0
Friday 1 Apr 2011 17:49

اسلامی انقلاب اور جمہوری نظام

اسلامی انقلاب اور جمہوری نظام
 تحریر:محمد علی نقوی
اسلامی انقلاب کی تاریخ میں 12 فروردین مطابق یکم اپریل کو یوم جمہوری اسلامی قرار دیا گیا ہے۔ بتیس سال قبل اسی دن حضرت امام خمینی رہ کے حکم سے ایران میں ریفرینڈم ہوا تھا تاکہ عوام اپنی پسند کا طرز حکومت منتخب کر سکیں، یہ ریفرینڈم انقلاب کی کامیابی کے صرف دو ماہ بعد کرایا گیا، دنیا کے بڑے بڑے انقلابوں کی تاریخ میں کہیں نہیں ملے گا کہ انقلابی رہنماؤں نے حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد عوام سے رائے لی ہو، فرانس اور روس کے انقلابات کے رہنماؤں نے پہلے ہی سے حکومت کی نوعیت معین کر لی تھی اور ان کی نظر میں عوام کی صرف اتنی وقعت تھی کہ وہ انقلاب کرکے حکومت گرا دیں اور انہیں اقتدار تک پہنچا دیں۔
انیس سو اناسی میں ہونے والا ریفرینڈم ایران کی تاريخ کا ایک ایسا واقعہ ہے جس کی کوئي نظیر نہیں ملتی، اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل ایرانی عوام شاھی سلطنتوں کے ظلم و ستم تلے دبے ہوۓ تھے۔ رضا خان کی بغاوت اور پہلوی حکومت کے آغاز سے قبل ایرانی حکمران عوامی رائے یا انتخابات جیسے الفاظ سے مطلقا'' نا آشنا تھے اور پہلوی استبداد میں بھی حکومت جس چیز کو انتخاب کہا کرتی تھی وہ دراصل ایک طرح کا کھیل اور نمائیش ہوا کرتی تھی، جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اسی بنا پر پہلوی حکومت کے پچاس سالہ دور استبداد میں ایسے لوگ پارلمنٹ اور سینیٹ کے رکن بنے، جنہیں پہلے سے حکومت نے چن رکھا تھا۔ اسی وجہ سے شاھی پارلمنٹ نے کبھی بھی عوام کے مطالبات پر توجہ نہیں کی بلکہ اس کی نظر میں فوقیت صرف شاھی مطالبات کو حاصل تھی، ان امور کے پیش نظر انقلاب اسلامی کے بعد ہونے والا ریفرینڈم ایران میں ہونے والے پہلے حقیقی انتخابات ہیں۔
 دیگر انقلابوں کے برخلاف اسلامی انقلاب نے عوام سے رشتہ نہیں توڑا بلکہ مختلف انتخابات کروا کر اس رشتہ کو مضبوط سے مضبوط بناتا رہا، جس سے عوام کے درمیان اس کی مقبولیت میں بھی بدستور اضافہ ہوت ارہا۔ ایسے وقت جب مغربی تجزیہ نگاروں نے اسلامی انقلاب کے خاتمے کی باتیں کہنا شروع کر دی تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ یہ انقلاب کچھ ہی دنوں میں ختم ہو جائے گا، ایسے سنگين حالات میں حضرت امام خمینی رہ نے عوام کے حق خودارادیت پر اپنے مستحکم نظریے کی بنا پر ریفرینڈم کروانے کا حکم جاری فرمایا۔ ریفرینڈم سے امام خمینی رہ کا ھدف عوام کی پسند کی حکومت کو مشخص کرنا اور ملک میں طاقتور اور مستحکم حکومت قائم کرنا تھا تاکہ یہ حکومت شاہی دور سے چلے آ رہے مسائل کا حل تلاش کر سکے اور اسلامی انقلاب کے اھداف و مقاصد تک پہنچنے کی راہ ھموار کر سکے۔
ایرانی عوام نے انقلابی جدوجھد کے دوران اور اپنی تحریک کے آخری برسوں میں یعنی  1978 اور 1979میں جب ان کی تحریک اوج پر پہنچ چکی تھی آزادی، خودمختاری اور جمہوری اسلامی کے حق میں نعرے لگا کر اپنی پسند کی حکومت کا اظہار کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود امام خمینی (رح) عوام کی باضابطہ رائے پر یقین رکھتے تھے چنانچہ امام خمینی (رح) نے ریفرینڈم کرائے جانے کا حکم جاری فرمانے کے بعد تاکید کی کہ ایرانی عوام پوری طرح آزاد ہیں اور انہیں مرضی کی حکومت منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہے، ریفرینڈم میں ایرانی قوم نے بھر ور طرح سے شرکت کی اور ووٹوں کی گنتی کے بعد معلوم ہوا کہ اٹھانوے فیصد سے زائد لوگوں نے ریفرینڈم میں شرکت کی ہے اور اسلامی جمہوری نظام کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
1979ء میں ایران میں ہونے والا ریفرینڈم جو اسلامی جمہوری نظام پر منتج ہوا، دراصل دیگر تمام انتخابات کا آغاز تھا جو گذشتہ تین عشروں میں کرائے گۓ ہیں۔ ایران میں صدارتی انتخابات، عام انتخابات، فقھا و مجتھدین کی کونسل مجلس خبرگان کے انتخابات اور بلدیہ کے انتخابات اسلامی نظام میں عوام کے بنیادی کردار کا منہ بولتا ثبوت ہیں، ایرانی عوام کی جانب سے اپنی اسلامی حکومت کی حمایت عالمی سطح پر اس کی طاقت کا باعث ہے اور ایرانی عوام نے اپنی اسی حمایت کے ذریعے گذشتہ بتيس برسوں میں اپنی حکومت کو دشمنوں کی سازشوں سے بچا کر اپنی استقامت کا ثبوت دیا ہے اور اپنے ملک کو اس کے شایان شان مقام عطا کیا ہے۔
اسلامی انقلاب کے اثرات پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہيں تو اس بات کا بخوبی مشاہدہ ہوتا ہے کہ اس کا ایک تقدیر ساز اثر یہ ہے کہ اس نے لوگوں ميں سیاسی شعور و آگہی پیدا کی ہے، خاص طور پر مسلم اقوام میں اسلامی بیداری آج اسی انقلاب کی وجہ سے ہی موجزن نظر آرہی ہے۔ ایسی اسلامی بیداری کہ جس کی اصل ماہیت تسلط پسندی کی نفی اور سامراجی طاقتوں کے سامنے ڈٹ جانا ہے، یہ وہ پیغام ہے جو بہت تیزی کے ساتھ اقوام عالم تک پہنچ رہا ہے۔ بالخصوص مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عوام میں جس نے پوری گہرائی کے ساتھ گھر کر لیا ہے۔ اس ميں شک نہیں کہ اسلامی انقلاب نے ایسے نظریات اور تھیوریاں پیش کی ہيں جو اقوام عالم کی انصاف پسندانہ آرزؤں اور خواہشات کو عملی جامہ پہناتی ہیں اور اسی نظریہ کی ہی بنیاد پر آج اسلامی جمہوریہ ایران دنیا میں جہاں بھی انصاف پسندی اور ظلم کے خاتمے کے لئے قدم اٹھایا جاتا ہے اس کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے اس تنو مند شجرہ طیبہ کا سایہ ایران سے باہر کی سرحدوں میں تیزی کے ساتھ محیط و بسیط ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی تازہ مثال ان دنوں تیونس، بحرین، یمن، لیبیا، مصر بالخصوص مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عوام کی ظلم و استبداد مخالف تحریکیں ہيں۔
 رہبر انقلاب اسلامی نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عوام کی ظلم و استبداد مخالف تحریکوں سے کچھ عرصہ پہلے فرمایا تھا کہ لبنان، امریکہ اور صیہونی حکومت کی شکست کا نقطہ آغاز ہے، تنتیس روزہ اسرائيلی جارحیت کے دوران لبنانی عوام اور استقامت کی کامیابی مسلمانوں کے لئے فخر اور سربلندی کا باعث ہے۔ آپ نے فرمایا تھا امریکہ اور صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی استقامت کے مقابلہ کے دوران جو کچھ ہوا وہ عرب اور عالم اسلام میں بے نظیر ہے اور اس عظیم اور اہم تحریک کے پہلو مستقبل میں مزید واضح ہوں گے۔ آج خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے، بلاشبہ اسلامی انقلاب کا اثر ہے۔

خبر کا کوڈ : 62523
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش