0
Tuesday 10 May 2011 23:28

سب ڈرامہ ہے؟

سب ڈرامہ ہے؟
تحریر:محمد علی نقوی
پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مبینہ ہلاکت اور پھر اس کے بعد پاکستان کے سلسلے میں امریکی حکام کے بیانات کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے ہيں، امریکی صدر باراک اوبامہ نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ اس نیٹ ورک کا پتہ لگائے جس نے اسامہ بن لادن کو پاکستان میں جگہ اور پناہگاہ فراہم کی تھی، امریکی صدر نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان کو یہ بھی پتہ لگانا ہوگا اسامہ بن لادن اور اس کے گروہ کے ساتھ پاکستان کے کون کون سے حکومتی اور فوجی عہدیدار رابطے میں تھے۔ اوبامہ نے کہا کہ بن لادن کا پاکستان میں ساتھ دینے والوں کا پتہ لگانا ضروری ہے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کے امور کے مشیر ٹام ڈینلون نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کو یہ واضح کرنا ہو گا کہ اسامہ بن لادن چھ سال تک کیسے کاکول ملٹری اکیڈمی کے قریب پناہ لئے ہوئے تھا اور پاکستانی انٹلیجنس اور فوج کو بھنک تک نہيں لگی۔ ایسا لگتا ہے کہ اسامہ کو ہلاک کرنے کا ڈرامہ رچانے کے بعد پاکستان پر امریکہ کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اس نے اپنے جس مقصد کے تحت ایبٹ آباد آپریشن کا ڈرامہ رچایا ہے، وہ رفتہ رفتہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعہ میں روز بروز ابہامات پیدا ہوتے جا رہے ہيں اور خاص طور پر ملٹری اکیڈمی کے پاس اس طرح کا ڈرامہ کرنے سے شکوک و شبہات میں اور بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آج پوری دنیا کے لوگ اس چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہيں اور سوال کر رہے ہيں کہ کیا واقعی اسامہ ایبٹ آباد آپریشن میں ہی مارا گیا ہے یا اس سے بہت پہلے ہلاک ہو چکا تھا۔؟ 
یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ دہشت گردی کی جنگ پاکستانی سرحدوں پر خود امریکہ نے مسلط کی اور پاکستان کو زبردستی اس میں گھسیٹ لیا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان اس جنگ میں امریکہ کے سب سے بڑے نان نیٹو اتحادی بن گیا۔ پاکستان نے اس کی بھاری قیمت چکائی اور اب تک چکا رہے ہے۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق اس جنگ میں پاکستان کو کم و بیش 68 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا اور تقریباً 35 ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئیں، ان میں سکیورٹی فورسز کے جوان بھی شامل ہیں۔ قبائلی علاقوں کے لوگ جو ہمیشہ پاکستان کے دفاع کے لئے اگلی صفوں میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے، امریکی ڈرونز اور جنگی طیاروں کے وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنے۔ خود پاکستانی سکیورٹی فورسز کو بھی ان حملوں سے نقصان پہنچا۔ مگر امریکہ کے ساتھ تعلقات بنائے رکھنے کے لئے وہ یہ سب کچھ برداشت کرتے رہے۔ اس کا صلہ یہ ملا کہ امریکہ نے پاکستان کی قربانیاں نظرانداز کرکے سے مسلسل ”ڈومور“ کا تقاضا کیا۔ ایک وقت میں امریکہ کا موٴقف یہ تھا کہ اسامہ بن لادن ہمارے ہاتھ آجائے تو ہم افغانستان چھوڑ دیں گے۔ آج وہ نہ صرف افغانستان میں اپنا قیام غیرمعینہ عرصہ تک جاری رکھنے کا اعلان کر رہا ہے بلکہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لئے اس سے نئے نئے مطالبے کئے جا رہے ہیں
ادھر پاکستان کے وزیراعظم نے کہا ہے القاعدہ کے قیام کا ذمہ دار کون ہے،؟ اسامہ کو دیومالائی شخصیت بنانے کا ذمہ دار کون ہے۔؟ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اسامہ کو خطے میں کون لایا، پاکستان القاعدہ کی جائے پیدائش نہیں ہے، 30 سال پہلے پاکستان افغانستان کی صورتحال کا حصہ بنا، یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ القاعدہ کی مدد دنیا کے کن ممالک نے کی۔ اسامہ بن لادن دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد تھا، ہم نے اسامہ کو پاکستان یا افغانستان آنے کی دعوت نہیں دی۔
وزیراعظم نے کہا کہ اسامہ سینکڑوں پاکستانیوں کی موت کا ذمہ دار ہے، اس کی موت سے انصاف ہو گیا، امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ القاعدہ اور طالبان کے اعلٰی لیڈران کا پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں ميں اثر و رسوخ ہے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ طالبان کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ہی معرض وجود لائی ہے اسی لئے طالبان کا اس ادارے میں بہت زیادہ اثر ہے، مگر ان تمام فرضیات کے باوجود بن لادن کی خفیہ زندگی اور اس کے خفیہ ٹھکانے کے بارے میں لاعلم رہنے کی ذمہ داری امریکہ کی بھی اتنی ہے جتنی وہ پاکستان پر عائد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
 پاکستان اور امریکہ کے خفیہ اداروں کے مابین دیرینہ تعاون کی وجہ سے پاکستان کے خفیہ اداروں میں امریکہ کا بھی کافی اثرو رسوخ ہے اس کے پیش نظر یہ بہت ہی حیرت کی بات ہے کہ بن لادن چھ برسوں تک کیسے امریکیوں کی نگاہوں سے دور رہا۔ اسی لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہ سب ڈرامہ ہے جس کے ذریعہ امریکہ اپنے کچھ اور مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ایبٹ آباد واقعے کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پہلے سے بھی زیادہ کشیدہ ہو گئے اور اس صورتحال سے امریکہ میں اس گروہ کو تقویت پہنچے گی جو افغانستان کی جنگ پاکستان میں لے جانا چاہتا ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے کہا ہے کہ حکمران 10 برس تک ہزاروں شہریوں کی جان سے کھیلنے اور ملک کی معیشت کو تباہ کرنے کے باوجود امریکا کو راضی نہیں کرسکے۔ سید منور حسن کا کہنا ہے کہ جرنیلوں نے بھی مایوس کیا ہے، بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں، ملک بدنام ہو رہا ہے، امریکی فرمانبرداروں کے خلاف قوم ہی کو اٹھنا ہو گا۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ امریکا کی ہر طرح سے خدمت اور چاکری کے عوض صرف بدنامی اور رسوائی پاکستان کے حصہ میں آئی ہے۔ اب اپنے کارنامے گنوائے جا رہے ہیں کہ ہم نے اس عرصہ میں القاعدہ کے کتنے ہی خطرناک لوگ پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کئے۔ امریکا نے ایک اسامہ کی خاطر لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا دیا، کیا ہمارے حکمران امریکا سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتے کہ اسامہ کی ہلاکت کا ثبوت تو پیش کیا جائے، اس کی لاش تو دکھائی جائے، تاکہ سب کو پتہ چلے کہ جس نہتے شخص کو مار کر اس کی لاش لے گئے وہ اسامہ ہی تھا۔ آخر اتنی عجلت میں اسامہ کی لاش سمندر برد کیوں کر دی گئی۔ اس کو زندہ گرفتار کر کے مقدمہ چلایا جاسکتا تھا، تاکہ نائن الیون کی اصل کہانی بھی منظر عام پر آتی، جس پر 80 فیصد امریکیوں کو بھی شبہ ہے
بہت سے تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ ایبٹ آباد میں ہونے والا واقعہ محض ڈرامہ اور پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے کی ایک سازش ہے، پاکستان نے 9/11 سے اب تک امریکہ کی ایک دو نہیں کم و بیش درجنوں باتیں مانیں۔ اپنی عزت و توقیر کو داؤ پر لگا کر اس کی نازبرداری کی اور اپنے ماتھے پر فرمانبرداری، اطاعت گزاری اور غلامی و خود فروشی کا سیاہ داغ لگوایا، لیکن نو دس سال کی خدمت، ریاضت، پیروی اور نقصان مایہ و شماتت ہمسایہ کا حاصل؟ کیا پاکستان دفاع مضبوط ہوا؟ معیشت سدھری؟ بھارت کے شر سے محفوظ رہے؟ ایٹمی پروگرام کو لاحق خطرات معدوم ہو گئے؟ کچھ بھی تو ہاتھ نہ آیا۔ الٹا امریکہ پر انحصار بڑھ گیا، بھارت سر پر چڑھ گیا اور بیس ارب ڈالر کے قرضے لے کر بھی معیشت نے سدھرنے کا نام نہ لیا اور صدحیف کہ پاکستان اپنے آقائے ولی نعمت کا اعتماد اور اعتبار بھی حاصل نہ کر پایا۔
بقول سلیم صافی امریکی پاکستان کو اعتماد میں لائے بغیر اس طرح کی کارروائی کی جرأت نہیں کر سکتے تھے اور کسی نہ کسی سطح پر پاکستان سے اعتماد حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کاروائی کی ہمت کی ہو گی۔ جب امریکیوں نے کاروائی کی تو اسامہ بن لادن وہاں موجود تھے وہ انہیں ساتھ لے گئے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وہ مر گئے ہوں۔ اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ انہیں زندہ لے جا کر بعد میں مار دیا گیا ہو یا یہ کہ وہ اب بھی ان کے پاس زندہ موجود ہوں۔ اسامہ بن لادن کے زندہ رہنے کے امکان کی بنیاد یہ ہے کہ بعض سوالوں کے امریکی تسلی بخش جواب نہیں دے رہے، مثلاً امریکیوں کے لئے سب سے قیمتی اثاثہ اسامہ کی زندہ بچ جانے والی بیویاں اور ان کے بچے تھے جن سے وہ یہ معلوم کرسکتے تھے کہ اسامہ ماضی میں کہاں اور کس کے پاس رہے یا پھر یہ کہ القاعدہ میں کون کتنا اہم ہے اور کن کا کہاں سے اسامہ کے ساتھ رابطہ تھا۔ اگر اسامہ خود زندہ ہوں تو پھر ان سوالوں کا جواب بہتر وہ دے سکتے ہیں، لیکن اگر وہ مر گئے ہوں تو پھر ان معلومات کا دوسرا اہم منبع ان کی بیویاں اور بچے ہو سکتے ہیں۔ اب اگر اسامہ کو انہوں نے مار دیا تھا تو پھر وہ ان کی بیویوں اور بچوں کو ساتھ کیوں نہیں لے گئے۔ اسامہ بن لادن کی لاش کو دکھانے سے امریکیوں کے انکار سے بھی اس رائے کو تقویت ملتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 71055
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش