0
Tuesday 11 Jan 2011 00:33

فرض شناسی سے جانبداری تک

فرض شناسی سے جانبداری تک

 تحریر:آر اے سید

صحافت کے شعبے کو ہر دور میں مقدس شعبہ گردانہ گیا ہے۔ صحافی یا رپورٹر ایک مبلغ اور پیغام بر کیطرح ہوتا ہے جو کسی واقعہ کو اپنی مشاہدے کی قوت سے بغور دیکھتا اور پرکھتا ہے اور پھر اسے دوسروں تک منتقل کرتا ہے۔ رپورٹر حقیقت میں اس واقعہ کے حوالے سے ایک امین اور امانت دار شخص کی مانند ہوتا ہے جس نے بغیر کسی کمی بیشی کے اس واقعے کی رپورٹنگ کرنا ہوتی ہے۔ صحافت اور انسانی تاریخ کا چولی دامن کا ساتھ کا ہے، حضرت آدم کی زمین پر آمد اور ہابیل و قابیل کے واقعے سے لیکر آج تک انسانی تاریخ میں اس روئے زمین پر جتنے واقعات رونما ہوئے ہیں وہ امین اور غیر جانبدار رپورٹروں کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں انسانی تاریخ میں ممکن ہے ان واقعات کی تفصیلات کو دوسری نسلوں تک منتقل کرنے والوں کو مختلف ناموں اور عہدوں سے مخاطب کیا گيا ہو، لیکن اپنے کام کی نوعیت کے حوالے سے صحافت اور اس میں کوئی فرق نہیں تھا۔
انسانی تاریخ میں عمومی طور پر واقعات کو نقل کرنے والے کو "راوی" کیا گيا ہے۔ انسانی تاریخ انہی راویوں کی روایات اور رپورٹنگ سے نسل در نسل منتقل ہوئی ہے ان واقعات کو بعض صحافیوں نے سینہ بہ سینہ منتقل کیا، بعض نے پتھروں، جانوروں کی کھالوں اور درختوں کے پتوں یا مختلف دھاتوں پر لکھ کر دوسروں تک منتقل کیا ہے۔ اسلامی اور انسانی تاریخ میں جس واقعے کو غیر جانبدارانہ طور پر منتقل کیا گيا اس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے اور جن لوگوں پر ان واقعات کی رپورٹنگ یا واقعات کے اثرات مرتب ہوئے اور جن لوگوں نے ان واقعات کی رپورٹنگ یا واقعات کے حوالے سے جانبداری کی تو تاریخ کو اسکے نتائج بھگتنے پڑے۔ واقعات کی تحریف ہو یا آسمانی حوالے سے جانبداری کی، تو تاریخ کو اسکے نتائج بھگتنے پڑے۔ واقعات کی تحریف ہو یا آسمانی کتابوں میں تحریف یہ سب جانبدارانہ صحافت کا نتیجہ ہے، اسلام میں بھی جو بڑے بڑے واقعات، سانحات اور انحرافات سامنے آئے ہیں وہ بھی غلط رپورٹنگ اور جانبدارانہ صحافت کا شاخسانہ ہیں۔
آج کے دور میں بھی صحافت کے شعبے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی تاریخ کا حصّہ بن رہا ہے۔
آج کا صحافی یا نامہ نگار یہ نہ سمجھے کہ آج جو کچھ وہ رپورٹنگ کر رہا ہے وہ صرف آج کے دن یا دور سے متعلق ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تاریخ کا حصّہ بنتا جا رہا ہے اور محققین جب مستقبل میں اس واقعہ کی تحقیق و جستجو کریں گے تو بالآخر ایسے نامہ نگار یا صحافی کے بارے میں اچھی رائے قائم نہیں کریں گے جس نے جانبدارانہ انداز اپناتے ہوئے حقائق کو صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا تھا۔ انسانی تاریخ کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس طرح کی رپورٹنگ کرنے والوں کو چاہے اسے راوی کیا جائے، مورخ کا نام دیا جائے یا آج کے دور میں نامہ نگار یا تجزيہ کار کہا جائے بادشاہوں، حکومتوں اور موثر طبقوں کے خوف یا لالچ کی بناء پر حقائق کو مسخ کرتے رہے ہیں اور یہ قبیح سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
کسی زمانے میں ایک بادشاہ، آمر یا موثر حکومتی حلقہ نامہ نگاروں اور تجزيہ کاروں اور کالم نگاروں کو اسٹک اینڈ کیرٹ ( خوف اور لالچ ) کے حربے سے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتا تھا، تاہم اب جہاں یہ سلسلہ جاری ہے وہاں عالمی سطح پر ایک غاصب صیہونی لابی بھی ہے جو ہر عالمی مسئلے کو اپنے فلٹر سے گزار کر اپنے مفاد کے مطابق سامنے لاتی ہے بعض اوقات تو اس کی اصل حقیقت کو بھی اس طرح مسخ کر دیا جاتا ہے کہ حقائق لاکھ جتن کرنے کے باوجود سامنے نہیں آپاتے۔
موجودہ دور میں اگر اسکی چند مثالیں دی جائیں تو اس میں ہولوکاسٹ کے معاملے سے لیکر گیارہ ستمبر کا واقعہ، عراق میں عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اسلام فوبیا کا نام با آسانی لیا جا سکتا ہے، بات یہ صرف مذکورہ مسائل تک محدود نہیں بلکہ مختلف ممالک کے اندر بھی بعض مسائل کو حد سے زيادہ اہمیت دے کر اور بعض پر مکمل سنسر عائد کر کے اپنے مفادات حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ دیگر ممالک میں ہونے والے واقعات کو چھوڑ کر اگر صرف پاکستان کی مثال بھی سامنے لائي جائے تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ایسے عناصر کا قبضہ ہے کہ انہوں نے پوری پاکستانی قوم کو اپنے پروپیگنڈوں میں جکڑا ہوا ہے۔
یہ میڈیا نہ صرف حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے بلکہ واقعات ہر اسطرح خاموشی اختیار کر لیتا ہے جیسے یہ واقعہ انجام ہی نہیں پایا ہے۔ عالمی صیہونی میڈیا کے بارے میں تو یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ان کا متعلقہ آدمی کسی مخالف ملک میں غسل خانے کے اندر صابن سے پھسل کو زخمی ہو جائے تو وہ بریکنگ نیوز بن کر اور عالمی انسانی مسئلہ بن کر دنیا بھر کی نیوز ایجنسیوں اور ٹی وی چینلوں کا موضوع بن جاتا ہے، اس کے مقابلے میں فلسطین میں صیہونی قید میں موجود کم سن بچے اور عورتیں اسرائیلی فوجیوں کے جنسی اور غیر انسانی تشدد کے نتیجے میں جاں بحق بھی ہو جائیں تو اسکی معمولی سے خبر بھی باہر نہیں آتی، پاکستان میں بھی تقریبا" یہی صورت حال ہے۔ گدھا گاڑی کی ٹانگے سے ٹکر کی خبر یا پانچ بچوں کی مان آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی والی خبر تو ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں کئی کالموں اور زیلی اور شہ سرخیوں میں دی جاتی ہے لیکن عالم اسلام میں ہونے والے بڑے سے بڑے واقعے کو اندر کے صفحے یا آخری خبر کے طور پر بھی شائع نہيں کیا جاتا۔
حال ہی میں غزہ پٹی کے محصور فلسطینیوں کے لئے ایشیائی کاروان امدادی سامان اور سماجی کارکنوں سمیت نئی دہلی سے روانہ ہوا اور پاکستان کے شہر لاہور سے ہوتا ہوا ایران اور پھر ترکی، مصر، شام اور لبنان سے ہوتا ہوا مصر کی بندرگاہ العریش سے غزہ پہنچا، لیکن باوجود تمام کوششوں کے اس خبر کو پاکستانی میڈیا نے اہمیت نہیں دی۔ اگر اس میں صرف ہندوستانی افراد شامل ہوتے تو شاید کوئی بہانہ بنایا جا سکتا کہ چونکہ اسکا ہندوستان سے تعلق ہے، لہذا پاکستانی میڈیا حکومت ہندوستان کے حق میں کچھ نہیں کہتا، لیکن صورتحال اسکے برعکس تھی اگرچہ اسکا آغاز ہندوستان سے تھا لیکن پاکستان، جاپان، آذربائیجان سمیت درجنوں دوسرے ایشیائی ممالک کے افراد شامل تھے۔ 
پاکستانی میڈیا کے پاس بہترین موقع تھا جب ہندوستانی حکومت نے اسے واہگہ بارڈر سے پاکستان داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ پاکستان کا شتر بے مہار میڈیا ہندوستان کے غیر جانبدارانہ پالیسیوں کو ہدف تنقید بنا کر اور اسکی طرف سے اسرائيل کے حوالے سے نرم گوشے کو اساس بنا کر اسکی عالمی حیثیت کو خراب کر سکتا تھا، لیکن ہمارے میڈیا کو سیاستدانوں کی گالم گلوچ اور لچر اور بے ہودہ پروگرام پیش کرنے سے فرصت ہو تو وہ کسی ڈھنگ کی خبر یا پروگرام کی طرف متوجہ ہو، یہ کاروان جب لاہور میں تھا اور وہاں سے ایران کی طرف روانہ ہو رہا تھا تو اس وقت بھی کئی معروف پاکستانی سیٹلائیٹ چینلوں سے اس حوالے سے رابطہ کیا، لیکن کوئی ریسپانس نہیں ملا، اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جب اس کاروان کے آٹھ افراد کو العریف بندرگاہ سے غزہ جاتے ہوئے اسرائيلی طیاروں اور اسرائيلی جنگي کشتیوں نے اپنے گھیرے میں لے لیا تو اس وقت بھی میں نے ذاتی طور پر بعض ٹی وی چینلوں کو اس کشتی میں موجود اس کاروان کے ایک سماجی کارکن کا ڈائریکٹ موبائيل نمبر دیا، لیکن سوائے ایران کے " اردو ریڈیو تہران" اور انگریزي چینل پریس ٹی وی نے خطرات میں گھرے ان افراد سے براہ راست گفتگو نہیں کی۔ 
فلسطین کے مسئلے کی اہمیت اور غزہ میں محصور عوام کی مدد کا مسئلہ ہو تو اپنی جگہ پیشہ ورانہ حوالے سے بھی اس طرح کے حساس تاریخی موقع پر براہ راست پروگرام یا انٹرویو صحافی، ٹی وی چینل اور ٹی وی اینکر کے لئے ایک اعزاز سے کم نہیں ہوتے، ہم سی این این، بی بی سی اور اے بی سی و غیرہ جیسے ٹی وی چینلوں سے کیا گلہ کریں، ہمارے اردو چینل نے اس عالمی ایشو کو جس طرح سنسر کیا اسے دنیا کے مظلوم اقوام بالخصوص فلسطینی کاز سے تعلق رکھنے والے اور غزہ کے محصور عوام کے لئے ہمدردی رکھنے والے کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے، عالمی ٹی وی چینل من جملہ پاکستانی ٹی وی چینل ایک طرف تو عالم اسلام کے بارے میں حقائق کو صحیح طریقے سے منتقل نہیں کرتے، دوسری طرف اسلام کے خلاف ہونے والے اقدامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے دین مبین اسلام کے پاک و پاکیزہ اور نرم و پر کشش چہرے کو متشدد، جنگجو اور دور جہالت کا ترجمان بنا کر مسخ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ کیا پاکستان موجودہ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے میں پاکستانی میڈیا کے کردار کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ سیاسی عدم استحکام اور افراتفری کو رواج دینے میں کیا پاکستانی میڈیا اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے سکتا ہے؟
غیر اخلاقی غیر مذہبی اور پاکستانی تہذیب و ثقافت کے خلاف اقدار کو پہلے ڈراموں اور فلموں میں تو پیش کیا ہی جاتا تھا کیا آج کے ٹاک شو حتٰی سیاسی مناظروں میں جس طرح کی بازاری زبان اور رویہ دکھایا جاتا ہے اس سے ہماری آئندہ نسلیں کیا سیکھیں گی؟
پاکستان میں کبھی کرپشن، کبھی مذہبی انتہا پسندی اور کبھی بیرونی مداخلت کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے یہ سب بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہیں لیکن اس قوم کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار افراد میں بقول شاعر مشرق " احسان زياں جاتا رہا "
خبر کا کوڈ : 49982
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش