0
Tuesday 15 Feb 2011 14:02

چین،خلائی طاقت

چین،خلائی طاقت
نصرت مرزا
چین نے ریڈار کی اسکرین پر نظر نہ آنے والا اسٹلیتھ جیٹ طیارہ بنا کر مغربی دُنیا اور خصوصاً امریکہ میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ چین کی اس میدان میں تیز رفتاری نے امریکہ کو فکرمند کر دیا ہے جس کا اظہار امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کھل کر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح سے چین نے اُن کی کئی صلاحیتوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ امریکہ جب تشویش کا اظہار کرتا ہے تو اس کا مقصد قطعاً یہ نہیں ہوتا کہ اُس کی سلامتی خطرے میں پڑ رہی ہے بلکہ اُس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی ہتھیاروں میں بالادستی کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ چین نے اس سے پہلے خلاء میں اپنے ہی سیٹلائٹ کو تباہ کر کے امریکہ میں سنسنی پھیلا دی تھی۔ وہ امریکہ جو خلاء کو ہتھیاروں سے بھر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا اُس کی جگہ نہ لے، جہاں اس نے درجنوں ایسے سیٹلائٹ بھیج دیئے ہیں جو دنیا کے کسی بھی حصے کو اپنے میزائلوں سے نشانہ بنا سکتے ہیں یا موسمی تغیرات پیدا کرسکتے ہیں یا جراثیمی و کیمیاوی ہتھیاروں کو استعمال کرسکتے ہیں۔ وہ سارے سیٹلائٹ خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ اگرچہ امریکہ نے اس صلاحیت کا اظہار 13 ماہ بعد کیا، جس سے چین کی اِس میدان میں صلاحیت سے امریکہ سے آگے نظر آتی ہے، جس سے امریکہ کو چیلنج محسوس ہو رہا ہے۔ امریکہ اس کو چیلنج ہی سمجھتا ہے۔
پھر اکیسویں صدی کا اسلحہ خلاء کے اسلحہ جات ہیں اور امریکہ اپنے اسلحہ کو جدید بنانے کیلئے سیارچوں کی مدد لے رہا ہے۔ خود چین بھی بحرالکاہل میں اپنی نیوی کو مضبوط نہیں کر رہا ہے بلکہ ایسے اسلحہ جات بنا رہا ہے جو ایسی نیوی کو تباہ کر دے۔ اس سلسلے میں وہ سائبر حملے، خلائی ہتھیار، لیزر، برقی موجوں اور دوسری توانائی کی شعاعوں کی کرنوں کی جنگ کی تیاری کر رہا ہے تاکہ امریکہ کے ہم پلہ آسکے۔ روایتی ہتھیار کام کے تو رہیں گے اور شاید ایسے ملکوں کے لئے جیسے پاکستان اور انڈیا میں اُن کے لئے ایٹم بم، پلوٹینم بم اور ہائیڈروجن بم بھی کارآمد ہوں یا انڈیا جو جہاز خرید رہا ہے وہ بھی قدرے کارآمد رہیں مگر جب اُن کو لیزر کی کرنوں سے تباہ کیا جاسکتا ہو تو پھر اُن کی کیا حیثیت باقی رہے گی اور ایٹم بم کو چلنے ہی نہ دیا جائے تو اس کا استعمال کیسے ہوسکے گا۔ ویسے بھی اس کا استعمال بے معنی ہے۔ چینیوں کا خیال ہے کہ ایئرکرافٹ کیئر حملہ گروپ بنانے سے بہتر ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی پر کام کیا جائے،تاکہ اِن کا احکامات دینے کا نظام بھی فیل کر دیا جائے جس طرح ایک زمانے میں دُنیا میں تلواروں، منجنیق، گھوڑوں اور ہاتھی کی لڑائی کو بارود نے، پھر اس کو توپوں نے، پھر ٹینک، جہازوں کی ایجاد، راکٹ اور پھر ایٹمی طاقت نے جنگ کے تصور کو یکسر تبدیل کر دیا تھا۔ اس طرح اب خلائی جنگ اور لیزر اِن سابقہ جنگی ہتھیاروں کو فرسودہ بنا رہے ہیں۔ اب سلسلہ یہ ہو گا کہ دوسروں کے الیکٹرونک سسٹم کو بھون دیا جائے اور اپنے الیکٹرونک نظام کو بچا لیا جائے۔ 
پاکستانیوں نے صرف ایٹم بم بنا کر اپنے سائنسدانوں کو قید کرنا شروع کر دیا بلکہ یہ لڑائی تو بہت طویل تھی، سائنسداں کا کام کبھی نہیں رکتا، ابھی تک ہم خلاء میں اپنا سیارہ نہیں بھیج سکے ہیں۔ اب شاید چین کی مدد سے ہم اپنے سیارچہ کو خلاء میں بھیج سکیں مگر وہ بہت بنیادی نوعیت کا ہو گا وہ نہ تو میزائلوں کو دنیا کے کسی حصہ میں مارنے کا کام کر سکتا ہے اور نہ ہی موسمی تغیرات پیدا کرسکتا ہے اور کیمیاوی ہتھیاروں کو پھیلانے کا خوف پیدا کر سکتا ہے۔ اب امریکہ اور چین اس سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی بات کر رہے ہیں مگر چین کی بڑھتی ہوئی خلائی طاقت نے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ان دونوں ممالک کے درمیان اس میدان میں تعاون ختم ہو رہا ہے کیونکہ چین نے امریکہ کو کئی میدانوں میں چیلنج کر دیا ہے۔ اس نے اپنی کرنسی پالیسی بنا ڈالی ہے اور ڈالرز کو دُنیا میں لین دین کی کرنسی کے نظام کو بھی رد کر دیا ہے۔ 
دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم میں جو فرق ہے اس نے بھی امریکہ کو فکرمند کر دیا ہے کیونکہ تجارت کا توازن چین کے حق میں ہے۔ امریکہ چین کو مجبور نہیں کرسکا کہ وہ شمالی کوریا کو اپنے آپے میں رکھے۔ چین نے جواب دے دیا ہے کہ شمالی کوریا ایک حد سے آگے اُس کی بات ماننے کو تیار نہیں ہے۔ ایرانی ایٹمی طاقت بننے کے معاملے میں بھی چین امریکہ کا ساتھ نہیں دے رہا۔ اس نے ناسا کو اپنے ملک کے دفاعی نظام میں رسائی دینے سے انکار کیا ہے اور امریکہ خود چین اور ناسا کے درمیان تعاون کے معاملے میں خوش نہیں ہے۔ امریکی صدر اوبامہ اور چینی رہنما ”ہو“ نے نومبر 2009ء انسانی خلائی فلائٹ اور خلائی تحقیق پر جو بات کی تھی وہ بھی آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔ چین اس سلسلے میں خود پیش رفت کر رہا ہے۔ وہ بھی خلاء نورد چاند پر بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے اور شاید وہ 2012ء میں خلائی جہاز جس میں کوئی انسان شامل نہیں ہو گا،چاند پر اتار دے اور 2020ء میں انسان کو چاند پر اتارے گا۔ یہ سب ترقی اس سے کہیں تیز تر ہے جس کا تصور یا حساب امریکہ نے لگا رکھا تھا۔
چین نے جنوری 2007ء میں اپنے ہی سیارچے کو تباہ کر کے امریکہ پر جو برتری حاصل کی تھی وہ امریکہ نے 13 ماہ بعد اس وقت حاصل کی جب اس نے اپنے صحیح کام نہ کرنے والے سیٹلائٹ کو تباہ کیا۔ امریکی سمجھتے ہیں کہ اُن کی خلاء میں اثاثہ جات کو چین کی اس صلاحیت سے زبردست خطرات لاحق ہو گئے ہیں اور اس کے سارے سیارچے جو Low Orbit میں ہیں چین کی زد میں آگئے ہیں۔ چینیوں نے ایک اور غضب یہ کیا ہے کہ اس کے تجربہ سے ایسے بڑے بادل پیدا کر دیئے ہیں جو سو سال تک قائم رہیں گے اور اس سے دو درجن سے زائد ممالک کے سیکڑوں سیارچوں کے لئے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ سیارچوں کو تباہ کرنے کی چینی صلاحیت، امریکہ اور اس کی صلاحیت کو عدم استحکام کا شکار کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ چین نئے منصوبہ جات جیسے بحری جہاز کو توڑنے والے میزائل جدید آبدوز، زمین سے ہوا میں مارنے والے میزائل اور کمپیوٹر جنگ کے میدان میں بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چین طویل المدتی، مربوط فوجی تیاریوں میں لگا ہوا ہے جو خطہ کے حفاظتی نظام کو بدل کر رکھ دے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کھل رہا ہے وہ برما کو بھی ایٹمی ری ایکٹر دے رہا ہے، اس نے آبنائے کوریا میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھایا ہے اور اپنی موجودگی کو واضح کیا ہے۔ اس نے ویت نام پر بھی دباؤ ڈالا ہے، اس نے پاکستان کو بھی ایٹمی ری ایکٹر دینے کا اعلان کیا ہے اگرچہ وہ عالمی پابندی و قیود کے دائرہ کار میں ہوں گے۔ اس نے عالمی تجارتی گزرگاہ کے جزیروں پر اپنا حق جتا دیا ہے اسی وجہ سے امریکی کافی فکرمند ہیں۔ 
چین امریکہ سے افریقہ میں بھی تیل کے حصول میں مسابقت کر رہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ بھی اپنی تمام جنگی صلاحیت کو خلائی، لیزر اور سائبر وار فیئر میں تبدیل کر رہا ہے جو اکیسویں صدی کے ہتھیار ہوں گے۔تاہم یہ بات اپنی جگہ درست کہلائے گی کہ چین بھی خلائی طاقت بن گیا ہے۔ جس پر وہ پچھلے تیرہ برسوں یعنی 1996ء سے کام کر رہا تھا مگر سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

خبر کا کوڈ : 54905
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش