0
Tuesday 28 Jun 2011 15:02

دہشت گردی کے خلاف تہران میں عالمی کانفرنس

دہشت گردی کے خلاف تہران میں عالمی کانفرنس
تحریر:ثاقب اکبر
26-25 جون 2011ء کو تہران میں دہشت گردی سے مقابلے کے لیے بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد دنیا کی کئی ایک حکومتوں کے لیے پریشان کن ہے۔ امریکہ جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا خود سے عالمی چیمپین بنا ہوا ہے، اس کے لیے ایسی کانفرنس کا تہران میں انعقاد سب سے زیادہ حوصلہ شکن ہے، کیونکہ امریکہ تو ایران کو پوری دنیا سے الگ کر کے اس پر اقتصادی پابندیوں کے لیے گذشتہ تین دہائیوں سے سرگرم عمل ہے۔ اس سلسلے میں وہ سلامتی کونسل سے چار قراردادیں بھی منظور کروا چکا ہے۔ ایسے میں 60 سے زیادہ ملکوں کے اعلیٰ درجے کے نمائندوں کی اس کانفرنس میں موجودگی، اس کی تمام تر کوششوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ خاص طور پر ایران کے ہمسایہ ممالک پاکستان، افغانستان اور عراق کے صدور کی موجودگی نے یہ امر ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ان ملکوں میں افواج کی موجودگی کے باوجود وہاں کی قیادت امریکہ پر پوری طرح اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، یا کم از کم ایران کے بائیکاٹ کے معاملے میں امریکہ کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہے۔
تہران میں ایران، پاکستان اور افغانستان کے صدور کی ایک خصوصی نشست کے بعد ایک بیان میں خطے میں غیرملکی مداخلت کے خاتمے پر زور دیا گیا ہے اور تینوں ملکوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ طور پر جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کانفرنس میں کی گئی صدر محمود احمدی نژاد کی تقریر کا پوری دنیا میں بہت شہرہ ہے، جن کا کہنا ہے کہ دنیا 11ستمبر کے واقعے کو ہولوکاسٹ کی طرح کے ایک سوچے سمجھے استعماری منصوبے کا حصہ سمجھتی ہے اور امریکہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ایک غیرجانبدار عالمی کمیشن کے ذریعے اس کی تحقیقات کی اجازت دے، لیکن امریکی حکومت اس کے لیے تیار نہیں ہے۔
معروف امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ تہران میں ایران، پاکستان، افغانستان اور عراق کے مابین جو ہم آہنگی وجود میں آئی ہے وہ امریکہ کے لیے ایک ضربہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ یہ نشست ایران کے اپنے تینوں ہمسایہ ممالک، جو امریکہ کے اتحادی شمار ہوتے ہیں، کے ساتھ محکم تعلقات کے قیام کی کوششوں کا حصہ ہے۔
اس حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی دو ہفتے نہیں گزرے تھے کہ تہران میں جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ انتہائی مختصر وقفے کے بعد ایک اور بڑی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کر کے تہران نے نہ فقط اپنی انتظامی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر اپنے بہتر روابط اور اعتماد کا بھی ثبوت دیا ہے۔ یکے بعد دیگرے ان کانفرنسوں کے انعقاد سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ ایران کو تنہا کرنے کی امریکی کوششیں کامیاب ثابت نہیں ہو سکیں بلکہ جوہری ہتھیاروں کے خاتمے اور دہشت گردی کے خلاف کانفرنسوں کے عنوان سے عالمی رہنماوں کی تہران میں موجودگی، جوہری ہتھیاروں اور دہشت گردی کے حوالے سے تہران کے مو قف کی ایک لحاظ سے تائید بھی سمجھی جا رہی ہے۔ ان کانفرنسوں کے موقع پر ایران نے دنیا کے مختلف ممالک سے دوطرفہ بنیادوں پر اور دیگر سطحوں پر کئی ایک قراردادوں اور معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، جو اس کے بڑھتے ہوئے عالمی کردار کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف منعقدہ کانفرنس کا یہ پہلو بھی لائق توجہ ہے کہ افغانستان کے معاملے سے امریکہ ایران کو غیر متعلق یا باہر رکھنے کے لیے مسلسل کوششیں کرتا آیا ہے، لیکن اس موقعے پر افغانستان اور پاکستان نے ایران کے ساتھ مل کر علاقے سے غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کے خاتمے کا جو مطالبہ کیا ہے وہ بلاواسطہ امریکہ اور ان کے اتحادیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
یاد رہے کہ ابھی چند ہفتے پہلے ایران کے وزیر دفاع نے افغانستان کا سرکاری دورہ کیا تھا، جس میں انھوں نے افغانستان میں مستقل فوجی اڈوں کے قیام کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ اس موقع پر ایرانی وزیر  دفاع وحیدی کا کہنا تھا کہ امریکی اگر عقلمند ہوں تو افغانستان میں مستقل فوجی اڈوں کے قیام سے اپنے لیے ایک طویل مدتی درد سر مول نہ لیں۔
 دہشت گردی کے خلاف موجودہ کانفرنس کے موقع پر افغان صدر سے ایران کے روحانی پیشوا سید علی خامنہ ای نے اپنی ملاقات کے موقع پر کہا کہ افغانستان میں مستقل فوجی اڈوں کے قیام کا امریکی ارادہ نہایت خطرناک ہے اور جب تک امریکی افغانستان میں باقی رہیں گے حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ جواب میں صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ آئندہ تین سال میں تمام غیرملکی فوجی افغانستان سے چلے جائیں گے اور افغانستان کا نظام اور اس کی حاکمیت اس ملک کے عوام اور جوانوں کے سپرد ہو جائے گی۔
دو روزہ کانفرنس کے اختتام پر جو اعلانیہ جاری کیا گیا ہے، وہ بھی کئی ایک معنی خیز نکات پر مشتمل ہے۔ تمام شرکاءنے دہشت گردی سے مقابلہ کی کانفرنس کا مستقل دفتر تہران میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے کی آئندہ کانفرنس کی میزبانی عراق نے قبول کر لی ہے۔ یہ امر ایران عراق ہم آہنگی کی طرف ایک اور اشارہ ہے۔ کانفرنس کے شرکاء نے دہشت گردی کی تمام شکلوں بشمول ریاستی دہشت گردی کی مخالفت کی ہے۔ اعلامیہ کے مطابق اقوام ِمتحدہ کو اپنے تمام اراکین کے اعتماد کے ساتھ دہشت گردی کے عالمی چیلنج کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اعلامیہ میں دہشت گردی کے نام پر دوسرے ملکوں میں مداخلت کی مذمت کی گئی ہے۔ گہری نظر سے دیکھا جائے تو نام لیے بغیر کانفرنس کے اعلانیہ میں اسرائیل، امریکہ اور ان کے اتحادیوں کی مذمت کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے اس کانفرنس کو دہشت گردی کے حوالے سے عالم اسلام اور تیسری دنیا کے موقف کی ترجمان قرار دیا جاسکتا ہے۔ 
یاد رہے کہ کانفرنس کے دیگر شرکاء میں سوڈان، تاجکستان اور موریطانیہ کے صدر مملکت اور کیوبا کے نائب صدر بھی شامل تھے۔ علاوہ ازیں کئی ملکوں کے وزرائے خارجہ اور دیگر بلند مرتبہ نمائندے اس میں شریک تھے۔ کانفرنس میں اقوام متحدہ ، او آئی سی اور دیگر کئی ایک عالمی اداروں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ عالمی مبصرین اس کانفرنس کو خطے میں ایک اہم سیاسی پیشرفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 81653
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش