس لا رہی ہے۔ میں نے شہرِ ممنوع (Forbidden City) لکھا ہے، شہرِ ممنون نہیں۔ ایک دوست نے حکومت کی طرف سے آرڈیننس کی تیاری یا موجودگی کا پُرجوش دفاعی انکار کیا، مگر روزنامہ دنیا کے رپورٹر خبر ڈھونڈ لائے۔ جمہوریت کو بچانے کے لیے فیملی فیڈریشن نے اسلام آباد کے سُرخ زون کو عوام سے پاک رکھنے کے لیے صدارتی آرڈیننس جاری کرایا۔ اس کا قانونی زبان میںسرکاری نام Establishment and Regulation of Security Zone 2014ء ہے۔ فوری طور پر نافذالعمل ہونے والے اس قانون کے تحت سُرخ زون کو ہائی سکیورٹی کا علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ اس مہربانی پر قوم کو حکومت کا ممنون و مشکور ہونا چاہیئے جس نے اسلامیان پاکستان کے وسیع تر مفاد کے لیے اس آرڈیننس کے ذریعے لوگوں تک درج ذیل سہولتیں مفت پہنچا دی ہیں:

1: سرخ زون میں آج سے ہی آرڈیننس کے تحت پانچ یا اس سے زیادہ لوگوں کو اکٹھا داخل ہونے یا اکٹھے کھڑے ہونے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس سہولت کا فوری فائدہ یہ بھی ہے کہ ریڈ زون میں مقیم سرکاری ملازم اب سڑکوں کو گندہ کرنے کے لیے نہ تو پانچ بچے گھر سے باہر نکال سکتے ہیں اور نہ ہی پانچ گھریلو خواتین کو سرِ شام مٹرگشت کرنے کی اجازت ہو گی۔

2: اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اب ریڈ زون میں کوئی احتجاجی مظاہرہ نہیں کر سکے گا۔ غریب عوام اور حکمران اشرافیہ کی بستیوں کے درمیان کھینچی جانے والی سُرخ لکیر کراس کر کے اب کوئی اپنا حق نہیں مانگ سکتا۔ سُرخ علاقے میں اکثر مزدور تنظیمیں، کنٹریکٹ کے ملازمین، گم شدہ لوگوں کے لواحقین، انصاف کے لیے در بدر خالی ہاتھ پھرتے سائل، کویت جنگ کے مظلوم متاثرین، زلزلے کے معاوضے کا بقایا مانگنے والے، نجکاری کے نام پر قومی اداروں کی لوٹ سیل کے مخالف اوراسی طرح کے سارے بے نوا لوگ مظاہرے کرتے تھے۔ ہائی فائی این جی اوز اور سپرکلاس سول سو سائٹی کے مظاہرے کے لیے آبپارہ چوک اور سپر مارکیٹ جیسی ٹاپ کلاس لوکیشنز مخصوص ہیں جہاں ان مظاہروں کی ایڈوانس بکنگ ہوتی ہے۔

3: صدارتی آرڈیننس کہتا ہے، اس علاقے میں گرین ایریا، کھلی جگہوں اور سڑکوں پر رفع حاجت کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس علاقے کے رہنے والے لوگوں کو چاہیئے کہ اب وہ اپنے پیٹ اور مثانے کا خاص خیال رکھیں۔ اگر کوئی قسمت کا مارا بیماری کی حالت میں بھی ریڈ زون میں کسی جگہ رفع حاجت کرتے پکڑا گیا تو پھر اسے اگلے دس سال تک سرکاری خرچ پر اڈیالہ جیل میں ٹائلٹ کی مفت سہولت دے دی جائے گی۔

4: ریڈ زون میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر بھی پابندی لگ گئی ہے۔ اس پابندی کا سب سے زیادہ نقصان لاؤڈ سپیکروں پر چندہ مانگنے والوں کا ہو گا، لہٰذا چندہ جمع کرنے والے جانیں یا فیملی فیڈریشن۔ ہماری حد سے آگے گزری ہوئی جمہوری حکومت نے حد سے بھی کچھ زیادہ انصاف اور برابری کا تقاضا پورا کر دیا۔ اس صدارتی آرڈیننس کے تحت وفاقی حکومت جس میں صدر، وزیراعظم، وفاقی وزیر اور اس کے افسر شامل ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ڈنڈا بردار پُلسیے بھی، ان کے خلاف کوئی عدالت کارروائی کر سکے گی اور نہ ہی کوئی قانون حرکت میں لایا جا سکے گا۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں آزاد عدلیہ اور خودمختار بار ایسوسی ایشن کو اس آرڈیننس کی مبارکباد دوں یا ان دانشوروں کو جن کے پُر زور اصرار پر جمہوری حکومت یہ آرڈیننس لائی ہے۔

آپ سوچ رہے ہوںگے، میں وفاق پاکستان کو فیملی فیڈریشن کیوں کہہ رہا ہوں؟ ثبوت مانگنا آپ کا حق ہے اور ثبوت پیش کرنا میرا فرض۔ اگر پاکستان وفاق ہوتا تو وزیراعظم کسی غیر ملکی 'Pleasure trip‘ پر خادم ِ اعلیٰ کے بجائے وفاق کے ایک عدد وزیراعلیٰ کو ساتھ لے جاتے۔ مثلاً چین کا دورہ کرنے کے لیے گلگت بلتستان کا وزیراعلیٰ انتہائی متعلقہ عہدیدار تھا جس کی عملداری کے اندر شاہراہِ ریشم ہی نہیں چین کا سُست بارڈر بھی ہے، جہاں سے پاکستان اور چین کی 95 فیصد ٹریڈ ہوتی ہے۔ یورپی یونین کے ممالک میں لے جانے کے لیے کے پی کے کا وزیراعلیٰ انتہائی موزوں تھا، کیونکہ اس صوبے کو سامنے رکھ کر پورا یورپ پاکستان پر الزامات کی گولہ باری کرتا ہے۔ جن ملکوں سے کوئلے کی بجلی کے معاہدے ہو رہے ہیں وہاں سندھ کے وزیراعلیٰ کو وزیراعظم کے ساتھ ہونا چاہیئے تھا۔ اسی طرح کوئی نہیں جانتا کہ سونے چاندی سمیت تیل اور گیس میں سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ملکی میدان صوبہ بلوچستان ہے۔ اس کے وزیراعلٰی کو بھی اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ اسے سرمایہ کاری کانفرنسوں میں ساتھ لے جایا جائے۔ جب پورے وفاق کی نمائندگی چھوٹا بھائی، بڑا بھائی کریں گے، ان کی معاونت دوسرے قریبی رشتے دار کریں گے تو ایسے نظام کو آپ وفاق کہنا چاہتے ہیں تو کہہ لیں، آپ کی مرضی ہے، میں اسے فیملی فیڈریشن کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ سکتا۔

سارک کی میٹنگ ایک اور تازہ ترین مثال ہے جہاں ایک ہوائی جہاز پر غریب پاکستان کے خادم اعظم کو لے جایا جائے گا اور دوسرے جہاز میں درباری اور طبّاخ بیٹھے ہوں گے۔ ایسی حرکت کسی وفاق میں ہو تو قانون تڑپ اُٹھے اور انصاف بول پڑے مگر یہ کیسی جمہوریت ہے؟ جس میں جلسہ، جلوس، نعرہ، دھرنا، احتجاج اور مظاہرہ وفاق کے لیے خطرہ کہلاتا ہے؛ بلکہ امیرالمومنین کی کرسی کو خطرہ ہو تو اسے اسلام کو خطرہ کہنا حکومتی پالیسی ہے۔ حبیب جالب نے فیملی فیڈریشن کے خطرات کھل کر قوم کو بتائے تھے، میں دہرا دیتا ہوں :
خطرہ ہے خُوں خواروں کو
رنگ برنگی کاروں کو
امریکہ کے پیاروں کو
گِرتی ہوئی دیواروں کو
صدیوں کے بیماروں کو
خطرہ ہے بٹ ماروں کو
چوروں کو، مکّاروں کو
خطرہ ہے دَرباروں کو
شاہوں کے غم خواروں کو
نوابوں، غداروں کو،
خطرے میں اسلام نہیں۔۔۔۔۔


بشکریہ: دنیا
خبر کا کوڈ : 421130
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش