0
Wednesday 27 Jul 2011 14:59

کیا امریکی افواج عراق سے نکل جائیں گی؟

کیا امریکی افواج عراق سے نکل جائیں گی؟
تحریر:ثاقب اکبر
عراقی حکومت اور امریکہ کے مابین معاہدے کے مطابق سال رواں کے آخر تک تمام تر امریکی افواج کو سرزمین عراق سے نکل جانا ہے۔ اس معاہدے کے پہلے حصے کے مطابق بیشتر امریکی افواج گذشتہ برس کے دوران میں پہلے ہی عراق چھوڑ چکی ہیں۔ اس وقت عراق میں موجود امریکی افواج کی تعداد پچاس ہزار سے کچھ کم ہے اور عراق کو چھوڑ کر جانے والے امریکیوں کی تعداد 56ہزار کے لگ بھگ ہے۔ معاہدے کے مطابق امریکی افواج عراق کے اندر کسی فوجی آپریشن میں بلا واسطہ اور بلا اجازت حصہ بھی نہیں لے سکتیں۔ امریکی افواج کی بعض خلاف ورزیوں پر عراقی حکومت پہلے ہی سخت ردعمل ظاہر کر چکی ہے۔ تاہم بعض اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کی خواہش یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی بہانے سے اپنی تمام تر افواج کو عراق سے باہر نہ نکالیں۔ البتہ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ عراقی پارلیمنٹ معاہدے پر نظرثانی کے لیے تیار ہو جائے اور اسی کی ایما پر معاہدے میں تبدیلی عمل میں آئے، جس کا بظاہر کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ 
عراق میں امریکی سفیر جیمز جیفری نے جولائی کے شروع میں کہا کہ اوباما انتظامیہ عراق میں امریکی افواج کی تعیناتی کی مدت کو اگلے سال تک کے لیے بڑھانے کو تیار ہے بشرطیکہ عراقی حکام درخواست کریں۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ امریکی فوجیوں پر شیعہ جنگجوﺅں کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود کیا جاسکتا ہے۔ جیمز جیفری نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ امریکی فوجی عراق میں سرگرم دہشت گردوں کا اولین نشانہ ہیں۔ یاد رہے کہ رواں سال کے ماہ جون میں عراق میں 55 امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ جیمز جیفری کی بات کو واشنگٹن میں وائٹ ہاﺅس کے ترجمان جے کارنی نے بھی دہرایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دو طرفہ سمجھوتے کے مطابق امریکی افواج کو رواں سال 31 دسمبر تک عراق چھوڑنا ہو گا لیکن اگر عراق کے حکام افواج کی مدت تعیناتی میں اضافہ کرنے کی درخواست کریں تو اس فیصلے پر نظرثانی کی جاسکتی ہے۔ امریکی عہدیداروں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی بہانے سے عراق میں اپنی افواج باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی وجوہات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
بیروت میں مقیم مشرق وسطٰی کے امور کے ماہر زید العیسٰی نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ امریکہ کے لیے عراق کی جغرافیائی پوزیشن خاصی اہم ہے۔ مصر اور مشرق وسطیٰ میں جاری سیاسی بحران کی وجہ سے امریکہ چاہتا ہے کہ اس کی افواج عراق میں باقی رہیں۔ امریکہ میں حکومت پر داخلی دباﺅ ہے کہ وہ عراق اور سعودی عرب سے اپنی افواج واپس نہ بلوائے۔ سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اپریل میں عراق کے دورے سے چوبیس گھنٹے پہلے ہی سعودی بادشاہ عبداللہ سے بات کی تھی۔ وزیر دفاع کے بعد کئی اعلٰی حکام عراق کا سفر کر چکے ہیں، تاکہ وزیراعظم نوری المالکی پر دباﺅ ڈال سکیں۔ عراق پر فوجی قبضے کے بعد بغداد میں دریائے دجلہ کے کنارے سابق عراقی آمر صدام کے محل کے مقام پر امریکا غیر معمولی طور پر بڑا سفارت خانہ قائم کر چکا ہے۔ اس سفارت خانے کی حفاظت کے بہانے امریکا عراق میں بڑی تعداد میں اپنی فوج رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے صدر دروازے پر اب تک سینکڑوں خودکش حملے اور بم دھماکے ہو چکے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کی رائے کے مطابق امریکا عراق میں اپنی افواج کے قیام میں توسیع کے لیے غیر اصولی طریقے بھی اپنا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی اس نے مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے سعودی شدت پسندوں کا سہارا لیا تھا۔ 2007ء میں ایک سعودی وزیر نے یہ اعتراف کیا تھا کہ 2500 سعودی نوجوان عراق میں جہاد کے لیے داخل ہو گئے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سعودی حکومت اور امریکا کی مرضی کے بغیر یہ لوگ عراق میں داخل ہو جائیں۔ دریں اثناء اسرائیل کی بھی شدید خواہش ہے کہ امریکی افواج عراق میں موجود رہیں۔
دوسری طرف عراقی حکومت کسی طور اس امر پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی کہ امریکی افواج کو مزید عراق میں ٹھہرنے کی اجازت دے۔ اس سلسلے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ امریکی افواج کی موجودگی کے باوجود منتخب ہونے والی کسی عراقی حکومت نے امریکا کو عراق میں مستقل ٹھہرنے اور اڈے قائم کرنے کی اجازت نہیں دی۔ عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے حالیہ مہینوں میں بارہا کہا ہے کہ عراق امریکی افواج کو ملک میں مزید ٹھہرنے کے لیے نہیں کہے گا، اگرچہ ہماری خواہش ہے کہ امریکا سے فوجی تعلقات مزید مستحکم ہوں۔ انھوں نے مزید کہا کہ امریکی افواج کے اس سال کے آخر تک انخلا کے فیصلے پر عمل کیا جائے گا۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ہمیں امریکی دباﺅ کا سامنا ہے، لیکن واضح کیا کہ معاہدے میں تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کی توثیق درکار ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پارلیمنٹ میں شریک ایک بڑا اتحاد ”العراقیہ“ جسے امریکا اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے اور جس کی قیادت ایاد علاوی کرتے ہیں، سعودی عرب اور امریکا کا حامی ہے۔ البتہ تین سو پچیس رکنی پارلیمنٹ میں ایاد علاوی کے اتحاد کے پاس صرف 91 نشستیں ہیں جبکہ دوسرے دو بڑے اتحاد جن کی قیادت یکے بعد دیگرے نوری المالکی اور مقتدیٰ صدر کرتے ہیں امریکی افواج کے انخلا کے حامی ہیں۔ عراق میں کیے گئے متعدد عوامی رائے شماری کے جائزوں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ عراقی عوام کی بھاری اکثریت امریکی افواج کو قابض فوجیوں کے طور پر دیکھتی ہے۔ مقتدیٰ صدر کی حامی”مہدی آرمی“ اور امریکی افواج کے مابین کئی ایک فوجی جھڑپیں ہو چکی ہیں جبکہ نوری المالکی کی حکومت کا انحصار مقتدیٰ صدر کی حمایت پر ہے اور مقتدیٰ صدر کسی طور امریکی فوجیوں کی موجودگی کو عراق کی سرزمین پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہو سکتے۔
 اکثر عراقیوں کا کہنا ہے کہ ملک میں امریکی افواج کی موجودگی ان کے قومی وقار کے منافی ہے۔ برطانوی تنظیم ”Opinion Research Business“ کے مطابق 2003ء سے اب تک عراق میں دس لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک اور پچاس لاکھ سے زیادہ بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ جس ملک کے ہر گھر میں امریکی افواج کے داخلے کے بعد کوئی نہ کوئی یتیم بچہ موجود ہو وہ کس طرح سے اس کے باقی رہنے پر راضی ہو سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک ملین انسانوں کو قتل کرنے کے باوجود امریکا عراق میں ناکام اور نامراد رہا ہے۔ اسے بہرحال عراق سے نکلنا ہے، البتہ اس کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ عراق، ایران اور علاقے کے دیگر امریکا مخالف ملک اور قومیں آپس میں زیادہ قریب آ جائیں گی اور خطے سے امریکا اور اس کے پٹھوﺅں کی بساط لپٹنے کا عمل تیز ہو جائے گا۔ پہلے ہی یہ خطہ ایک انقلابی لہر سے گزر رہا ہے۔ ایک اور آزاد جمہوری ملک کے طور پر عراق کا مستحکم ریاست میں بدل جانا بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے حواری اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح امریکی افواج عراق میں باقی رہ جائیں، لیکن تاریخ کا جبر یا تقدیر کا قلم اپنا فیصلہ لکھ چکا ہے۔ امریکی افواج کو عراق سے نکلنا ہی ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 87664
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش