QR CodeQR Code

حکومتی بساط جلد لپٹے گی

20 Apr 2011 23:17

اسلام ٹائمز:سعودی عرب ميں اگر صرف حکومت کی جانب سے ہر طرح کے مظاہرے پر مکمل پابندی اور اسے سختی سے کچل دیئے جانے کا اعلان کیا گیا ہوتا تو شاید علماء کا حقیقت پسند طبقہ اپنی زبان نہ کھولتا لیکن جب سعودی حکومت کی جانب سے بعض درباری ملاؤں کا سہارا لے کر مظاہروں کو اسلام کے خلاف قرار دیا گیا تو جہاں ایک طرف اخوان المسلمین مصر کے علماء چيخ پڑے، وہيں حقیقت پسند سعودی علماء بھی زبان کھولنے پر مجبور ہو گئے، چنانچہ اخوان المسلمین کے نائب سربراہ محمود غزلان نے سعودی عرب کے بعض نام نہاد علماء کی جانب سے مظاہروں کو حرام قرار دینے کے فتوے کی مذمت کی


تحریر:محمد علی نقوی
کویت کے ایک اخبار القبس نے ایران کے خلاف سعودی مفتی کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں بچگانہ اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ القبس اخبار نے لکھا ہے کہ ملت ایران کے خلاف، جس نے انسانی تہذیب وتمدن کے ارتقا میں عظیم کردار ادا کیا ہے، سعودی مفتی کے بیانات قابل مذمت ہیں۔
اخبار کے مطابق عرب اور اسلامی تہذیب کو ایرانی علماء اور دانشوروں نے ترقی دلائي ہے اور فارابی، ابن سینا ، خوارزمی، سیبویہ جیسے بزرگان علم و ادب کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جنہوں نے میراث بشری کو رونق اور جلا بخشی ہے۔
واضح رہے کہ علاقے میں آئی بیداری کی لہر کو منحرف کرنے کے لئے سعودی عرب اور اس کے شاہی دربار سے وابستہ مفتیوں نے نسل پرستی اور فرقہ واریت کی آگ بڑھکانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور اسکا بنیادی ھدف امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانہ اور اپنی حکومت بچانا ہے۔ عرب ملکوں میں عوامی انقلابات کے پیش نظر عالمی مبصرین و خاص طور پر عرب نظریہ پردازوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب بھی اب عوامی انقلاب کی زد سے نہیں بچ سکے گا اور اس ملک میں بھی عوامی انقلاب آنا یقینی ہے۔ معروف عربی روزنامہ نے لکھا ہے کہ سعودی شاہی نظام اس وقت عوامی انقلابات کے نرغے میں آچکا ہے۔ سعودی شاہی نظام نے اپنی مغربی سرحدوں کے اس پار اپنے دیرینہ اتحادی حسنی مبارک کا تختہ الٹتے دیکھا جبکہ اس کے شمال میں آئے دن اردن میں عوام سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ اس کی جنوبی سرحد پر یمن میں کبھی بھی علی عبداللہ صالح کا تختہ عوامی انقلاب کی لہر میں ڈوب سکتا ہے اور شمال میں بحرین میں عوامی انقلابات کے اثرات کو اپنی سرحدوں کے اندر روکنے کی غرض سے اس نے فوجی مداخلت تک کرڈالی ہے۔ سعودی عرب کی فوج اپنے یہاں انقلاب کے خوف سے بحرین میں بڑے پیمانے پر وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ 
روزنامہ القدس العربی کی کالم نگار سمیہ الغنوشی لکھتی ہیں ایک ایسے وقت جب سعودی عرب نے انقلابی لہر کو دبانے کے لئے بحرین میں اپنی فوج بھیج دی ہے خود سعودی عرب کے مشرقی خطے سمیت دیگر علاقوں میں بھی لوگ اس کے اس اقدام اور خود شاہی نظام کے خلاف مظاہرے کر رہے ہيں۔ سعودی عرب کے مشرقی علاقے میں جہاں عوام روزانہ سعودی نظام کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں تیل کے بڑے بڑے ذخائر ہيں۔ بنابریں اس میں شک نہيں کہ عوامی انقلابات سعودی عرب میں بھی سرایت کر کے ہی رہیں گے۔ تیونس میں صدر زین العابدین بن علی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے کچھ ہی عرصے کے بعد سعودی عرب ميں عوامی مطالبات برملا ہو گئے تھے مگر سعودی حکام نے عوام کو سختی سے کچلنے کی کوشش کی، سعودی فورسز نے حکومت مخالف مظاہروں کو منظم کرنے والے سیاسی لیڈر فیصل عبدالاحد کو گولی مار دی جبکہ بہت سے لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ چنانچہ اس وقت سعودی عرب میں سیاسی قیدیوں کی تعداد آٹھ ہزار سے بھی زیادہ تجاوز کر گئی ہے۔ جن لوگوں کو سعودی عرب کی سیکورٹی فورسز نے گرفتار کیا ہے ان میں شہری حقوق کے ادارے کے ایک بانی محمد صالح البحادی بھی ہيں۔ سعودی باشندوں کو گرفتار کرنے کی سعودی حکام میں ہوس اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ جو لوگ اپنے عزیزوں کی خبر لینے جیل کی جانب گئے انہيں بھی گرفتار کرکے بند کر دیا گیا۔ انہی میں سے ایک، سعودی عرب کے وکیل مبارک بن زعیر بھی ہیں کہ جب وہ سعودی عرب کی جیل میں بند اپنے والد اور بھائی سے ملنے گئے تو انہیں بھی گرفتار کر کے بند کر دیا گيا۔
عربی اخبار القدس العربی لکھتا ہے کہ اگرچہ اس وقت سعودی حکام فرقہ وارنہ مسائل اور ایران کی مداخلت کا الزام لگا کر سیاسی کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب میں حکومت کے خلاف مظاہروں اور مطالبات کا دائرہ اب سعودی شیعیوں کے حلقے سے کہیں زیادہ باہر تک پھیل چکا ہے۔ اور اب سعودی عرب کے اقلیتی سلفی گروہوں کو چھوڑ کر اس ملک کے مختلف طبقے سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہيں، اسی لئے سعودی عوام کی تحریک اب آہستہ آہستہ زور پکڑتی جا رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ بات ایک حقیقت میں تبدیل ہوا چاہتی ہے کہ سعودی عرب کے شاہی حکام اب کسی بھی طور عوامی انقلاب سے نہیں بچ سکیں گے۔
غالباً اسی خوف کی ہی وجہ سے سعودی عرب کے حکام اس وقت ملک میں ہر چیز کو ماڈرن بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی حکام جدیدیت کے خفت میں اس قدر ڈوب گئے ہيں کہ اب ان کے ملاؤں کا بھی ان پر کوئی بس نہيں چل پا رہا ہے۔ 
سعودی عرب ميں اگر صرف حکومت کی جانب سے ہر طرح کے مظاہرے پر مکمل پابندی اور اسے سختی سے کچل دیئے جانے کا اعلان کیا گیا ہوتا تو شاید علماء کا حقیقت پسند طبقہ اپنی زبان نہ کھولتا لیکن جب سعودی حکومت کی جانب سے بعض درباری ملاؤں کا سہارا لے کر مظاہروں کو اسلام کے خلاف قرار دیا گیا تو جہاں ایک طرف اخوان المسلمین مصر کے علماء چيخ پڑے، وہيں حقیقت پسند سعودی علماء بھی زبان کھولنے پر مجبور ہو گئے، چنانچہ اخوان المسلمین کے نائب سربراہ محمود غزلان نے سعودی عرب کے بعض نام نہاد علماء کی جانب سے مظاہروں کو حرام قرار دینے کے فتوے کی مذمت کی اور کہا کہ سعودی عرب میں دربار سے وابستہ نام نہاد علماء نے فتوے دے کر یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ ظلم و ستم، بدعنوانی اور استبداد کے خلاف احتجاج نہ کیا جائے جو کسی بھی طریقے سے قابل قبول نہيں ہے۔ 
خود سعودی عرب کے بزرگ عالم دین اور محمد بن سعود یونیورسٹی میں شعبہ دینیات کے انچارج سعود بن عبداللہ الفنیسان نے حقوق کے حصول کے لئے پرامن مظاہروں کو دین اسلام میں آزادی بیان کا مظہر قرار دیا۔ اور مظاہروں کو شریعت کے عین مطابق بتایا۔ سعودی حکام نے عوامی مظاہروں کو روکنے کے لئے پیسے اور مذہب کا سہارا لیا ہے جبکہ خارجہ میدانوں میں انہوں نے امریکہ پر انحصار کر رکھا ہے۔ اس کے عوض وہ امریکی اسلحہ خرید کر امریکی خزانے کو بھرنے کی کوشش کر رہے ہيں جو گذشتہ کئی برسوں سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔ 
عربی روزنامہ القدس العربی نے آخر میں لکھا ہے کہ آل سعود کی نظر میں عوام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ مگر ان کی یہ سوچ ہمیشہ قائم نہيں رہ سکے گی کیونکہ سعودی عرب کسی بھی صورت میں علاقے میں جاری تحریکوں کے اثرات سے مبرا نہیں رہ سکتا۔ البتہ یہ تبدیلی اور انقلاب کب کامیاب ہو گا اور آل سعود کی حکومتی بساط کب لپٹے گی اس کے لئے بہرحال وقت کا انتظار کرنا پڑے گا۔ سعودی عرب جیسی حکومتوں کا کام اب صرف یہ رہ گیا ہے کہ وہ اسرائیل کی بقاء اور امریکہ کے تیل اور دیگر مفادات کی حفاظت کریں، یہی ان کا دین و ایمان ہے اور اسی ھدف کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے سعودی مفتی بھی ایران کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 66771

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/66771/حکومتی-بساط-جلد-لپٹے-گی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org