0
Saturday 11 Jun 2011 21:55

پی این ایس مہران حملہ،حقائق کیا ہیں؟

پی این ایس مہران حملہ،حقائق کیا ہیں؟
تحریر:تصور حسین شہزاد
پاکستان کی ایک ہزار 46 کلومیٹر طویل بحری سرحد یا کوسٹل بیلٹ کی محافظ اور ملکی حدود میں ممکنہ مداخلت کو روکنے کی ذمہ دار پاکستان نیوی کو القاعدہ یا کسی اور عالمی و علاقائی قوت کی جانب سے نشانہ کیوں بنایا گیا۔؟ یہ وہ سوال ہے جو پاکستان کے سماجی، سیاسی، عوامی اور عسکری حلقوں میں نیوی پر کراچی میں ہونے والے پہلے حملے سے پی این ایس مہران کے واقعہ تک اور اس کے بعد بھی جواب طلب ہے۔ 35 ہزار کے قریب افرادی قوت رکھنے والی نیول فوج زمینی جنگ کا تجربہ نہیں رکھتی، دو بدو لڑائی کے لئے بھی تربیت یافتہ نہیں۔ کیا یہ سبب تھا جس کی وجہ سے نیوی کو نشانہ بنایا گیا۔؟ اگر اسے درست مان لیا جائے تو پھر اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی ائیر فورس بھی تو زمینی جنگ یا دو بدو لڑائی کا تجربہ نہیں رکھتی، وہ نشانہ کیوں نہ بنی؟ اس امکان کو رد کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ نیوی کے مقابلے میں ائیرفورس ملک کے زیادہ شہروں میں اپنے مراکز رکھنے کے سبب ملٹی ٹارگٹ رکھنے والی فورس ہے۔ اگر مسلح افواج کے خلاف کاروائی مقصد تھی تو اسے نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔
 حملہ کا ایک سبب یہ قرار دیا گیا کہ نیوی نے اپنے کچھ اہلکاروں کو القاعدہ سے تعلق کے سبب سزائیں سنائی تھیں، جس پر امریکا مخالف عسکری تنظیم نے نیوی سے ان کی سزائیں واپس لینے یا ان افراد کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا، جب نیوی نے یہ بات نہیں مانی تو پی این ایس مہران پر حملہ کیا گیا۔ کیا القاعدہ کے لئے محض فنڈ جمع کرنے والوں کی اتنی اہمیت ہو گی کہ اس مقصد سے وہ نیوی سے مذاکرات کر کے اپنی قیادت کو دنیا کے سامنے لانے کا خطرہ مول لے۔ 50 اور 100 روپے کا فنڈ کرنے والوں کی اگر اہمیت ہے تو مذکورہ افراد کو طویل عرصے تک جاری رہنے والے مقدمے کے بعد 5 تا 15 برس کی سزائے قید سنائی گئی ہے جو عسکریت کا راستہ اپنانے والوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ ایسے میں القاعدہ کی کاروائی اپنے لوگوں کو چھڑانے کے لئے کی جاتی، مگر یہ لوگ تو نیوی کے فضائی مرکز پی این ایس مہران پر قید نہیں تھے۔ نیوی سے ایسے کسی تنازع کی صورت میں مذاکرات کا درست ادارہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس، وزارت داخلہ و خارجہ یا حکومت کا کوئی اور شعبہ تو ہو سکتا ہے نیوی اکیلے اس طرح کے کسی اقدام میں فریق بن کر کردار کیسے ادا کر سکتی ہے۔؟
نیوی کو نشانہ بنائے جانے کا تیسرا سبب یہ قرار دیا گیا کہ اس کے مراکز کی سیکیورٹی معمولی نوعیت کی ہوتی ہے یا زمینی فوج جتنی سخت نہیں ہوتی، اس لئے حملہ آوروں کو شدید ردعمل کی توقع نہیں تھی۔ یہ امکان اگر درست کہا جائے تو نیوی کے مقابلے میں فضائیہ کے مراکز کی سیکیورٹی بھی ایسی ہی ہوتی ہے۔ کسی بھی فورس سے وابستہ افراد کی رہائشی کالونیوں میں بھی حفاظتی اقدامات کم ہی ہوتے ہیں۔ پاکستانی افواج کے لئے اسلحہ تیار کرنے والے مراکز پاکستان مشین ٹول فیکٹری کراچی اور ہیوی مکینیکل فیکٹری ٹیکسلا بھی سیکیورٹی کے لحاظ سے معمولی انتظامات رکھتے تھے لیکن اب ان کی سیکیورٹی بھی سخت کر لی گئی ہے۔ پی این ایس مہران پر نیوی تنہا نہیں بلکہ آرمی ایوی ایشن کا مرکز ہونے کے سبب بری فوج اور فضائیہ کے استعمال میں ہونے کی وجہ سے ائیرفورس بھی موجود تھی۔ 
چوتھا سبب یہ ہے کہ حملہ سے نیوی کی عسکری صلاحیت کو نشانہ بنانا مقصود تھا، تاکہ وہ ضرورت پڑنے پر ایسی کارکردگی نہ دکھا سکے، جس کی توقع کی جا رہی ہو؟ اوپر کے تینوں پہلوﺅں کی نسبت یہ ایک خطرناک مقصد کہا جا سکتا ہے اور اس کاروائی کے نتائج بھی اسی مقصد کے حاصل ہونے کا ثبوت ہیں۔ تو کیا اب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ القاعدہ نے پاکستانی فوج کے بجائے اب پاکستان کے اثاثوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے؟ اگرچہ اس کی ماضی میں مثال تو نہیں ملتی لیکن ایسا ہونا ممکن ہے، لیکن یہاں بات ختم کرنے سے قبل یہ دیکھنا ہو گا کہ ایسی کاروائی کا یہ نتیجہ نکلنے سے فائدہ کس کو ہو گا۔
21،22 مئی کو پی این ایس مہران میں ہونے والے حملے کے حوالے سے عسکری ذرائع اور دیگر جگہوں سے اب تک حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق 5 حملہ آور جس راستے سے دیوار پر سیڑھی لگا کر پی این ایس مہران میں اترے تھے وہاں سے پی سی 3 اورین طیاروں تک کا فاصلہ ڈیڑھ کلومیٹر بنتا ہے۔ بیرونی دیوار اور طیاروں کے مقام کے درمیان سرکنڈوں کی چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں بھی ہیں، اندر آنے کے بعد کی جانے والی کاروائی سے قبل اس امر کے بھی شواہد ملے ہیں کہ حملہ آور ایک مقام پر جمع ہوئے، جہاں سے پانچویں فرد کے قدموں کے نشان غائب ہو گئے، غائب ہونے والے یہ نشان دوبارہ باہر کی جانب نہیں گئے نہ ہی اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ آگے کو بڑھے۔ باقی 4 میں سے 2 نے 24 گھنٹے تک مسلسل پرواز کرنے اور سمندری نگرانی کے ساتھ آبدوزوں یا بحری جہازوں کے خلاف کاروائی کی صلاحیت رکھنے والے پی سی 3 اورین پر راکٹ داغے۔ ایسا کرنے سے 2 طیارے بالکل تباہ ہو گئے جب کہ ایک طیارے پر کی جانے والی فائرنگ سے اسے اتنا نقصان پہنچا کہ وہ استعمال کے قابل نہیں رہا۔ تیسرا طیارہ سپئر کے طور پر استعمال ہونے کی غرض سے وہاں موجود تھا۔ حملہ آور یہاں تک پہنچنے کے راستے میں موجود سامان کی نقل و حمل میں استعمال ہونے والے سی ون تھرٹی اور جنگی صلاحیت کے حامل دیگر طیاروں کو راستے میں نظر انداز کرتے ہوئے آئے تھے۔ 
اربوں روپے مالیت کے پی سی 3 اورین کی تباہی کے بعد نیوی کی نگرانی کی صلاحیت 80 فیصد کم ہوئی ہے۔ اس صلاحیت کو حاصل کرنے کے لئے پاکستان کو امریکی کانگریس اور بھارت کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اگرچہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنے والے ملک کو بادل نخواستہ یہ طیارے جون 2010ء میں دے تو دیئے تھے لیکن ان میں کسی خرابی کی صورت میں درستگی کی صلاحیت پاکستان کے پاس نہ تھی۔ اس کے باوجود ان کی موجودگی نے ایسا انتظام کر دیا تھا کہ پاکستان کے روایتی حریف بھارت یا کسی دوسری جانب سے ہونے والی جارحیت کے جواب میں یہ درمیانی کڑی ثابت ہوتے۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کئے گئے تبصرے میں ایک باخبر فرد کا کہنا تھا کہ پی سی 3 اورین جنگ کی صورت میں کمانڈ اینڈ کنٹرول پوسٹ اور سطح سمندر سے نیچے موجود آبدوز کے درمیان رابطے کی ایسی کڑی تھے جس نے نہ صرف دشمن جہازوں یا آبدوزوں کو تباہ کرنا تھا بلکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو 24 گھنٹے تک سمندری حدود کے اوپر رہ کر ایسی معلومات فراہم کرنا تھیں جو سمندر میں موجود آبدوزوں کو دشمن کے خلاف درست کاروائی کی بنیاد فراہم کرتیں۔ 2 انجن بند کر دینے کی صورت میں کراچی سے اڑنے والے یہ طیارے بھارتی شہر کلکتہ تک پرواز کر کے اپنی برتری قائم کر سکتے تھے۔
القاعدہ یا کوئی عالمی و علاقائی طاقت، تینوں میں سے جو بھی پاکستانی افواج کے بعد پاکستان کے اثاثوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے کیا وہ پاکستانی فوج پر قوم کے اس اعتماد کو ختم کرنا چاہتا ہے، جو ملک کی حفاظت کے آخری مرکز کے طور پر 21 مارچ سے قبل تک مسلح افواج پر کیا جاتا رہا ہے؟ ان تینوں میں سے جو اس واقعہ کا ذمہ دار ہے کیا وہ بادل نخواستہ پاکستان کو حاصل ہو جانے والی قوت سے اسے محروم کرنا چاہتا تھا؟ یا پاکستان کے دیگر اثاثوں خصوصاً ایٹمی صلاحیت اور دیگر حساس تنصیبات کی حفاظت کے معاملے پر سوال پیدا کرنا مقصود تھے؟ کارگل جنگ کے دوران سیٹلائٹ سے حاصل کی جانے والی تصویروں کی بنیاد پر بھارت کے مقابلے میں پاکستانی موقف کو غلط ثابت کرنے والے امریکہ کی جانب سے پی این ایس مہران کے حملہ آوروں کی نقل و حرکت کو یقیناً اپنے سیٹلائٹس سے مانیٹر کیا ہو گا، وہ ان معلومات کا تبادلہ کیوں نہیں کرنا چاہتا؟ یا امریکہ کے سیٹلائٹس محض جھوٹ کا پلندہ اور ہالی وڈ کی فلم کا کوئی سین ہیں؟ خصوصاً ایسے وقت میں جب 4 میں سے 1 حملہ آور خودکش دھماکہ کے سبب قابل شناخت نہیں رہا، باقی 2 نے خود کو اڑایا جس سے ان کے پیٹ کے علاوہ باقی جسم محفوظ رہا، چوتھے کی موت گولیاں لگنے سے ہوئی، لیکن ان میں سے کسی کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔ 
معاشی طور پر مشکلات کے شکار ملک پاکستان کو جنگی تیاریوں پر مزید خرچ کرنے کے لئے آمادہ کرنے کی خاطر یہ اقدام کیا گیا ہے یا پھر 1046 کلومیٹر طویل ساحلی سرحد پر پاکستان کو اپنے کسی بھی دشمن کے خلاف حاصل ہو جانے والی برتری ختم کرنا مقصود تھا یا ریمنڈ ڈیوس کی جانب سے لاہور میں 2 پاکستانیوں کے قتل کے بعد آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان موجود کشیدگی پر اختیار کئے جانے والے پاکستانی موقف سے اسے پیچھے ہٹانا مقصود تھا؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملک دشمن قوتیں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آپریشن شروع کروانے کے لئے دباﺅ بڑھانا چاہتی ہوں، تاکہ پاکستانی فوج ایک نئے محاذ پر پھنس جائے؟ پی این ایس مہران حملے اور اس کے بعد اب تک سامنے آنے والے شواہد نے ان نئے سوالوں کو سامنے لا کر یہ اشارہ دیا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ اسے القاعدہ جیسی کسی تنظیم کے سر ڈال کر تحقیق و تفتیش کی مشقت سے خود کو بچا لیا جائے۔ پی این ایس مہران حملہ کے بعد کراچی اور فیصل آباد سے گرفتار کئے گئے 2 افراد کو چھوڑا جا چکا ہے۔ پانچویں حملہ آور کا کسی کو ابھی تک کوئی علم نہیں۔ نیوی سمیت تینوں مسلح افواج کے فضائی مرکز کے طور پر استعمال ہونے والے بیس کی بیرونی دیوار کے قریب سے ملنے والا واکی ٹاکی سیٹ استعمال ہی نہیں ہوا، جس سے حملہ آوروں کے درمیانی رابطے کی نشاندہی ہوتی۔ یہ واقعہ اتنی مہارت اور منصوبہ بندی سے وقوع پذیر کیا گیا ہے کہ تحقیق کار اپنے سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش میں ایک بار پھر خالی ہاتھ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 78073
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش