0
Sunday 9 Jan 2011 12:47

کیا 9 جنوری سوڈان کی تقسیم کا دن ہے؟

کیا 9 جنوری سوڈان کی تقسیم کا دن ہے؟
تحریر:سید یوسف علی
مغرب بالخصوص امریکی پالیسی ساز مسلم ممالک کے قدرتی وسائل ہڑپ کرنے کیلئے اپنے سازشی منصوبوں پر کس طرح عمل پیرا ہیں اس کی ایک جھلک سوڈان میں 9جنوری کو ہونے والے مجوزہ ریفرنڈم میں دکھائی دیتی ہے۔ امریکی ایماء پر اقوام متحدہ نے تیل و گیس اور قدرتی وسائل سے مالامال اس افریقن ملک کو ریفرنڈم کے انعقاد کا پابند کیا ہے تاکہ عیسائی اقلیتوں کے ووٹوں کو ملک کی دو حصوں میں تقسیم کیلئے استعمال کیا جاسکے۔ امریکی و صیہونی پالیسی سازوں کو ملک کی تقسیم کا یہ موقع خود عاقبت نااندیش سوڈانی رہنماؤں نے فراہم کیا۔
1956ء میں آزاد ہونے والے براعظم افریقہ کا یہ سب سے بڑا ملک اپنی آزادی کے وقت سے ہی اپنوں اور اغیار کی سازشوں کا مرکز رہا ہے۔ ایک بین الاقوامی سازش کے تحت اس کی آزادی کے وقت ایسے نسلی، مذہبی اور علاقائی تنازعات کے بیج بو دیئے گئے تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ تناور درخت بن کر اس ملک کی بقاء کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔ بدقسمتی سے سوڈان کے قومی رہنماؤں نے ابتدا سے ہی ان سازشوں کا توڑ کرنے کیلئے کوئی کوشش نہیں کی اس کے برعکس بکے بعد دیگرے آنے والے فوجی انقلاب ملک میں مذہبی تفریق گہری کر کے تقسیم کے نقیب بن گئے ہیں۔
آزادی کے دو سال بعد ہی جنرل عبود نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ان کی فوجی حکومت 1966ء تک جاری رہی جب شدید عوامی دباؤ پر انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ تین سال بعد پھر ایک اور فوجی آمر جنرل جعفرالنمیری نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، جن کی حکومت 1985ء تک جاری رہی۔ موجودہ فوجی حکمراں عمرالبشیر 1989ء میں ایک فوجی انقلاب کے ذریعے بر سراقتدار آئے تھے۔ گزشتہ 22 برس سے حکمرانی کرنے والے عمرالبشیر نے سوڈان کی ترقی کیلئے بلاشبہ کئی ٹھوس اقدامات بھی کئے، تاہم وہ مغرب کے اشارے پر ناچنے والی عیسائی اقلیت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔
امریکی سی آئی اے نے ابتدا سے ہی سوڈان میں اپنا عمل دخل بڑھا کر وہاں نسلی اور مذہبی تفریق کو ہوا دی، جس کے نتیجے میں دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو جانے والا ملک شدید خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ اس ملک کے عوام اپنی آزادی کے 57 برسوں میں سے لگ بھگ چار عشروں تک ایک نہ ختم ہونے والی خونی جنگ میں ایک دوسرے سے برسرپیکار رہے۔ بدقسمتی سے سوڈان کی جغرافیائی ہیئت نے اغیار کو اس کی تقسیم کیلئے سازگار ماحول پیدا کیا۔
سوڈان کی 70 فیصد آبادی سنّی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ عیسائی اقلیت کی تعداد صرف 5 فیصد ہے جبکہ روحوں کی پوجا پاٹ کرنے والوں کی شرح 25 فیصد ہے۔ یہودوہنود کی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے والی اقلیتی آبادی کی اکثریت جنوبی سوڈان میں ہے۔ یہی جنوبی سوڈان تیل و گیس اور دیگر قدرتی معدنیات کا مرکز ہے۔ اقتصادی طور پر جنوبی سوڈان مشرقی حصے کی بہ نسبت زیادہ مستحکم ہے۔ اس علاقے میں نایاب قسم کی معدنیات بشمول سونا، چاندی، سلیکون، کاپر، جپسم اور دیگر اقسام قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر ہیں۔ اس کے برخلاف مشرقی سوڈان میں مسلم اکثریت غربت کا شکار ہے۔
امریکی و مغربی ایجنسیاں بشمول اسرائیل نواز صیہونی لابیاں جنوبی سوڈان میں عیسائیوں اور باغیوں کو اسلحہ اور ڈالر فراہم کر رہی ہیں۔ اس وقت تیل و گیس کے حصول کیلئے بڑی طاقتوں کے گریٹ گیم کا مرکزی میدان سوڈان بن گیا ہے۔ معدنی دولت کے ساتھ ساتھ یہ خطہ اسٹریٹجک نقطہ نظر سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ مغربی میڈیا نے دارفور کے مسئلہ پر سوڈانی صدر عمرالبشیر پر غیرمسلم اور عیسائیوں کی نسل کشی کا الزام عائد کیا۔ ایک منصوبے کے تحت امریکی پالیسی سازوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے سوڈانی صدر کو افریقی النسل آبادی کی نسل کشی، خواتین کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتیوں اور مخالفین کو ان کے علاقوں سے نکالنے کے الزامات عائد کرائے۔ بعد ازاں عالمی عدالت انصاف کی جانب سے سوڈانی صدر کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے گئے۔ عالمی تایخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی برسراقتدار حکمراں کو عالمی عدالت نے مقدمہ چلائے بغیر اپنے ہی عوام کا قاتل قرار دیدیا۔
سوڈانی صدر نے ملک میں 22 سال سے جاری خانہ جنگی کے خاتمہ کیلئے 2005ء میں باغی گروپوں کے ساتھ ایک امن معاہدہ پر دستخط کئے تھے۔ اس خانہ جنگی میں 15 لاکھ افراد موت کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ قبل ازیں ہونے والی خانہ جنگیوں اور نسلی تصادم کی اموات اس تعداد سے ہٹ کر ہیں۔ عمرالبشیر نے لبریشن اینڈ جسٹس موومنٹ (ایل جے ایم) کے تحت 10 تنظیموں سے مستقبل میں امن و مان کے قیام کیلئے دستخط کئے تھے۔ باغیوں کے ایک بڑے گروپ جسٹس اینڈ ایکویٹی موومنٹ (جے ای ایم) سے بھی معاہدہ میں کامیابی مل گئی۔ فی الوقت صرف ایک مسلم باغی گروپ سوڈان لبریشن آرمی عبدالوحید کی قیادت میں حکومت کے ساتھ نبردآزما ہے۔ ریفرنڈم کا فیصلہ 2005ء میں ہونے والے اسی معاہدہ امن کے تحت کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی امن فوج نے امریکی ایما پر سوڈان کی مخالفت کے باوجود ملک کی 1250 میل طویل سرحد پر اپنی موجودگی میں اضافہ کر دیا ہے۔ دوسری جانب خانہ جنگی کے دوران 20 سال قبل یوگنڈا اور کینیا میں جلاوطنی اختیار کرنے والے سیاسی مخالفین بشمول نسلی اقلیتی افراد کو روپوشی ترک کر کے ملک میں واپس لانے کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ امریکیوں نے اپنے مغربی حلیفوں کی مدد سے سوڈانی حکومت کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ایک ریفرنڈم میں جنوبی سوڈان کے لوگوں سے یہ رائے لے کہ انہیں شمالی سوڈان کے ساتھ رہنا ہے یا کہ علیحدہ وطن کے خواہش مند ہیں۔
سوڈان کی پارلیمنٹ بھی ایک بل کے ذریعے ریفرنڈم کے انعقاد کی منظوری دے چکی ہے۔ اس ریفرنڈم سے جنوبی سوڈان کی آزادی کیلئے راہ ہموار ہو گئی ہے۔ پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے بل کے مطابق جنوبی سوڈان سے 60 فیصد افراد کا حق رائے دہی میں حصہ لینا ضروری ہے۔ تاہم اگر 30 فیصد سے زیادہ افراد نے آزادی کے حق میں ووٹ ڈالے تو جنوبی سوڈان ایک عیسائی ملک کی حیثیت سے عالمی نقشے پر ظاہر ہو گا۔ صدر عمرالبشیر ماضی قریب تک یہ کہتے رہے کہ وہ جنوبی سوڈان کو ملک کے اتحاد کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ ریفرنڈم کے نتائج قبول کر لیں گے۔ 
اس ضمن میں سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسلم امہ بشمول او آئی سی، عرب لیگ، یا افریقی مسلم اتحاد سمیت کسی نے بھی امریکی و اسرائیلی سازش سے نمٹنے کیلئے کوشش نہیں کی ہے۔ دوسری جانب صیہونی لابیاں مسلسل ملک کی علیحدگی کیلئے راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔ 9 جنوری 2010ء کو ہونے والے ریفرنڈم میں ملک کو دو ٹکڑے کرنے کیلئے ان قوتوں نے ریڈیو اور ٹیلیویژن اسٹیشن قائم کئے ہیں جہاں سے اقلیتوں کو ایک آزاد مملکت کے قیام کی صورتحال میں حاصل ہونے والے فوائد کے بارے میں سبز باغ دکھائے جارہے ہیں۔ اس امر میں بھی کوئی ابہام نہیں ہے کہ تیل و گیس اور قدرتی وسائل کی موجودگی میں جنوبی سوڈان ایک بڑی اقتصادی قوت بن سکتا ہے۔ فی الوقت بھی جنوبی سوڈان میں تیل کی پیداوار 250 بلین بیرل سے بڑھ چکی ہے۔ عمرالبشیر کی کوششوں سے تیل صاف کرنے کی پانچ آئل ریفائنریز قائم کی جاچکی ہیں۔ دوسری جانب تیل کو بندرگارہ تک پہنچانے کیلئے پائپ لائنز ڈالی گئی ہیں۔ تاہم موجودہ حالات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صیہونی قوتیں مسلم امہ کی نظروں کے سامنے ہی ایک مسلم ملک کو ریفرنڈم کے نام پر دو ٹکڑے کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔

خبر کا کوڈ : 49768
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش