4
0
Sunday 22 May 2011 21:44

کرم ایجنسی اور انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی

کرم ایجنسی اور انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی
تحریر:ہما مرتضیٰ 
کون کہتا ہے یہ انفارمیشن کا دور ہے؟ کون کہتا ہے کہ میڈیا آزاد ہے؟ کون کہتا ہے کہ اطلاعات تک انسانوں کی رسائی آج آسان ہو گئی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ شور اور ہنگامہ بڑھ گیا ہے۔ انفارمیشن نہیں کنفیوژن میں اضافہ ہو گیا ہے۔ انفارمیشن کے نہایت طاقتور ادارے جن لوگوں کے اشارہ ابرو پر حرکت کرتے ہیں وہ جو خبر چاہیں وہی دیتے ہیں اور جس انداز سے چاہیں اسی انداز سے دیتے ہیں۔ اسی آزاد میڈیا پر یہ بات صادق آتی ہے کہ
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
وہ جھکڑ کو ہوا کا نرم جھونکا قرار دے سکتے ہیں، شمع کی لو کو روشنی کا فوارہ کہہ سکتے ہیں اور تو اور وہ مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بنا سکتے ہیں۔
پاکستان کے انتہائی شمال میں پنپنے والا چار سالہ المیہ اس آزاد میڈیا کی بہت بڑی مثال ہے۔ یہی وہ میڈیا ہے جو دلہن کے بغیر لوٹ جانے والی بارات کا قصہ گھنٹو ں اور پہروں بریکنگ نیوز کی طور پر سب سے اہم خبر بنا کر پیش کرتا ہے۔ وہی میڈیا کرم ایجنسی کے لاکھوں وطن دوست باسیوں کو چار سال کے محاصرے میں گھرے ہونے کو یوں نظر انداز کرتا آ رہا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہ ہے آزاد میڈیا گزشتہ دنوں اسی میڈیا کی اس خاموشی پر آخرکار صدر مملکت کے مشیر فیصل رضا عابدی پھٹ پڑے اور کرم ایجنسی کے مظلوموں کے بارے میں میڈیا سے سوال کرنے لگے کہ اس مسئلے پر آپ لوگ ٹاک شو کیوں نہیں کرتے، آخر کس نے آپ کو روک رکھا ہے؟ آفرین ہے پاراچنار کے نوجوانوں پر جنھوں نے اسلام آباد کے پریس کلب کے سامنے کڑی دھوپ اور آگ برساتے سورج کے نیچے کئی ہفتے سے بھوک ہڑتالی احتجاجی کیمپ لگا کر آخر کار ہاتھی کے کانوں تک اپنی آواز پہنچا دی اور آخر کار قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے چار سال بعد ان کے غم کو محسوس کیا۔ پاراچنار کے نوجوانوں نے انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کو گزشتہ چار سال سے ٹل پاراچنار روڈ کی بندش اور علاقہ کے مکینوں کی درپیش مشکلات سے آگاہ کیا۔ یہ نوجوان گزشتہ ایک ماہ سے شہر اقتدار اسلام آباد میں سراپا احتجاج ہیں مگر کہیں سے کوئی شنوائی نہیں ہو رہی تھی، آخر کار اس مسئلے کا قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے نوٹس لیتے ہوئے پاراچنار کو آفت زدہ علاقہ قرار دینے اور امن و امان کی بحالی کے لئے فوجی آپریشن کرنے کی سفارش کر دی ہے۔ کمیٹی نے پاراچنار کے لئے سستے نرخوں پر فضائی سروس شروع کرنے، 30 کلومیٹر کی بند سڑک کھول کر اس پر خصوصی چیک پوسٹیں قائم کرنے اور تباہ کئے گئے صحت اور تعلیم کے مراکز کی بحالی کیلئے خصوصی فنڈ فراہم کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس کے علاوہ پاراچنار آٹالے جانے والوں سے بھتہ لینے کی شکایات پر وزارت داخلہ کو ذمہ داران کے خلاف کاروائی کر کے ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات دی ہیں۔
ہماری تشویش تو یہ ہے کہ جس طرح قومی اسمبلی کی متفقہ قرارداد کے باوجود ڈرون حملوں کو رکوانے کے لیے ہماری حکومت اور ہماری فوج کچھ نہ کر سکی سوائے جملے بازی اور سخت بیانات کے، کہیں اس مسئلے میں بھی یہی کچھ نہ ہو۔ پارلیمنٹ میں ڈرون حملے رکوانے پر ایک متفقہ قرار داد کے علاوہ قومی اسمبلی الگ سے بھی ایک قرار داد منظو ر کر چکی ہے۔ اس مظلوم خطے کے ایک درد مند نے حال ہی میں وہاں کی صورت حال کو تاریخی اور عصری تناظر میں بیان کیا ہے اور ایسے ایسے واقعات سپرد قلم کئے ہیں کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عادل بنگش لکھتے ہیں: "ایسے ظلم کے واقعات اور داستان کہ لوگ چنگیز خان کو بھول گئے۔ کہنے،سننے اور خود مشاہدہ کرنے میں بڑا فرق ہے۔ آسمان و زمین بھی ان مظالم پر خون کے آنسو روتے ہیں جب دو ماہ کے بچوں کو ہوا میں اچھال کر گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا ہو، مردوں کو زمین پر لٹا کر جانوروں کی طرح ذبح کر دیا گیا ہو اور پھر تمام لاشوں کو جلا دیا گیا ہو۔ یہ ہے پاکستان جہاں آپ کو ظلم کے تاریخی کردار پاراچنار میں آرام سے مل جائیں گے۔ کہیں یزید وقت کی شکل میں، کہیں چنگیز خان کی روح بھی خوش ہوتی ہو گی کہ میرے وارث ابھی تک زندہ ہیں جنھوں نے بعد مرگ بھی مجھے زندہ رکھا۔"
نام نہاد طالبان درندوں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
"شہدا میں خواتین کی تعداد 40 ہے، کم سن شہیدوں کی تعداد 15 ہے، شہید ہونے والے طلباء کی تعداد 100 سے زیادہ ہے، دوران سفر شہید ہونے والے 150 ہیں، ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہونے والے 20ہیں، خود کش بم دھماکوں سے شہید ہونے والے 115 ہیں جبکہ لشکر کشیوں کو روکنے اور دورانِ دفاع شہید ہونے والوں کی تعداد 700 ہے۔"
جب امریکہ کی بات آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہم اس کی ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ بھارت کے مقابلے میں قیام کا یہ عالم ہے کہ وہ دن بدن پاکستان کا ناطقہ بند کئے جا رہا ہے اور اس کی جارحیتوں کے نتیجے میں ہم بہت کچھ گنوا چکے ہیں لیکن کیا پاکستان کے اندر ایک خطے کا چار سال سے محاصرہ کئے ہوئے نام نہاد طالبان کا مقابلہ کرنے سے بھی ہم قاصر ہیں؟ اس سوال کا جواب اگر ہاں میں ہے تو پھر ایسا اب تک کیوں نہیں کیا گیا؟ کہیں اس خطے کے مظلوموں کا یہ الزام درست تو نہیں کہ:
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
اگر ہم بات کو گمان و الزام کی طرف نہ لے جائیں تو یہ کہنے میں بہرحال حق بجانب ہیں کہ اب فوج اور وزارت داخلہ کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا چاہئیں۔ فوجی آپریشن کرکے شرپسندوں کا صفایا کرنا چاہیے اور علاقے کے لاکھوں محصورین کو ان کے مظالم سے آزاد کروانا چاہیے۔ محصور طوری قبائل روایتی طور پر وطن دوست ہیں اور اس ملک کی حفاظت کے لیے ان کی بے پناہ قربانیاں ہیں۔ وطن کے ان خیر خواہوں کی حفاظت پاک فوج کی ذمہ داری ہے۔ علاوہ ازیں ان کی ممکن بحالی کے لیے قائمہ کمیٹیوں کی تمام تر سفارشات پر ان کی روح کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 73720
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
huma murtuza ka kalam par ker jazbat kantrol sy bahir ho gay. zar w qatar rodia.
akhir mai arz hy ke huma ky jazbat kw be salam karta hoon. balky os ki khobsoorat awr pak chadar ko be salam karta hoon jo os ny parachinar ka awaz ota ker apny jazbat ka izhar kia hy.
Pakistan
ماشاء اللہ چلو کویی ایک تو ہے جو ان مظلوموں کے بارے میں لکھتا ہے ورنہ تو یہاں تو سب کو ان ایشوز پر لکھنے کا جنون ہے جو ملک سے باہر کے ہیں ہم منتظر تھے کہ کویی تو لکھیے گا اپنے وطن کی داستان
Pakistan
Hamary govt Chalthay pirthay lashy chala rahay hy ager ye zinda hotha tho yaqeena ye bilkul be is Zulme Azeem per hamosh nahi rahy lakin ye chalthy pirtht lashy ht. In ka tho Namaze Jinaza ada ker ka Dafen kerna chahey.
United Arab Emirates
Thanks to high light to Parachinar Issue and protest of Youth of Parachinar.
ہماری پیشکش