0
Thursday 11 Nov 2010 11:55

امریکہ ایران کے مقابلے میں "فریز" ہو چکا ہے، ٹائم میگزین

امریکہ ایران کے مقابلے میں "فریز" ہو چکا ہے، ٹائم میگزین
اسلام ٹائمز- ٹائم میگزین کے مطابق کسی کو یہ توقع نہیں کہ ماہ جاری میں انجام پانے والے مذاکرات میں ایران امریکہ کے پاوں پڑ جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی حکام ان مذاکرات کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ وہ مستقبل قریب میں مذاکرات کیلئے ایران کے اظہار آمادگی کو اس پر لگائی گئی پابندیوں کے نتیجے میں اسٹریٹجک کامیابی کے طور پر ظاہر کرنے سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ ایران بدستور مختلف مماالک مخصوصا ہمسایہ ممالک اور چین کے ساتھ وسیع پیمانے پر تجارتی تعلقات قائم کئے ہوئے ہے۔ اسرائیل کی ایٹمی صلاحیتیں ان موضوعات میں سرفہرست ہے جن پر گفتگو کیلئے ایران زیادہ دلچسپی رکھتا ہے جو اسکی جانب سے مغربی دنیا کے دوہرے معیاروں کو فاش کرنے کے فیصلے کی واضح علامت ہے۔
یہ میگزین اسی طرح ایران پر پاپندیوں کی امریکی سیاست کے بند گلی میں پہنچنے اور فوجی حملے کی دھمکیوں کے بے اثر ہونے کے بارے میں لکھتا ہے: "موجودہ بندگلی سے باہر نکلنے کا راہ حل فوجی نہیں ہے کیونکہ امریکی حکام ایک نئی جنگ شروع کرنے کے نتائج سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اسی طرح فوجی حملے کی دھمکی کا کوئی قانونی جواز بھی نہیں ہے اور اقوام متحدہ کے تمام بیانئے ایسی دقت سے ترتیب دئے گئے ہیں کہ امریکہ کو ایران پر حملہ کرنے کا بہانہ نہ مل سکے۔ لہذا فوجی حملے کی دھمکی صرف پہلے سے موجود کمزور اتفاق نظر کا شیرازہ ہی بکھیر سکتی ہے جو ایران کے ہی فائدے میں ہو گا"۔
ٹائم میگزین امریکہ کے تازہ ترین ردعمل کے بارے میں لکھتا ہے: "ایسا ہی ردعمل سابقہ امریکی صدر بش کی حکومت نے بھی دکھایا تھا جو ایران کی جانب سے ریڈلائن کو عبور کر کے یورینیم کی افزودگی کی صلاحیت حاصل کرنے کا باعث بنا تھا"۔
فارن پالیسی ریویو بھی ایران پر امریکی پابندیوں کے بے فائدہ ہونے اور امریکی پالیسیوں کے بند گلی میں پہنچنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: "کسی بھی قسم کی فوجی حملے کی دھمکی ایران پر پابندیوں سے متعلق اتفاق رائے کو جو انتہائی مشکل سے حاصل ہوا ہے نابود کر دے گی اور اس طرح امریکہ کے اسٹریٹجک مفادات کو نقصان پنچانے کا باعث بنے گی۔ مزید یہ کہ اس طرح کا اقدام خوف کی فضا کا باعث بنے گا اور دوسروں کو یہ موقع فراہم کرے گا کہ وہ ایسی فضا میں انجام پانے والی گفتگو کو بے معنا اور منافقانہ قرار دیں"۔
گذشتہ روز امریکی سینیٹر لینڈسی گراھم نے ایسے فوجی حملے کا مطالبہ کیا تھا جسکا مقصد ایران کی فوجی طاقت کو ختم کرنا ہو۔ یہ گیدڑ بھبکی ایسے وقت سامنے آ رہی ہے جب امریکہ 9 سال سنگین اخراجات اور نقصانات برداشت کرنے کے باوجود طالبان جیسے چھوٹے سے گروہ سے نمٹنے میں ناکام رہا ہے جو اسکی فوجی طاقت کی ناکارآمدی کا واضح ثبوت ہے اور دوسری طرف عراق کے انتہائی مہنگے جوے میں بھی مکمل طور پر شکست خوردہ جانا جاتا ہے۔
امریکی حلقوں کی ایران پر پابندیوں کے موثر ہونے سے ناامیدی ایسے وقت ظاہر ہو رہی ہے جب ایک جرمن اخبار ھنڈلزبلاٹ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں صراحت سے لکھا ہے کہ واشنگٹن اور اسکے کچھ اتحادیوں کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران اور جرمنی کے درمیان تجارت میں پہلے سے زیادہ وسعت پیدا ہو گئی ہے۔
یہ روزنامہ لکھتا ہے: "ایران پر پابندیوں کا کوئی اثر نہیں اور گذشتہ ایک سال کے دوران ایران اور جرمنی کے درمیان تجارتی تعلقات میں 11.6% کا اضافہ ہوا ہے۔ جرمن کمپنیاں سیاسی مسائل سے ہٹ کر اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سرگرم عمل ہیں تاکہ دوسری کمپنیوں اور ممالک کے ساتھ رقابت میں پیچھے نہ رہ جائیں"۔
خبر کا کوڈ : 43676
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش