0
Tuesday 7 Jul 2009 11:56

ایران پر اسرائیلی حملے کا اندیشہ

ایران پر اسرائیلی حملے کا اندیشہ
ارشاد احمد حقانی
امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے،معلوم ہوتاہے کہ،اسرائیل کو یہ اجازت دینے کا فیصلہ کر لیا ہے کہ اسے ایران کے مبینہ جوہری پروگرام سے جو خطرہ لاحق ہے اس کے خلاف کارروائی کرے۔ مسٹر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ اسرائیل خود فیصلہ کرسکتا ہے کیونکہ یہ ایک خودمختار ملک ہے اور وہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس کے مفاد میں کیا ہے۔وہ ایران کے بارے میں جو بھی اقدام کرنے کا فیصلہ کرے اسے اس کا حق حاصل ہے۔ جو ہائیڈن نے کہا ”ہم متفق ہوں یا نہ ہوں انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ کوئی بھی خود مختار قوم ایسا کرنے کا حق رکھتی ہے لیکن کسی قوم کی طرف سے ہم پر ایسا دباؤ نہیں ہے جو ہمارا رویہ تبدیل کر سکے اور ہمیں  بتا سکے کہ ہمیں یہ کام کس طرح کرنا چاہئے۔“
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام کو روک دیا جائے اگرچہ ہم پہلے سفارت کاری کے ذریعے ایسا کرنے کی کوشش کریں گے لیکن ہم نے فوجی حملے کا امکان بھی مسترد نہیں کیا۔ اگر نیتن یاہو کی حکومت کوئی ایسا فیصلہ کرتی ہے جو اس فیصلے سے مختلف ہے جس پر ہم اس وقت عمل کر رہے ہیں تو ایسا کرنا اس کا حق ہے کیونکہ وہ ایک خودمختار یاست ہے۔ مسٹربائیڈن نے کہا ”یہ ہمارا اپنا انتخاب نہیں ہے لیکن ہم اسرائیل کو روک نہیں سکتے“ جب امریکی ایڈمرل مائیک مولن سے پوچھا گیا کہ امریکہ کی ایران پر کیا پوزیشن ہے اور ایک فوجی حملہ تو تبھی ممکن ہے کہ اسرائیل کی حکومت ایک سیاسی فیصلہ کرے تو انہوں نے کہا کہ ”میں کچھ عرصے سے اس بات سے پریشان ہوں کہ ایران پر حملہ کیا جائے۔ میں اس پر اس لئے فکر مند ہوں کہ یہ بہت زیادہ عدم استحکام پیدا کرے گا نہ صرف ایران میں بلکہ اس طرح کے حملے سے غیر متوقع نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔“مائیک مولن نے کہا ”میں سمجھتا ہوں کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ اس سے بڑا عدم استحکام پیدا ہوگا۔“ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنا اسرائیلی فوج کی طاقت سے باہر ہے۔ وہ ایسا نہیں کر سکتی۔ 1982 میں اسرائیلی ایئر فورس نے ایران کے جوہری ری ایکٹر پر جو حملہ کیا تھا وہ ایک برق رفتار انداز میں ہوا لیکن ایران کی جوہری صلاحیتیں سارے ملک میں پھیلا دی گئی ہیں جن میں سے بعض زیر زمین بھی ہیں۔ مسٹر بائیڈن سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ اگر اسرائیلی یہ فیصلہ کریں کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو کیا امریکہ فوجی طور پر اس کے راستے میں حائل ہوگا؟ انہوں نے جواب دیا”ہم ایک اور خودمختار قوم کو اس بات پر مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ اسرائیل کو حق ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ اس کے مفاد میں کیا ہے اور ہم خود فیصلہ کریں گے کہ ہمارے مفاد میں کیا ہے۔ “
ہمارے لئے برطانوی اخبار ”سنڈے ٹائمز“ کی یہ اطلاع انتہائی تشویشناک ہے کہ سعودی عرب اسرائیلی طیاروں کو جب وہ ایران جا رہے ہوں انہیں روکنے کی کوشش نہیں کرے گا بلکہ اپنی آنکھیں بند کر لے گا۔ سعودی عرب کے یقینا ایران سے دیرینہ اختلافات ہیں لیکن ہمیں سعودی عرب کے اس فیصلے سے بڑی حیرت ہوئی ہے۔ سعودی عرب اپنے آپ کو ساری دنیا کامذہبی رہنما سمجھتا ہے۔ اس کی طرف سے ایسا فیصلہ کرنا ہمارے لئے انتہائی تشویشناک ہے۔ معلوم نہیں سعودی عرب نے ایران کی دشمنی میں اس طرح کا فیصلہ کیوں کیا ہے؟

خبر کا کوڈ : 7702
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش