0
Saturday 30 Apr 2011 20:47

سعودی عرب میں اصلاح پسندی کی تحریک

سعودی عرب میں اصلاح پسندی کی تحریک
 تحریر:محمد علی نقوی
سعودی عرب میں شاہی حکومت کے مخالف سمجھے جانے والوں کی گرفتاری کا سلسلہ رکنے کا نام نہيں لے رہا ہے۔ پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں مظاہرین کو کچلنے اور دبانے کے لئے گذشتہ چند دنوں کے اندر بیسیوں شیعہ مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں دو وبلاگ نویس بھی ہیں جن کا تعلق شہرالقطیف سے ہے۔ سعودی سیکورٹی فورسزنے دو وبلاگ نویس مصطفی بدر آل مبارک اور حسین کاظم ہاشم کے گھر پر دھاوا بول کر انھیں الشرقیہ علاقے میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں حکومت کے مخالفین کی گرفتاری گذشتہ ہفتوں میں معمول کی کاروائی بن گئی ہے۔ ادھر سعودی عرب میں آل سعود نے ذرائع ابلاغ پر شدید ترین پابندیاں لگا دی ہیں۔
فارس نیوز کے مطابق آل سعود کی حکومت نے عوامی انقلاب کے پیش نظر میڈیا پر سخت قوانین لاگو کر دیئے ہیں۔ سعودی عرب کی حکومت کے مطابق جو ذرائع ابلاغ ان قوانین کی پابندی نہیں کریں گے انہیں شدید ترین سزائيں دی جائيں گی۔ سعودی حکومت کے ان قوانین کی بنا پر میڈیا کے نظام میں بنیادی تبدیلیاں آ جائيں گی۔ اگر کسی جریدے یا الکٹرانک میڈیا نے ان قوانین کی خلاف ورزی تو اس پر ایک لاکھ تینتس ہزار ڈالر کا جرمانہ ہو گا اور اسکو بند کر دیا جائے گا۔ سعودی حکومت نے گذشتہ فروری سے اب تک ایک سو ساٹھ افراد کو گرفتار کیا ہے، جنہوں نے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی تھی۔ ان لوگوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے کہ انہیں کس جیل میں رکھا گيا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سعودی جیلوں میں ہزاروں سیاسی قیدی ہیں جنہیں کئی برسوں سے بغیر مقدمے کے کال کوٹھریوں میں رکھا گيا ہے۔
سعودی عرب جہاں کی حکومت علاقے کی سب سے زیادہ قدامت پسند حکومت ہے اور جہاں عوام سخت گھٹن کے ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں اب اس وقت عوامی انقلاب کے نرغے میں ہے۔ سعودی عرب کے مختلف علاقوں منجملہ مشرقی شہروں میں عوامی مظاہروں سے اب یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ علاقے میں عوامی انقلاب کی جو تحریکیں جاری ہیں ان کے آفٹرشاک یا جھٹکے سعودی عرب کے حکام کو پوری طرح جھنجھوڑ رہے ہيں۔ گذشتہ جمعہ کو سعودی عرب کی سیکورٹی فورسز کی بھاری تعداد میں تعیناتی کے باوجود مشرقی شہر قطیف کے باشندوں نے آل سعود کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کئے۔ یہ مظاہرے خاص طور پر بحرین میں سعودی عرب کی فوجی مداخلت کے خلاف کئے گئے، جن کے دوران بحرین میں سعودی عرب کی فوجوں کے ہاتھوں بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کی مذمت کی گئی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ مظاہرے ایک ایسے وقت ہوئے جب گذشتہ دو دنوں میں سعودی عرب کی سیکورٹی فورسز نے ملک کے مشرقی شہروں میں کم ازکم پچیس افراد کو حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ 
گذشتہ چند ہفتوں اور مہینوں کے دوران سعودی عرب کے مشرقی علاقوں حتٰی ریاض اور جدہ شہروں کے باشندوں نے بھی آل سعود کے حکام کی پالیسیوں اور ان کے غلط اقدامات کے خلاف مظاہرے کئے ہيں، پہلی نظر میں ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں عوامی مظاہرے علاقے میں جاری تحریکوں سے متاثر ہو کر ہو رہے ہيں، اگرچہ یہ بات بھی صحیح ہے لیکن اگر گذشتہ کئی عشروں سے سعودی عرب کے نظام حکومت اور ملک کا نظم ونسق چلانے کے اس طریقہ کار کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ سعودی عرب میں ان دنوں ہونے والے مظاہرے سعودی حکام کے ذریعہ اس ملک کے عوام کے حقوق کو یکسر نظرانداز کئے جاتے رہنے کا نتیجہ ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی ہوتی ہے اس کے علاوہ سعودی عرب کی خواتین کو ان کے بنیادی اور ابتدائی ترین حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، سعودی عرب کی جیلیں ایسے قیدیوں سے اٹی پڑی ہيں جنھیں مقدمہ چلائے بغیر قید رکھا گیا ہے۔ اس درمیان سعودی عرب کے شیعہ مسلمانوں کو جن کی آبادی دس سے پندرہ فیصد کے درمیان ہے، اس ملک کے دیگر باشندوں کے مقابلے میں بہت سے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں تفریق اور امتیازی سلوک عام ہے اور اس صورتحال نے سعودی باشندوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے جس کی وجہ سے عوام کی صورتحال دھماکہ خیز ہوتی جا رہی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود موجودہ صورتحال میں سعودی عرب میں جو چیز قابل ذکر ہے وہ ان جرائم میں آل سعود کے حکام کی شراکت ہے، جن کا بحرین میں آل خلیفہ کے حکام ارتکاب کر رہے ہیں۔ 
بحرین میں سعودی عرب کی فوج کی موجودگی اور بحرین کے نہتے شہریوں کے قتل عام میں سعودی ایجنٹوں کی شرکت ہر دور سے زیادہ سعودی عرب کی حکومت کے خلاف غم و غصہ کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اور اس پر پہلے سے بھی زیادہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ درحقیقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ بحرین کے عام شہریوں کے قتل عام ميں سعودی فوج کی شرکت سعودی عرب کے اندر آل سعود کے خلاف حکومت مخالف جذبات کو اور بھی بھڑکا رہی ہے جس سے آل سعود پر وحشت طاری ہو گئی ہے۔ آل سعود کے ایوانوں میں اس وقت سب سے زیادہ خوف اس بات کا پایا جا رہا ہے کہ کہيں مشرقی علاقوں میں ہونے والے مظاہروں کا دائرہ ملک کے دوسرے علاقوں تک نہ پھیل جائے۔ بعض سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بحرین اور یمن جیسے پڑوسی ملکوں میں عوامی انقلاب کو کچلنے کے سلسلے میں سعودی عرب کی کوشش اس لئے بھی تیزی سے جاری ہے کہ کہیں عوامی انقلاب کی یہ لہر آل سعود کی حکومت کو بھی نہ بہا لے جائے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ علاقے میں اسلامی اور عوامی بیداری کی پیدا ہونے والی لہر جلد یا بدیر عرب دنیا کی اس سب سے قدامت پسند حکومت کو اپنی لپیٹ میں لے کر رہے گی۔ 
اس وقت سعودی عرب کے شہریوں کا سب سے اہم مطالبہ یہی ہے کہ ملک میں سیاسی اصلاحات رو بہ عمل لائي جائيں، لیکن اس میں شک نہيں کہ سعودی عرب میں اصلاح پسندی کی تحریک کی تقویت اور عوامی مطالبات کے دائرے کے پھیل جانے کی صورت میں اس ملک میں بڑی تبدیلی ناگزیر ہو گی اور غالباً وہ دن دور نہيں کہ جو نعرے علاقے کی عرب اقوام اپنے ملکوں کے حکمرانوں کے خلاف لگا رہی ہيں، وہی سعودی عرب ميں بھی لگيں گے۔ برطانیہ نے علاقے بالخصوص خلیج فارس میں اپنی طرز کی حکومتیں قائم کیں اور اس کے نتیجے میں بحرین میں آل خلیفہ اور سعودی عرب میں آل سعود کی حکومتیں علاقے کی قوموں کے ذخائر سمیت ہر چیز کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ بیٹھی ہیں۔ حتٰی سرزمین حجاز کا نام اپنی آل کے نام پر سعودی عرب رکھدیا اور اب اسے صرف سعودیہ کے نام سے پکارتے ہیں، سعودی عرب تیل اور مغربی فوجی اڈوں سمیت مغرب کے سارے مفادات پورے کر رہا ہے۔ اسی بنا پر مغربی اور عرب ذرایع ابلاغ سعودی عرب کے حالات کے بارے میں کوئي خبر نہيں دیتے بلکہ سعودی عرب کے حالات ان کے لئے ریڈ لائن ہیں، جسے وہ پار نہیں کر سکتے۔ اسی لئے سعودی عرب میں آل سعود نے ذرائع ابلاغ پر شدید ترین پابندیاں لگا دی ہیں اور میڈیا پر سخت قوانین لاگو کر دیئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 68962
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش