0
Friday 7 Jan 2011 12:55

پارہ چنار روٹ اور حکومتی عناصر کے مفادات

پارہ چنار روٹ اور حکومتی عناصر کے مفادات
تحریر:آر اے سید 
پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع کرم ایجنسی کا مسئلہ آج کا یا حتٰی گزشتہ چار سال کا مسئلہ نہیں بلکہ اسکی جڑیں افغانستان پر روسی یلغار اور امریکی ایما پر ضیاء ٹولے نے جہادیوں کے جو لشکر تیار کئے اور انہیں دھڑادھڑ افغانستان بھیجا تو یہ مسئلہ اسی وقت سے گھمبیر سے گھمبیر تر ہونا شروع ہو گیا تھا لیکن اس وقت کسی نے اس پر توجہ نہ دی۔ امریکہ نے روس کے خلاف جن عناصر کو "جہادی" کے لقب کے ساتھ اپنے د شمن سے لڑوایا تھا وہ اسلام کا ایک مسخ چہرہ لیکر دنیا کے سامنے ظاہر ہوئے۔ طالبان کے نام پر افغانستان کس طرح حکومت تشکیل دی گئی ہے اور بعد میں طالبان کے ایک مخصوص گروہ اور القاعدہ کے نافرمان دھڑے کو جس طرح افغانستان میں نیست و نابود کرنے کی کوشش کی گئی وہ اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہی، اس سارے معاملے میں جہاں پورا خطہ بری طرح متاثر ہوا وہاں کرم ایجنسی کا قبائلی لیکن تعلیم یافتہ اور مہذب علاقہ بھی بری طرح متاثر ہوا۔
طالبان جنگجوؤں نے پارہ چنار اور کرم ایجنسی کے روٹ کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور بعد میں اسی علاقے پر ڈیرے ڈال دیئے۔ یہ بن بلائے مہمان نہ صرف مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کا باعث بنے بلکہ انہوں نے اپنے میزبانوں کو دیس نکالا دینے کا بھی پروگرام بنا لیا۔کرم ایجنسی کے عوام نے اسلام کی محبت اور افغانستان میں بیرونی طاقتوں کو نکالنے کے لئے ان جنگجوؤں کی ہر ممکنہ مدد کی، لیکن انہوں نے احسان کا بدلہ احسان کی صورت میں دینے کی بجائے طاقت، دھونس اور دھمکیوں کی سیاست کو اپنا کر مقامی باشندوں کی زندگي کو اجیرن بنا دیا۔
آئے روز کی لڑائیاں، گاڑیوں اور افراد کا اغوا، زمینوں پر قبضے اور اس طرح کی دیگر غیر قانونی سرگرمیاں جہاد کے نام پر جہادیوں کے ذریعے عروج پر پہنچ گئیں۔ سلسلہ چلنا رہا اور جب پاکستان کے دیگر علاقوں وزیرستان و غیرہ میں دہشت گردوں نے پناہیں لیں اور اپنے تربیتی مراکز بنا کر پاکستان کے اندر کاروائیاں تیز کر دیں تو پارہ چنار کے عوام نے بھی کھل کر ان کے خلاف آواز اٹھانا شروع کر دی۔
کرم ایجنسی بالخصوص اپر کورم جس میں پارہ چنار جو ایجنسی کا صدر مقام بھی ہے، کی شیعہ آبادی نے ان دہشت گردوں کو افغانستان آنے جانے کا راستہ دینے سے انکار کر دیا تو لشکری اور باقاعدہ حملوں کا آغاز ہو گیا۔ اس صورتحال میں انتظامیہ جس کا سربراہ پولیٹیکل ایجنٹ ہوتا ہے وہ بھی اہل تشیع کے مقابلے میں آ گیا۔ پولیٹیکل ایجنٹ چونکہ وفاقی حکومت کا مقرر کردہ ہوتا ہے لہذا اس سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی مرکزي حکومت کی پالیسی بھی یہی تھی۔بہرحال مصائب اور تکالیف کا نہ رکنے والا سلسلہ موجودہ دور تک پہنچا اور گزشتہ چار سالوں سے یہ علاقہ پورے طور پر محاصرے میں ہے۔ پشاور سے زمینی رابطہ تقریبا" منقطع ہے۔ پارہ چنار کے عوام سخت ترین حالات میں اپنی ضروریات زندگی انتہائي مہنگے داموں افغانستان سے مہیا کرتے ہیں۔
ملک کے اندر ایک مٹھی بھر ٹولے کا اتنا رعب ہے کہ مرکزي اور صوبائی حکومتیں اس وقت پیشاور پارہ چنار روٹ بحال کرنے پر تیار نہیں، اس مسئلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس روٹ کو بحال کرنے سے بعض حکومتی عناصر کے مفادات پر بھی چوٹ پڑتی ہے۔ اب یہ بات کھلے عام کہی جا رہی ہے کہ اس علاقے میں تعینات سرکاری افسران جن میں پاکستانی فوج کے افسران بھی شامل ہیں، بڑی بڑی رقوم اور رشوتیں لیکر پشاور سے پارہ چنار تک غذائي اشیاء پہنچانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ یہ کانوائے حکومت کی مرضی کے بغیر محفوظ مقامات تک نہیں پہنچ سکتے، جس کانوائے کے حوالے سے متعلقہ افسران کو منہ بولی قیمت دی جاتی، وہاں کسی قسم کا نقصان نہیں ہوتا، حال ہی میں پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں دوبارہ بدامنی پھیلانے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ پارہ چنار آنے والے امدادی کارواں پر القاعدہ اور طالبان کے دہشتگردوں نے حملہ کر کے بائیس ٹرکوں کو تباہ کر دیا اور دس ٹرکوں کا سامان لوٹ کر لے گئ۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے ذیلی سڑک کے استعمال کئے جانے پر اصرار کا نتیجہ ہے اور اگر یہ کاروان اپنے مقررہ راستے سے جاتا تو ہرگز یہ واقعہ پیش نہ آتا۔ متاثرین نے اس کاروائی کو سیکورٹی فورسز اور طالبان دہشت گرودوں کی ملی بھگت کا نتیجہ قرار دیا ہے۔اطلاعات کے مطابق طالبان کی فائرنگ میں ایک سرکاری فوجی اور ایک ڈرائیور زخمی ہوا جبکہ متعدد ڈرائيور لاپتہ ہیں۔ پارہ چنار کے لئے سامان لانے والی گاڑیوں سے حکومتی کارندے اور پولیس والے بھاری رشوت لیتے ہیں اور رشوت نہ دینے کی صورت میں انہیں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
پارہ چنار کے امدادی کاروان پر یہ حملہ طوری اور بنگش قبائل کے ساتھ حقانی گروپ کے مذاکرات کے موقع پر کیا گيا ہے۔اس سے قبل محرم میں اسلام آباد میں انجام دیئےجانے والے مذاکرات ناکام ہو چکے تھے۔ ان مذاکرات میں حقانی گروہ نے پارہ چنار سے القاعدہ اور طالبان کے دہشتگردوں کے لئے راھداری کا مطالبہ کیا تھا، تاہم طوری اور بنگش قبائل نے طالبان دہشت گردوں کو یہ سہولت دینے سے انکار کر دیا ہے، تاہم بتایا جاتا ہے کہ طالبان دہشت گردوں نے دوبارہ حملے کر کے پارہ چنار کے باشندوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔چند روز قبل طالبان دہشت گردوں نے طوری قبیلے کے ایک طالب علم کو اغوا کر کے بڑے بہیمانہ طریقے سے شہید کر دیا تھا۔
حقانی اور القاعدہ گروہوں کا مرکز شمالی وزیرستان ہے جس پر امریکہ تقریبا روزانہ میزائل حملے کر رہا ہے اسی وجہ سے ان دہشت گردوں کے سرغنہ کرم ایجنسی میں آ کر روپوش ہو گئے ہیں۔جس کی بنا پر علاقے میں دہشتگردانہ کاروائيوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان کی سکوریٹی فورسز بھی فوج اور آئي ایس آئي کی پیروی کرتے ہوئے پارہ چنار کے محاصرے کی حامی اور طالبان کے ساتھ ہماہنگ ہیں۔
پارہ چنار کے لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج اگر امریکہ اور نیٹو کی فوج کے خلاف جنگ کرنا چاہتی ہے تو اسے امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کر دینا چاہیے، اس صورت میں شیعہ طوری اور بنگش قبائل محاذ پر سب سے آگے آگے دکھائی دیں گے اور پاکستانی فوج سے پہلے جان قربان کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 49462
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش