0
Tuesday 25 Nov 2014 09:23

تم کتنے بھوکے مارو گے؟

تم کتنے بھوکے مارو گے؟
تحریر: حسن نثار

بال (Ball) تو ایک ہی ہوتا ہے جس پر سنگل رن بھی لیا جا سکتا ہے، دو رنز بھی بنائے جا سکتے ہیں اور تین بھی۔ چوکا بھی لگایا جا سکتا ہے، چھکا بھی مارا جا سکتا ہے۔ چاہیں تو بال اگنور کردیں اور موڈ یا مقدر ساتھ نہ دے تو وکٹیں اڑوا لیں، کیچ آئوٹ ہو جائیں یا ایل بی ڈبلیو۔ ممکن ہے کچھ اور بھی ہوتا ہو لیکن میں کیا کروں کہ کرکٹ بارے میرا علم بیحد محدود اور ناقص ہے لیکن اصل بات میں عرض کرچکا کہ زندگی میں ایک جیسی سچویشن میں مختلف آدمی مختلف طرح ایکٹ یاری ایکٹ کرتا ہے۔ یہی حال قوموں کا بھی ہے۔ کوئی قوم’’بال‘‘ پر آئوٹ ہو جاتی ہے، کوئی سنگل رن، کوئی دو تین رنز، کوئی رن آئوٹ، کوئی وکٹیں اڑوا بیٹھتی ہیں، کوئی چوکا چھکا دے مارتی ہے۔ ہم کیا کررہے ہیں؟جس قسم کے حالات کا ہمیں سامنا ہے، کوئی عجوبہ نہیں کہ تاریخ کے مختلف مراحل میں قوموں نے بڑا بڑا کچھ فیس کیا ہے۔ کچھ سرنڈر ،کچھ سرخرو، کچھ گن ڈائون ،کچھ رن آئوٹ لیکن پھر وہی سوال کہ صورتحال کیا ہے اور ہم کیا کررہے ہیں؟ کہیں وہی کچھ تو نہیں ہو رہا ہے جو تاتاریوں کی یلغار پر اہل بغداد کررہے تھے؟حالات دیکھیں اور پھر ان کا سامنا کرنے والی شخصیات کے ری ایکشنز ملاحظہ فرمائیں۔

تقریباً سات سال سے اقتدار پر سوار شخص کہتا ہے ’’نظام بدلنے کے لئے جنگ لڑنا ہوگی‘‘۔ سبحان اللہ کون کہہ رہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے؟ اک ایسا شخص جو سات سال سے تھانہ کلچر کی تبدیلی کے دعویٰ داغ رہا ہے، نتیجہ؟ اک اور صاحب اٹھتے اور فرماتے ہیں کہ’’عمران خان کاروباری کمپنی کا جہاز سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں‘‘ کیا دور کی کوڑی لائے ہیں اور وہ بھی پیدل بلکہ ننگے پائوں۔ ایسی باریک بخیہ گری اگر حقیقی مسائل کی جینوئن حل کے لئے کرتے تو کٹی کٹا کب کا برآمد ہو چکا ہوتا لیکن انہیں تو شاید علم ہی نہیں کہ مسائل ہیں کیا؟ علم ہے تو جرأت نہیں کہ ان مسائل کے گریبان میں ہاتھ ڈال سکیں۔ ہوش ہے انہیں کہ اس وقت جو آبادی 19،20کروڑ کے لگ بھگ کہی ہے جب پلک جھپکتے ہی25،30کروڑ کے’’عظیم ہدف‘‘ تک جا پہنچی تو ان کے کھانے، پینے، رہنے، علاج، تعلیم کا کیا حشرنشر ہوگا اور یہ معاشرہ کیسا بھیانک منظر پیش کرے گا۔ جس میں آج حالت یہ ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ کو پینے کا پانی نصیب نہیں، ساڑھے سات کروڑ آبادی کو دو وقت کی روٹی کی ضمانت نہیں، آدھے بچے سکولنگ سے محروم ہیں اور جو سکول جا رہے ہیں ان کی تعلیم کا معیار اپنے عہد کے تقاضے پورے کرنے سے یکسر محروم رطب و یابس پر گزر بسر کررہا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کو تو چھوڑو..........سرکاری سکول سے 5ویں کلاس کا بچہ لو اور اسے کسی اچھے پرائیویٹ سکول میں زیر تعلیم 5ویں کلاس کے بچے کے ساتھ بٹھا کر دونوں کا موازنہ کرو تو تمہارا بھیجہ پگھل کر تمہارے نتھنوں اور کانوں کے رستے باہر آجائے گا۔ تمہیں نیند کیسے آتی ہے کہ یہاں شرح خواندگی جنوبی ایشیا میں سب سے کم یعنی 57 فیصد ہے۔ ملک کی شرح ترقی فقط 2.6فیصد سالانہ ہے جبکہ ضرورت ہے کم از کم9 فیصد کی شرح سے ترقی کی کہ صرف تب ہی یہ ملک آبادی کے 60 فیصد حصہ یعنی 20 سال کے لگ بھگ نوجوانوں کو روزگار مہیا کرسکے گا۔
بصورت دیگر تم کتنے بھوکے مارو گے۔ ہر گھر سے بھوکا نکلے گا تم دہشت گردی سے لے کر دیگر جرائم کی نرسریاں تیار کررہے ہو۔

دوسری طرف بلوچستان سے کراچی تک عدم برداشت تا بغاوت، اقلیتیں غیر محفوظ، افورڈ کرسکنے والوں میں سے 90 فیصد محفوظ ٹھکانوں کی طرف جا چکے، جا رہے ہیں یا ایسا کچھ کرنے کی پلاننگ میں مصروف ہیں۔ ملک کو ’’اقتصادی پارٹنرز‘‘ کے قحط کا سامنا ہے اور یہ صورتحال تبدیل ہوتی دکھائی نہیں دیتی کہ جب تک پی پی پی اور نون لیگ کے آسیب وسیب پر منڈلاتے رہیں گے، یہ ممکن ہی نہیں، شرح خواندگی کی طرح ٹیکس وصولی کی شرح بھی شرمناک۔ انرجی پانی، بجلی، گیس کسی بھی صورت میں ہو پوری ہوتی نظر نہیں آتی سو نئی صنعتیں تو کیا لگیں گی..........پرانی بھی بیٹھتی جائیں گی بلکہ یہ کام شروع ہے۔یہ زمینی حقائق اور حالات کی بہت ہی معمولی جھلک ہے۔ اب ایک ایک کرکے ان عظیم شخصیات کو دھیان میں لائیے جو پاکستان کو ان دلدلوں سے نکالنے کے دعویدار اور ٹھیکے دار بنے پھرتے ہیں اور پہلے ہی اس ملک کے کئی کئی عشرے ضائع اور برباد کرچکے اور اب بھی مصر ہیں کہ ٹرم پوری ہونے تک حالات کو ’’ٹرن ارائونڈ‘‘ کردیں گے۔ یہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے ..........اس سے پہلے.......... اس سے بھی پہلے ’’کامیابی‘‘ سے کرچکے۔ ہر جمہوری اینا کونڈا نکل جائے گا اور خوابوں کے خریدار لکیریں پیٹتے رہ جائیں گے۔ شاید آخری مہلت، آخری موقع ہے کہ اب بھی اگر یہ صورتحال ریورس نہیں ہوتی تو خاکم بدہن..........تم کتنے بھوکے ماروگے؟ ہر گھر سے بھوکا نکلے گا؟

(بشکریہ از جنگ)
خبر کا کوڈ : 421316
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش