0
Tuesday 12 May 2009 18:33

باراک اوباما، جورج بش کا پیرو

باراک اوباما، جورج بش کا پیرو
امریکہ کے صدارتی الیکشن کے دوران باراک اوباما کے دلفریب اور پرکشش نعرے وہاں کی عوام اور دنیا بھر کے لوگوں، جو جورج بش کی جارحانہ اور جنگی پالیسیوں سے اکتا چکے تھے، کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ یہ نعرے امریکہ کے اندر اور باہر موجود تمام نگاہوں کا ایک سیاہ پوست اور گمنام چہرے کی طرف مبذول ہونے کا باعث بن گئے۔ امریکی رائے عامہ جو جورج بش کے کج سلیقہ رویے کی وجہ سے شدید بیزاری کا شکار تھی بڑے پیمانے پر باراک اوباما کے "تبدیلی" کے وعدے کی طرف متوجہ ہونے لگی۔ دنیا میں بھی یہ گمان کیا جانے لگا کہ امریکہ شاید جورج بش کے دورہ حکومت میں سنگین نقصانات برداشت کرنے کی وجہ سے اپنی سٹریٹجی مخصوصاً خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلی کرنے کا خواہاں ہے۔ اوباما نے اپنے انتخاباتی نعروں میں کئی بار مشرق وسطی کے بارے میں جورج بش کی سیاست کو تبدیل کرنے کا اظہار کیا۔ لیکن اوباما کی صدارت کے سو دن گزرنے کے بعد جو چیز واضح ہو رہی ہے وہ یہ کہ انکے نعروں کی روشنی میں ہر قسم کی خوش بینی صرف ایک وہم تھا اور وہ خواہ ناخواہ جورج بش اور سابقین کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔ باراک اوباما یہ دعوی کرتے تھے کہ وہ ایران کی نسبت امریکی رویے میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے نئے سال کے موقع پر ایرانیوں کے نام اپنے پیغام میں بھی کچھ جدید عبارات کا استعمال کیا، لیکن اسکے باوجود ایران پر لگائے جانے والے امریکی الزامات کو بھی دہرا دیا۔ اسی دوران امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی ایران کو مزید پابندیوں کی دھمکی دے دی۔ اسی طرح اوباما نے ایک اور موقع پر حزب اللہ لبنان پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کا الزام بھی لگایا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ کبھی بھی حزب اللہ لبنان کے ساتھ بات چیت نہیں کریں گے۔ مزید بر آں اپنی پچھلی حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شام پر پابندیوں کے سلسلے کو بھی بڑھا دیا۔ دلچسپ بات یہ کہ جب اوباما شام پر پابندیوں کی مدت کو بڑھا رہے تھے اس وقت امریکیوں کا ایک وفد دمشق میں دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ اسکے علاوہ کئی مواقع پر اوباما کی حکومت نے کھلم کھلا اسرائیل کی حمایت کرنے پر زور دیا۔ اوباما کی حکومت کے سو روز کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی سیاست مخصوصاً خارجہ پالیسی کا تبدیل ہونا ناممکن ہے کیونکہ اس پالیسی کا بننا اور تبدیل ہونا امریکی صدر کے اختیارات سے بالاتر ہے اور کچھ ایسے نیٹ ورکس کے اختیار میں ہے جن کا بنیادی ہدف ہر حالت میں اسرائیل کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ ان حالات کے باوجود یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ عرب حکومتوں کا ایک خاص طبقہ جو اعتدال پسند کے عنوان سے معروف ہے ابھی تک مشرق وسطی کے حوالے سے امریکی پالیسی کی تبدیلی کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ گذشتہ ہفتے عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شریک افراد نے سادہ لوحی کا ثبوت دیتے ہوئے اوباما سے درخواست کی کہ وہ مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کیلئے کوشش کرے۔ کچھ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ابھی اوباما کی پالیسیوں کے بارے میں رائے دینا جلد بازی ہے لیکن اوباما انتظامیہ کی پچھلے تین ماہ کی کارکردگی نے اس حکومت کی اصلیت کو آشکار کر دیا ہے۔ لہذا ایسے بیانات کی وجہ یا تو سادہ لوحی ہے اور یا رائے عامہ کو فریب دے کر اوباما کی غلط بیانی پر پردے ڈالنے کی کوشش ہے۔
خبر کا کوڈ : 4798
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش