0
Saturday 2 Apr 2011 19:59

اسلامی مشرق وسطیٰ

اسلامی مشرق وسطیٰ
 تحریر:محمد علی نقوی
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ مصر، تیونس، لیبیا اور بحرین میں رونما ہونے والے واقعات بہت زیادہ اہمیت کے حامل اور ملت اسلامیہ کی بیداری کی علامت ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے خطے میں اٹھنے والی تحریکوں کو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے متعلق امریکی پالیسیوں کی ناکامی قرار دیا اور فرمایا کہ پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ خطے کے موجودہ حالات میں اصل شکست امریکہ اور صیہونی حکومت کو ہی ہو گی۔
گذشتہ تین دہائيوں کے حالات اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی شکستوں پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی اھل نظر اور اسٹراٹیجیسٹ مشرق وسطیٰ کے حالات کے ادراک سے کس قدر عاجز تھے۔ امریکی سوچ رہے تھے کہ وہ ظالم و جابر، خود فروختہ، اسلام مخالف حکمرانوں کی حمایت کر کے مشرق وسطیٰ کے اسلامی ملکوں کا تشخص ختم کر کے مغربی مادر و پدر آزاد ثقافت کو اسکی جگہ پر رائج کر سکتے ہیں۔ امریکہ اور اسکے یورپی اتحادیوں نے یہاں تک کہ عوام کے قیاموں کے عروج پر پہنچ جانے کے باوجود سفارتی ذرایع اور میڈیا کی سطح پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ عرب ملکوں کے انقلاب صرف اور صرف کرپٹ حکام کی وجہ سے سامنے آ رہے ہیں اور یہ اسلامی تحریکیں نہیں ہیں، جو بدعنوان حکومتوں کے خلاف شروع ہوئي ہیں۔ عرب ملکوں میں انقلابی عوام کے نعروں اور مطالبات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ واضح طور پر آزادی، اسلام اور بیرونی ممالک کے تسلط سے رہائي اور خودمختاری چاہتے ہیں۔
یاد رہے خلیج فارس سے شمالی افریقہ تک غیرجمہوری حکومتوں کے خلاف عوامی انقلابوں سے نیا مشرق وسطیٰ وجود میں آ رہا ہے۔ اس نئے مشرق وسطیٰ کو ہم اسلامی مشرق وسطی کا نام دے سکتے ہیں۔ اسلامی مشرق وسطیٰ میں چار خصوصیتیں ضرور ہونگي۔ پہلی خصوصیت یہ کہ آمرانہ اور مطلق العنان حکومتیں جو ایک فرد یا ایک خاندان کے ا فراد کے زیرتسلط ہوتی ہیں ان کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اور تمام ملکوں کی تقدیروں کا فیصلہ عوام ہی کریں گے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ مستقبل میں عوام ہی اپنی حکومت اور اپنی تقدیر کا فیصلہ کریں گے۔ اسلامی مشرق وسطی کی دوسری خاصیت یہ ہوگی کہ اسلام پسندی ان ملکوں میں طاقتور ترین سیاسی رجحان ہو گا کیونکہ مختلف مکاتب فکر جن میں قوم پرست اور مغرب نواز گروہ بھی شامل ہیں سب ناکام ہو چکے ہیں اور انہیں عرب سماجوں میں کوئي حیثیت حاصل نہیں ہے۔ مشرق وسطی میں اسلامی بیداری کا دور دورہ ہے اسی اسلامی بیداری کے زیر سايہ بعض عرب ملکوں میں ڈکٹیٹروں کے سقوط کے بعد عبوری حکومتیں قائم کی گئی ہیں اور ان عبوری حکومتوں نے برسر اقتدار آتے ہی اسلام مخالف قوانین کو کالعدم قرار دیا ہے اور لوگوں کو مذھبی آزادی دی، تاکہ وہ آزادی سے دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کرسکیں، اسی طرح اسلام پسند سیاسی پارٹیوں پر سے بھی پابندیاں ہٹالی گئيں۔ اسلامی مشرق وسطیٰ کی تیسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ خودمختار اور وابستگی کا مخالف ہو گا۔
 مشرق وسطیٰ کے عوام اچھی طرح سے جمہوریت اور صلح و امن کے بارے میں امریکہ اور اسکے یورپی اتحادیوں کے جھوٹے اور کھوکھے دعووں کی حقیقت سمجھ چکے ہیں۔ یاد رہے مغربی حکومتوں نے مشرق وسطیٰ میں اپنی پٹھو حکومتوں کو مٹھی میں لیکر ایک لمبی مدت تک ان کے ذخائر لوٹے ہيں، بنابریں یہ بات فطری ہے کہ اب جبکہ مشرق وسطیٰ کے عوام بیدار ہو چکے ہیں۔ اسلامی مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے کوئي رول تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامی مشرق وسطیٰ کی چوتھی خصوصیت صیہونی حکومت کی مخالفت اور اس سے نفرت ہو گی۔ بن علی اور حسنی مبارک جیسوں کی حکومتوں نے دسیوں برس تک صیہونی حکومت کے ساتھ ساز باز کیا تھا اور صیہونی حکومت کے خلاف عوام کے جذبات کو ظلم وستم سے دبایا تھا جبکہ ان ملکوں کے مسلمان عوام کا عقیدہ ہے کہ فلسطین کی سرزمیں امت اسلامی کی سرزمیں ہے اور اسلامی سرزمینوں کا جز لاینفک ہے۔
 اب عرب ملکوں میں جو بھی حکومت آئے گی وہ فلسطین کی حمایت پر مبنی عوام کے مطالبات کو نظر نہیں کر سکے گی۔ بےشک اسلامی مشرق وسطیٰ میں صیہونیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے گا اور جس طرح سے کہ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے اسلامی مشرق وسطیٰ کے وجود میں آنے سے صیہونی حکومت بہت جلد نابودی کی کھائی میں گر جائے گی۔ ثابت قدمی، خودمختاری اور عزت طلبی اسلامی بیداری کے تین اہم رکن ہیں، جو درحقیقت تسلط کی نفی اور منہ زور طاقتوں کے تسلط کے سامنے ڈٹ جانے سے عبارت ہیں۔ اس لئے سامراجی طاقتیں انسانی حقوق اور جمہوریت جیسے حربوں کو استعمال کرکے خطے کی اقوام کی تحریکوں کو ختم کرنا یا اپنی پٹھو حکومتیں قائم کر کے ان تحریکوں کو اصل راستے سے ہٹانا اور ان تحریکوں کے اثرات کو کم از کم اور عارضی بنا دینا چاہتی ہیں۔ 
لیکن گزشتہ تین عشروں کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران نے جو عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ اسلامی انقلاب کے مقاصد اور حقیقی اقدار سے آگاہ ملتوں کے لئے جانی پہچانی ہیں۔ اور انہی کامیابیوں نے ان اقوام کو حوصلہ عطا کیا ہے اور ان کے دلوں میں امید کی کرن روشن کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیابیوں سے آگاہی کے سبب ہی دنیا بھر خصوصاً خطے کی مظلوم اقوام کی بیداری میں وسعت آئی ہے۔ بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج کی دنیا میں تمام اقوام کا آپس میں قریبی ربط پایا جاتا ہے اور ان سب کی تقدیر ایک دوسری سے جڑی ہوئی ہے۔ اس لئے یورپ کے تمام تر پرپیگنڈے، اس کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کئے جانے اور اسلام سے لوگوں کو ڈرانے کے باوجود اسلامی انقلاب نے دنیا کی دوسری اقوام پر جو اثرات مرتب کئے ہیں، وہ ناقابل انکار ہیں اور ان عظیم تبدیلیوں کا ہمہ گیر اور گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 62719
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش