1
0
Friday 25 Mar 2011 18:30

امریکی پالیسیوں کی ناکامی

امریکی پالیسیوں کی ناکامی
 تحریر:محمد علی نقوی
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ مصر، تیونس، لیبیا اور بحرین میں رونما ہونے والے واقعات بہت زیادہ اہمیت کے حامل اور ملت اسلامیہ کی بیداری کی علامت ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مشہد مقدس میں واقع حضرت امام رضا ع کے روضۂ اقدس میں ہزاروں زائرین سے خطاب کرتے ہوۓ خطے میں اٹھنے والی تحریکوں کو مشرق وسطی اور شمالی افریقہ سے متعلق امریکی پالیسیوں کی ناکامی قرار دیا اور فرمایا کہ پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ خطے کے موجودہ حالات میں اصل شکست امریکہ اور صیہونی حکومت کو ہی ہو گی۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے علاقے کی عوامی تحریکوں کا جائزہ لیتے ہوئے لیبیا کے واقعات کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا ہےکہ لیبیا کے مسئلے میں اسلامی جمہوریہ ایران حکومت کے ہاتھوں عوام کے قتل عام کی بھی مذمت کرتا ہے اور امریکہ سمیت مغربی ممالک کے حملوں کو بھی قابل مذمت جانتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے لیبیا کے عوام کی حمایت میں فوجی کارروائی شروع کرنے کے امریکہ اور مغربی ممالک کے دعوے کو بالکل ناقابل اعتبار قرار دیا اور فرمایا کہ اگر وہ واقعی لیبیا کے عوام کے خیر خواہ ہیں تو کیوں ایک مہینے تک بے گناہ عوام کے قتل عام پر مہر بلب بیٹھے رہے اور کوئی اقدام انجام نہیں دیا؟ آپ نے فرمایا کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک لیبیا کے تیل اور اس ملک میں ایک ٹھکانے کے حصول کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں تاکہ تیونس اور مصر کی آئندہ کی حکومتوں پر بھی نظر رکھ سکیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سامراجی طاقتوں خصوصاً امریکہ کو اپنے ناجائز مفادات اور قوموں کی قومی دولت و سرمائے کی لوٹ کھسوٹ کے لئے ایسے حاکموں اور بادشاہوں کی ضرورت ہے کہ جو بے چون چرا ان کے احکامات کی تعمیل کر سکیں، چنانچہ تیل اور گیس نیز معدنیات کے عظیم ذخائر سے مالا مال اس خطے میں انہیں ایسے حکام اور بادشاہتیں باآسانی دستیاب ہوگئیں جو ذاتی اور خاندانی حکومت کی ضمانت کے بدلے اپنا اور اپنے عوام کی غیرت اور حمیت کا سودا کرنے پر تیار ہو گئیں۔ سامراجی طاقتوں اور اور خصوصاً امریکہ کو بھی ایسے پٹھوؤں کو علاقے کی اقوام پر مسلط کرنے میں کوئی مشکل نظر نہیں آئی، چنانچہ اس پورے خطے پر خاندانی اور ذاتی حکومتیں قائم ہوئیں۔ یہ ہے وہ مقام کہ جہاں امریکہ اور مغرب کے جمہوریت اور انسانی حقوق کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اب جبکہ اس خطے میں عوامی تحریکوں نے اپنے حقوق کے لئے سر ابھارا ہے تو امریکہ اور مغرب والوں پر بوکھلاہٹ طاری ہوگئی کہ جسکا مشاہدہ ان تحریکوں کے حوالے سے ان کے مواقف میں پوری طرح سے عیاں ہے۔ 
رہبر انقلاب اسلامی ان واقعات کے تناظر میں امریکیوں کے موقف اور پالیسیوں کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان واقعات پر پہلے تو امریکی حکام دم بخود اور خالی الذہن نظر آئے، اسی لئے انہوں نے متضاد بیانات بھی دیئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ڈکٹیٹروں کی حمایت امریکیوں کی دیرینہ پالیسی رہی ہے اور انہوں نے حسنی مبارک کا بھی آخری لمحے تک دفاع کیا، لیکن جب انہیں اندازہ ہو گیا کہ مبارک کی حکومت اب جاری نہیں رہ سکتی تو اسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا۔ یہ چیز امریکہ کی کاسہ لیسی کرنے والے تمام حکام کے لئے درس عبرت ہونا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی مصر کے آمر کے سقوط کو امریکہ کی مشرق وسطی پالیسی کے لئے بہت بڑا دھچکا قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ امریکہ جب بن علی اور حسنی مبارک کو بچانے کے سلسلے میں مایوس ہو گیا تو اس نے خباثت آمیز، موذیانہ اور بچگانہ حرکتیں شروع کر دیں، تاکہ تیونس اور مصر کے آمرانہ نظاموں کے اسی ڈھانچے کو برقرار رکھ سکے لیکن عوام کا قیام مسلسل جاری رہنے کی وجہ سے یہ حربہ بھی ناکام ہو گیا۔
تیونس، مصر، لیبیا، یمن اور سعودی عرب کی طرح بحرین کے عوام بھی اپنے ملک میں جمہوریت اور آزادی کے خواہاں ہیں اور اپنے انہی مطالبات کو لیکر انہوں نے بھی بحرین کی شاھی حکومت کے خلاف تحریک شروع کی ہے اور نہایت ہی پرامن طریقے سے امریکہ نواز خاندانی حکومت کی جگہ جمہوریت کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن لیبیا میں بظاہر ڈکٹیٹر قذافی کے خلاف تادیبی اقدامات کا حامی امریکہ بحرین میں عوامی تحریک کو کچلنے کی حمایت کر رہا ہے، چنانچہ امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی ہلتے ہی سعودی عرب اور چند دیگر عرب ملکوں نے نہایت بے دردی کے ساتھ بحرین کی عوامی تحریک کو کچل کر رکھ دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فلسطینی عوام کی مدد و حمایت سے گریزاں سعودی فوج کے پاس بحرینی عوام کی تحریک کو کچلنے کا جواز کیا ہے، اور عالمی ادرارے اس پر کیوں خاموش ہیں؟ رہبر انقلاب اسلامی بحرین کی عوامی تحریک اور اس خطے میں اٹھنے والی دیگر تحریکوں کا موازنہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بحرین کی عوامی تحریک اور مصر، تیونس، لیبیا اور یمن کے عوامی انقلابات میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ بحرین کے عوام بھی آزادانہ انتخابات میں اپنے حق رائے دہی کے استعمال کے طالب ہیں اور یہ کوئی بہت بڑا مطالبہ نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بحرین کے مسئلے میں امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے شیعہ سنی مسئلہ اٹھائے جانے کو علاقے کے امور میں مداخلت کے لئے بہانہ تراشنے کی کوشش سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ امریکی، بحرین میں شیعہ سنی کا مسئلہ چھیڑ کر بحرین کی عوامی تحریک کے سلسلے میں رائے عامہ کی حمایت اور مدد کا راستہ بند کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے امریکیوں کے اس جال میں بعض لوگوں کے گرفتار ہو جانے پر افسوس ظاہر کیا اور فرمایا کہ بحرین کے مسئلے میں شیعہ اور سنی کا مسئلہ اٹھانا امریکہ اور دشمنان اسلام کی بہت بڑی خدمت کرنا ہے۔ شیعہ سنی کی تفریق کے بغیر فلسطینی قوم اور تیونس، مصر، لیبیا اور یمن کے عوام کی حمایت میں ایران ہمیشہ پیش پیش رہا، اسلامی جمہوریہ ایران نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اسلامی تعلیمات کی اساس پر مستضعفین عالم خصوصاً مسلم اقوام کی حمایت کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد قرار دیا اور عملی طور ایسے اقدامات کئے جو مسلم امہ کے اتحاد اور سربلندی پر منتج ہوئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی یہ پالیسی بلاشبہ امریکہ اور بڑی سامراجی طاقتوں نیز عرب اور اسلامی دنیا پر مسلط ان کی پٹھو حکومتوں کے مفادات سے متصادم ہے لہذا وہ جب بھی اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھتے ہیں فوراً ایران کو ایک شیعہ ملک قرار دیکر خود کو سنی ظاھر کرنے لگتے ہیں اور کبھی ایران کو عجم ظاہر کر کے عرب بن جاتے ہیں اور یوں مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ فلسطین میں صہونیوں کے مظالم سہنے والے مسلمان سنی بھی ہیں اور عرب بھی، لیکن پچھلی نصف صدی سے یہ لوگ صرف تماشا دیکھ رھے ہیں اور اگر کوئی ملک ان کی مدد و حمایت کر رہا ہے تو صرف اور صرف ایران ہے جو ان کے بقول شیعہ بھی اور غیر عرب بھی۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے فلسطینی کاز کی حمایت اور خاص طور پر بائیس روزہ جنگ میں فلسطینیوں کی پر زور حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے فلسطینی قوم اور تیونس، مصر، لیبیا اور یمن کے انقلابات کی حمایت کی جبکہ ان ممالک کے عوام شیعہ نہیں ہیں کیونکہ ان امور میں شیعہ سنی کی کوئی بات ہی نہیں ہے، لہذا بحرین کے مسئلے میں بھی صرف اس وجہ سے کہ وہاں کے عوام شیعہ ہیں سکوت اختیار کرنا مناسب نہیں ہے۔ بحرین کے مسئلے میں سعودی عرب کی مداخلت امریکیوں اور علاقے میں ان کے مہروں کی بے شرمی کی انتہا ہے وہ بحرین میں سعودی عرب کے ٹینکوں کی موجودگی کو مداخلت ماننے پر تیار نہیں ہیں لیکن بحرین کے عوام کے قتل عام پر علمائے کرام اور خیر خواہ افراد کے احتجاج کو ایران کی مداخلت قرار دے رہے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بحرین میں سعودی عرب کی فوجی مداخلت کو بہت بڑی غلطی قرار دیا اور فرمایا کہ اس اقدام سے علاقے میں سعودی عرب کی حکومت کے خلاف نفرت پھیلے گی اور یقینی طور پر سعودی عرب کو سنگین قسم کے نقصانات ہوں گے۔

خبر کا کوڈ : 61352
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Chile
Wow, this is in every rspecet what I needed to know.
ہماری پیشکش