0
Monday 25 Jul 2011 20:35

حکومتی دہشتگردی کا ارتکاب۔۔۔صیہونی حکومت اور؟

حکومتی دہشتگردی کا ارتکاب۔۔۔صیہونی حکومت اور؟
 تحریر:محمد علی نقوی
سعودی عرب کی انسانی حقوق کی تنظیم کے ایک سرگرم کارکن احمد شلبی نے بتایا کہ آل سعود کی خاندانی حکومت نے اپنے مخالفین پر تشدد کے نئے نئے انداز ایجاد کئے ہیں، جیسا کہ مخالفین کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے صحرا میں چھوڑ دیا جانا، بغیر وجہ بتائے گرفتار کرنا اور گرفتار فرد کے اہل خانہ کو لاعلم رکھنا، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں پر دباؤ اور انھیں سفر کرنے سے قبل حکام کو آگاہ کرنے کی پابندی عائد کرنا شامل ہیں۔ خیال رہے صحرا میں چھوڑے گئے افراد موسم کی شدت اور بھوک و پیاس سے صحرا ہی میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی شاہی حکو‏مت نے اپنے شہریوں کو مشکل حالات سے دوچار کر دیا ہے۔ دوسری طرف ایمنسٹی انٹرنشنل نے اپنے بیان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سعودی حکومت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سعودی حکومت دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی آڑ میں اپنے سیاسی مخالفین اور شیعہ اکثرِیتی علاقوں کی سیاسی اور سماجی شخصیات کو نشانہ بنا رہی ہے۔
اس میں کوئي شک نہيں کہ اس وقت دنیاد ہشتگردی کی گرفت ميں ہے اور اکثر ممالک کے بےگناہ عوام کو دہشتگردی کا سامنا ہے۔ دہشتگردی کا ذکر آتے ہی ذہن میں جو خیال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ کچہ شرپسند عناصر اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے غلط راستہ اختیار کرتے ہوئے عوام کے لئے مسائل و مشکلات پیدا کرتے ہیں اور اکثر و بیشتر بےگناہ عوام کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کا پورا خاندان مختلف قسم کے نفسیاتی اور معاشی مسائل میں مبتلا ہو جاتا ہے، لیکن اب یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ صرف معاشرے کے ناسمجہ اور ناعاقبت اندیش افراد ہی دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث نہيں ہیں بلکہ حکومتیں بھی براہ راست دہشتگردانہ کاروائیاں انجام دے رہی ہیں، یہ دہشتگردانہ کاروائیاں کبھی اپنے ہی ملک کے عوام کے خلاف انجام پاتی ہیں اور کبھی دشمن ملک کے خلاف۔
جب سرکاری دہشتگردی کا نام آتا ہے تو ذہن میں جو سب سے پہلا نام آتا ہے وہ صیہونی حکومت کا ہے، جو کھلے عام امریکہ اور مغربی طاقتوں کی ایماء پر فلسطینی عوام کے خلاف آئے روز دہشتگردانہ کاروائیاں انجام دیتی رہتی ہے، جس میں بڑے پیمانے پر بچوں اور عورتوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ صیہونیوں کی حکومتی دہشتگردی کی انتہا تو اس وقت ہو گئی جب اس نے پورے ایک علاقے کو اپنے جارحانہ عزائم کے لئے محاصرے میں لے لیا ہے اور حالت یہ ہے کہ غزہ کے بچے اور مریض دودھ اور دواؤں تک کے لئے ترس رہے ہیں۔ اور اگر عالمی برادری کسی صورت غزہ کے محصور عوام کی مدد بھی کرنا چاہتی ہے تو صیہونی کمانڈوز امدادی قافلوں کو غزہ پہنچنے سے پہلے ہی اپنی جارحیت کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ اور اس وقت غزہ کے عوام کے لئے فرانس کا امدادی جہاز جو صیہونیوں کے محاصرے میں ہے، اس دعوے کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ 
اس میں کوئی شک نہيں کہ صیہونی حکومت سرکاری دہشتگردی کا سب سے بڑا ثبوت ہے،لیکن اس وقت ہم صیہونی حکومت کی سرکاری دہشتگردی کی فہرست گنوانے کے بجائے ایک ایسے ملک کی حکومتی دہشتگردی کا ذکر کرنا چاہتے ہيں جو خود کو اسلام کا ٹھیکےدار سمجھتا ہے اور اس کے باوجود اسلامی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے ایسے قوانین بناتا ہے، جو اسلام و انسانیت دونوں کے برخلاف ہیں، ہماری مراد سعودی عرب ہے، کیونکہ سعودی عرب نے اپنے عوام کے خلاف دہشتگردی کا سب سے بڑا ثبوت پیش کرتے ہوئے ایک ایسا قانون بنایا ہے، جس میں دہشتگردی کے خلاف جدوجہد کی بات کی گئی ہے جبکہ وہ قانون خود عوام کے خلاف سب سے بڑی دہشتگردی ہے، یہاں تک کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس قانون کی شدید مذمت کی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے انسداد دہشتگردی قانون کے سہارے ہر طرح کے احتجاج اور اعتراض کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ 
موصولہ رپورٹوں کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ اس کے پاس ایسے ثبوت وشواہد موجود ہيں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں انسداد دہشتگردی کا ایسا قانون بنایا جا رہا ہے، جس کے سہارے حکومت چھوٹی سے چھوٹی مخالفت اور اعتراض کو دہشتگردی قرار دے کر کچل سکتی ہے۔ اس قانون کے مسودے کے مطابق سعودی عرب کے بادشاہ اور ولی عہد پر اعتراض کرنے کی سزا دس سال قید بامشقت ہو سکتی ہے اور حکومت کو اجازت ہو گي کہ اس قانون کے تحت پکڑے جانے والوں کو دس برسوں سے زائد عرصے تک جیل میں رکھ سکیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک اعلٰی عہدیدار نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں اس قانون کی منظوری سے آزادی بیان اور ہر طرح کی آزادی سلب ہو کر رہ جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب میں انسداد دہشتگردی کے اس قانون سے حکومت کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ دہشتگردی کا الزام لگا کر مخالفین کو سرکوب کر سکے، انھوں نے کہا کہ یہ قانون سعودی عرب میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کا سبب بنے گا۔ 
خود سعودی عرب کے اندر اس قانون کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ سعودی عرب کے سیاسی رہنماؤں کاخیال ہے کہ اس قانون کا سہارا لے کر لوگوں کو کچلنے کی کاروائي تیز کر دی جائے گی۔ کیونکہ اس قانون سے سعودی حکام کو کھلی چھوٹ مل جائے گی کہ وہ جسے چاہيں بغیر کوئي مقدمہ چلائے اسے ایک طویل مدت کے لئے جیلوں میں ڈال دیں۔ سعودی عرب کے دہشتگری کے خلاف جدوجہد کے قانون کی بنیاد پر بادشاہ یا ولی عہد کی صلاحیتوں پر کسی طرح کا شک و شبہ جرم شمار ہوتا ہے اور جو بھی اس جرم کا ارتکاب کرے گا، اسے دس سال کی قید بامشقت کی سزا دی جائے گی اس قانون سے سعودی حکام کو یہ بھی چھوٹ مل جائے گی کہ وہ افراد کو بغیر مقدمہ چلائے ایک سال تک اور ایک سو بیس دن تک قید تنہائی میں رکھ سکتے ہيں۔ دہشتگردی کے خلاف جدوجہد کا قانون سعودی عرب میں پہلی بار دو ہزار تین میں بنایا گیا تھا، لیکن وہ ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا تھا اور اب جب سعودی عرب خاص حالات کی بنا پر عوامی مظاہروں اور احتجاج سے روبرو ہے تو اس قانون پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
 سعودی عرب کی بہت سی سیاسی شخصیتیں موجودہ حالات میں اس قانون پر عمل درآمد کو عوامی مظاہروں کو کچلنے کا ذریعہ سمجھتی ہيں اور ان کی تاکید ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جدوجہد کے قانون کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہيں ہے، بلکہ ان کا مقصد اس ملک میں سیاسی مخالفین کی سرکوبی ہے۔ گذشتہ مہینوں میں سعودی حکام نے عوامی مظاہروں اور آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لئے سخت انتظامات کر رکھے ہيں، تاکہ شاید حریت پسندی کی تحریکوں کو روک سکيں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سعودی عرب سمیت علاقے کے عرب ممالک میں شاہی نظام ہے اور سالہا سال سے عوام پر ایک ہی خاندان مسلط ہے اور جن ممالک میں آمریت ہے، وہاں نیے حالات پیدا ہو رہے ہيں، جس کا عرب سربراہان مملکت تصور بھی نہيں کر سکتے تھے۔
 اسی خوف کے تحت سعودی عرب اور اس کے بعض ہمنوا، دوسرے ملکوں میں بھی حکومتی دہشتگردی کا ارتکاب کر رہے ہیں، سعودی عرب نے حریت پسند عوام کو کچلنے کے لئے اپنی فوجیں دوسرے ملکوں میں بھی بھیجی ہیں، جس کی تازہ مثال بحرین ہے، جبکہ عراقی حکومت نے بھی بارہا شکایت کی ہے کہ سعودی عرب کے ایجنٹ سعودی ہتھیاروں اور وسائل سے عراق کے مختلف علاقوں میں ہونے والی دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث ہیں، جنھیں بارہا گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ سعودی عرب عراق ميں خفیہ طور پر دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث ہے،جبکہ بحرین میں آل خلیفہ کی آمریت کے خلاف عوامی تحریک کو کچلنے میں اس نےکھلم کھلا دہشتگردی کا مظاہرہ کیا ہے، یقینا اس کا ایک سبب عالم عرب میں اٹھنے والی تحریکوں کے سعودی عرب میں سرایت کرنے کےحوالے سے اس کا خوف بھی ہو سکتا ہے۔
یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سعودی عرب نے بحرین کی ظالم آل خلیفہ حکومت بچانے کے لئے بڑے پیمانے پر بحرینی عوام کا قتل عام کیا ہے، امامبارگاہوں اور مساجد کو شہید کیا ہے، حتٰی قرآن کریم کے نسخے بھی نذرآتش کئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعویدار اس کے اتحادی مغربی ممالک نے دبی آواز ميں بھی اسے روکنے کی کوشش نہيں کی، کیونکہ یہی کام وہ خود عراق افغانستان اور پاکستان میں کر رہے ہيں، جہاں انھیں سعودی عرب جیسے اس کے اتحادی کا تعاون اور حمایت حاصل ہے، رپورٹیں تو اس بات کی شاہد ہیں کہ برطانیہ اور امریکہ نے مختلف وسائل و ذرائع سے آل خلیفہ حکومت کی مدد کی ہے اور حریت کے متوالوں کو کچلنے میں ہر طرح سے آل خلیفہ کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مشرق وسطٰی میں امریکہ کے اہم اتحادی ممالک میں آمریت کا راج ہے، جبکہ وہ خود بظاہر جمہوریت کا دعویدار ہے، عرب ممالک میں جاری اسلامی بیداری کی لہر سے سعودی عرب کے حکام سخت پریشان ہیں اور وہ عرب ممالک میں جاری عوامی تحریک کو یمن اور بحرین کے سرحدوں تک محدود رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور امریکہ اس سلسلے میں سعودی حکام کی سرپرستی کر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 87265
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش