0
Tuesday 16 Nov 2010 11:50

دھماکہ خیز پارسل سازش اور پوشیدہ امریکی عزائم

دھماکہ خیز پارسل سازش اور پوشیدہ امریکی عزائم
اسلام ٹائمز- دھماکہ خیز پارسلوں کا خطرہ! آجکل تازہ ترین سازشی نسخہ ہے جو امریکی، صہیونی اور یورپی منصوبہ ساز مثلث نے دنیا بھر میں اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کے لیئے اٹھایا ہوا ہے اور چند ہفتوں سے میڈیا میں یہ موضوع سرفہرست ہے جبکہ فرانس کی بدامنی، ڈیموکریٹس کی امریکی انتخابات میں بھاری شکست، صہیونیوں کے فلسطینیوں پر مظالم اور عراق اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کے نئے جرائم کے فاش ہونے کی خبریں پس پشت چلی گئی ہیں۔
امریکہ اور اس کے یورپی اور صیہونی اتحادی جنکی خارجہ پالیسی تہذیبوں کے ٹکراو کے ایجنڈے پر ہمیشہ سے کاربند ہے، اسی کوشش میں مصروف ہیں کہ اس علاقے اور عالمی فضا کو ناامن کر کے اپنے منصوبوں کو چلاتے رہیں۔
علاقائی امور کے تجزیہ نگار ہادی محمدی نے روزنامہ مشرق سے بات چیت کے دوران اسے ایک امریکی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح امریکہ علاقے میں اپنے اقتصادی اور صہیونی منصوبوں کی تکمیل چاہتا ہے۔
اسی موضوع پر کثیر الاشاعت اخبار القدس العربی اپنے ایک مقالے میں لکھتا ہے: ان خطرات کو ہوا دینے سے جہاں مغربی معاشرے میں اسلام فوبیا میں اضافہ ہو گا وہاں دوسری طرف شدت پسند اور دائیں بازو کی جماعتوں کی مقبولیت اور پھیلاو بڑھے گا۔
کچھ بعید نہیں کہ یمن کی سیکورٹی صورتحال کو مغربی میڈیا کا بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا مقصد امریکی منصوبوں کی پردہ پوشی اور یمن میں امریکی فوج بھیجنے کی بہانہ تراشی ہے تاکہ وہاں سے باب المندب جیسی سوق الجیشی ابنائے (Strategic Bab el Mandeb Strait) کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیئے مستقل فوجی اڈا قائم کر سکے، جو بحیرہ احمر اور سوئز کینال میں داخلے کی انتہائی اہم گزرگاہ ہے۔
مصر کے اخبار الاھرام نے بھی ان خطرات کے پیچھے موجود عوامل کے بارے میں لکھا ہے: گذشتہ تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ ان واقعات کے پیچھے موجود محرکات سے متعلق جو بات سب کے ذھن میں آتی ہے حقیقت ھمیشہ سے اس کے برعکس نکلی ہے، جیسے قاھرہ اور اسکندریہ کے دھماکے، اسی طرح امریکی تنصیبات پر حملات اور یہاں تک کہ یھودیوں کے معبدوں پر حملوں کے الزامات کا اسرائیل کے علاوہ سب ہی نشانہ بنے، لیکن بعد کی تحقیقات سے پتا چلا کہ ان تمام تباھکاریوں میں اسرائیل ملوث تھا۔
یہ اخبار مذید لکھتا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق دھماکہ خیز پارسل بھیجنے میں تو اسرائیل عرصہ دراز سے ملوث ہے اور اس طریقے سے کئی اہم شخصیات کو شہید کر چکا ہے۔
دھماکہ خیز پارسل، عالمی خطرہ یا مصنوعی سازش؟
ان خطرات سے متعلق پیش کی گئی رسمی رپورٹوں میں موجود شکوک و شبہات اس دہشت گردانہ کاروائی میں ایک یا چند ممالک کی انٹیلیجنس کے ملوث ہونے کے امکان کو تقویت کرتا ہے۔ کیا ان خطرات کو امریکہ اور فرانس نے اپنی عوام کو چپ کرانے اور انھیں ڈیموکریسی کے ڈھونگ میں شامل کرنے کے لئیے استعمال نہ کیا ہو گا؟ اسامہ بن لادن نے کیوں فرانس کو ایسے وقت میں دھمکایا ہے جب یہ ملک عوامی غیض و غضب کی آگ میں جل رہا ہے؟ کیا اب بھی مغربی انٹیلیجنس ادارے عوامی نفرت کو اپنے منصوبوں میں رکاوٹ تصور نہیں کرتے؟
کیا القاعدہ اب بھی اپنے امور کی انجام دہی میں اتنا آزاد کہ دنیا بحر میں جو مرضی کر گزرے؟ اگر ہہ فرض کر بھی لیں تو کیا ہہ عقلی طور پر قابل قبول ہے کہ وہ اپنی تمام تر کاروائی صرف ایک ہی ملک یمن سے انجام دے؟ اس علاقے میں امریکا کے دو اصلی اتحادیوں سعودیہ اور امارات کا اس قصے میں کیا کردار ہے؟ اگر انھیں اس دہشت گردانہ کاروائی کا پیشگی علم ہوا تھا تو اسے یمن کو کیوں آگاہ نہیں کیا، یا امریکہ اور سعودیہ کے یمن میں براہ راست ملوث ہونے کے باوجود اس مسئلے سے وہاں ہی کیوں نہیں نبٹا گیا؟
دوسری طرف اسرائیل جو اپنے ملک میں فلسطینیوں کی طرف سے انجام دی جانے والی شجاعانہ کاروائیوں کا مکمل خبری بائیکاٹ کرتا ہے، اس دفعہ اسٹریا میں اپنے سفارتخانے کے باہر موجود پارسلز کو پوری آب وتاب سے میڈیا پر لایا ہے۔
ان تمام باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیوں مختلف وقفوں کے بعد مسلمانوں کے نام پر دنیا میں کوئی کاروائی ہوتی ہے اور پھر میڈیا وار اور فوجی کاروائی کے زریعے کسی ایک ملک کو نشانہ بنایا جاتا ہے؟ مثلا ۱۱ ستمبر کے بعد کافی سارے اسلامی اور عرب ممالک نے امریکہ اور وہاں کی عوام سے اظہار ہمدردی کیا تھا، لیکن یہ بات انکے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ یہ تباہی خود امریکہ اور صہیونی لابی کی کارستانی ہے۔
یمن ہی کیوں؟
ھادی محمدی کے تجزیے کے مطابق یمن کا اپنے اسٹریٹجک محل وقوع کے لحاظ سے امریکہ کی آیندہ دس سالہ پلاننگ میں انتہائی اہم حثیت کا حامل ہونے کے ناتے یہ منصوبہ بنایا گیا ہے۔ باب المند جیسے آبنائے کی موجودگی کی وجہ سے امریکہ اپنے نیو ورلڈ آرڈر کے پراجیکٹس کو یہاں سے شروع کرنا چاہ رہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ امریکی اتحادی سعودیہ اس سازش میں پوری طرح ملوث ہے، جبکہ اسرائیل بھی اپنے توسع طلب اقدامات کی خاطر اسی علاقے پر نظریں گاڑے ہوا ہے۔
اگلا قدم؟
ھادی محمدی کے مطابق امریکہ کے عراق اور افغانستان کی دلدل میں دھنس جانے کی وجہ سے اور اسلامی ممالک میں امریکہ کے خلاف بڑھتی نفرت کے تناظر میں اس وقت امریکہ کسی نئے حملے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ دوسری طرف یمن کی داخلی صورتحال بھی اس راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لیئے واشنگٹن نے اپنے فوجی اور سیکورٹی حکام اس وقت یمن میں بھیجے ہیں، اور اس طریقے سے اپنے ابتدائی منصوبوں کو عملی کرنے میں مشغول ہے۔
تجزیہ نگار کے بقول؛ دہشت گردی کے موضوع کو زندہ رکھنے اور اس سے علاقے اور مغربی ممالک کے مقابلے میں بطور ہتھیار استعمال کرنے کیلئے، امریکہ کی طرف سے عالمی سطح پر ان خطرات کی برقراری ایک معقول وجہ نظر آتی ہے اور فی الحال امریکہ اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی ملک پر حملہ آور ہو سکے۔
خبر کا کوڈ : 44273
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش