1
0
Saturday 30 Jul 2011 19:27

شکست فاش کی پانچویں سالگرہ

شکست فاش کی پانچویں سالگرہ
 تحریر:محمد علی نقوی
حجاج کرام کے نام پیغام میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے فرمایا تھا آج سے تیس سال پہلے کے برخلاف، صیہونی حکومت کوئي ناقابل شکست طاقت نہیں رہ گئی ہے۔ دو دہائی پہلے کے برخلاف امریکہ اور مغربی حکومتیں، اب مشرق وسطٰی کے سلسلے میں من مانے فیصلے کرنے والی قوتیں نہیں رہ گئی ہیں، دس سال پہلے کے برخلاف آج ایٹمی ٹیکنالوجی اور دوسری پیچیدہ قسم کی ٹیکنالوجیاں علاقے کی مسلمان ملتوں کے لئے دسترسی سے دور کوئی افسانوی چیز شمار نہیں ہوتیں؛ آج ملت فلسطین استقامت کا مظہر ہے۔ ملت لبنان اکیلے ہی صیہونی حکومت کی کھوکھلی ہیبت کو چکنا چور کر دینے والی تینتیس روزہ جنگ کی فاتح ہے۔ خود کو اسلامی علاقے کا کمانڈر سمجھنے والی سامراجی طاقت امریکا اور صیہونی حکومت کی اصل پشت پناہ آج اپنے آپ کو دلدل میں گرفتار پا رہی ہے۔
دسمبر سن 2008ء میں امریکہ کے ایک کیڈٹ کالج نے حزب اللہ کی طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں یہ لکھا تھا کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف جنگ میں عرب ملکوں کی ماضی کاروائيوں سے زياد ہ بہتر کارکردگی دکھائی ہے اور جرائت و بہادری کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے صیہونی حکومت اور امریکہ کے عزائم کو ناکام بنا دیا ہے۔ اس رپورٹ میں امریکی حکام سے 33 روزہ جنگ کا مزید غور سے جائزہ لینے پر بھی زور دیا گیا، تاکہ عبرت حاصل کی جاسکے۔ قابل ذکر ہے کہ امریکی حکام تینتیس روزہ جنگ میں صیہونی حکومت کی ذلت آمیز شکست اور امریکہ کے اپنے تسلط پسندانہ مقاصد کے حصول میں ناکام ہو جانے کی وجہ سے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی گھبراتے تھے۔ فوجی مبصرین اور سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح اس جنگ نے صیہونی حکومت کو سیاسی طوفان سے دوچار کر دیا، اسی طرح اس جنگ کے ذریعے امریکی اہداف کے حصول میں ناکامی کی وجہ سے امریکی حکام کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ اس کے مقابلے میں حزب اللہ لبنان کی کامیابیاں اس قدر واضح تھیں کہ صیہونی حکومت اور امریکہ کے تحقیقاتی حلقے اپنی خواہش کے برخلاف حزب اللہ کی طاقت و صلاحیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے۔
 حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے گزشتہ دنوں 2006ء میں 33 روزہ جنگ میں صیہونی حکومت کی شکست فاش کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر کہا کہ اس جنگ نے صیہونی حکومت کی فوج کو نہایت خطرناک نتائج سے دوچار کیا ہے اور اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ صیہونی فوج کے حوصلے پست ہو چکے ہیں۔ انہوں نے الرایہ اسٹیڈیم میں ویڈیو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی لبنان کے تمام علاقوں حتٰی کہ دیہی علاقوں میں بھی صیہونی فوج کے خلاف استقامت کی گئي اور یہ ایسے عالم میں ہوا کہ لبنانیوں کے گھروں پر بمباری ہو رہی تھی۔ انہوں نے صیہونی حکومت کے دانت کھٹے کر دیئے۔ سید حسن نصراللہ نے صیہونی فوج کی مشقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فوجی مشقیں داخلی سطح پر صیہونی حکومت کی ناتوانی کو ظاہر کرتی ہیں۔ 33 روزہ جنگ میں شکست کے بعد صہیونی فوج کے کمزور پڑنے سے تو کسی کو کوئی انکار نہیں، لیکن صہونی حکومت کے فوجی حکام خفیہ اداروں کی جانب سے اپنی حکومت کو یہ وارننگ دینا کہ وہ لبنان پر دوبارہ جارحیت اور مہم جوئی سے باز رہے خاص معنی رکھتا ہے، اور حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے بھی اپنے خطاب میں اس جانب اشارہ کیا ہے۔
حزب اللہ وہ تنظیم ہے جو صیہونی حکومت کی کسی بھی طرح کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح آمادہ ہے اور ماضی میں وہ اپنے کردار سے یہ واضح کر چکی ہے کہ حملے کی صورت میں صہیونیوں کو ندامت اور پشیمانی کے سوا اور کچھ نصیب نہیں ہو گا۔ یاد رہے اس جنگ میں شکست کے نتیجے میں صیہونی حکومت کی فوج کے کئی اعلٰی عہدیداروں کو استعفی دینا پڑا تھا۔ بہر حال حزب اللہ اس وقت اتنی مضبوط ہے کہ وہ کسی بھی ممکنہ جارحیت کا مقابلہ کرکے دشمن کے دانت کھٹے کر دے اور سید حسن نصراللہ کا تازہ خطاب، جو کسی تنظیم یا پارٹی کے لیڈر سے زیادہ کسی سربراہ مملکت کا خطاب لگتا ہے، حزب اللہ کی طاقت اور توانائی کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ چنانچہ سید حسن نصر اللہ نے ملک کی آبی سرحدوں کے بارے میں صیہونی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ لبنانی تیل اور گيس ذخائر کے خلاف صیہونی حکومت کے کسی بھی اقدام کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جو ہماری تیل اور گيس کی تنصیبات کو نقصان پہنچائے گا، اس کی گيس اور تیل تنصیبات کو بھی نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کہ دشمن جانتا ہے کہ حزب اللہ ماضی کی نسبت زیادہ طاقتور ہو چکی ہے۔
بہر حال امریکہ صہیونی حکومت اور علاقے میں ان کے کچھ پٹھو ممالک کے حکام، فوجی میدان میں حزب اللہ کی طاقت دیکھنے کے بعد اب اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں اور سیاسی و نفسیاتی لحاظ سے حزب اللہ کے حوصلوں کو پست کرنا چاہتے ہیں۔ لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کا معاملہ ایک ایسا مسئلہ کہ جسے حزب اللہ کے سر تھونپنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے اس سازش کو بری طرح سے ناکام بنا دیا ہے اور اس سلسلے میں ان کے دوٹوک موقف کی لبنان کے مختلف سیاسی اور مذہب حلقوں کی جانب سے بھرپور حمایت نے امریکہ نواز دھڑے کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اس سلسلے میں حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ کے موقف کی حمایت میں لبنان کے سابق صدر امیل لحود اور سابق وزیراعظم سلیم الحص نے بیان دیتے ہوئے لبنان میں اتحاد پر تاکید کی ہے۔ 
امیل لحود نے حریری ٹریبیونل کے خلاف سید حسن نصراللہ کے موقف کو دانشمندانہ اور ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سید حسن نصراللہ کے موقف سے ان کی جانب سے لبنان اور حزب اللہ کے اعلٰی قومی مقاصد کے اہتمام کا پتہ چلتا ہے جبکہ سابق وزیراعظم سلیم الحص نے سید حسن نصراللہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو لوگ ماضی میں شیعہ سنی فتنے اور جھڑپیں شروع کروانے میں ناکام رہے تھے، اب حریری ٹریبیونل کے بہانے لبنان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں لیکن لبنانی قوم نے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کا عزم راسخ کر رکھا ہے۔ 
یاد رہے سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں حریری ٹریبیونل کو امریکی صیہونی ٹریبیونل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حزب اللہ کو نفسیاتی جنگ میں شکست دینے کی کوشش کی ہے، انہوں نے کہا کہ حریری ٹریبیونل کی فرد جرم حزب اللہ اور وطن کے لئے لڑنے والوں کے حق میں ظلم عظیم ہے اور جو بھی اس ٹریبیونل کی حمایت کرے گا اس نے ظلم و جبر کی حمایت کی اور حق و عدالت کا انکار کیا ہے۔ بہرحال حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کے حالیہ خطاب نے لبنانیوں کو ایک نیا حوصلہ دیا ہے اور واضح کر دیا کہ حزب اللہ بدستور لبنان کے سیاسی اور دفاعی میدان میں ڈٹی ہوئی ہے اور اسرائیل نے اگر 2006ء کی طرح کوئی حماقت کی تو اس بار اسکی فوجی تنصیبات کے ساتھ ساتھ تیل اور گیس کی تنصبات کو نشانہ بنایا جائیگا۔
بہرحال 33 روزہ جنگ کے تناظر میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا تھا، صیہونی حکومت جو اسلامی ممالک کے قلب میں سرطانی پھوڑے کی مانند موجود ہے، اس سے قبل تک خود کو ناقابل شکست طاقت کے طور پر پیش کرتی آئی تھی اور عالم اسلام میں بھی بہت سے لوگوں کو یقین ہو چلا تھا کہ اسرائیل ناقابل تسخیر ہے، مسلمان نوجوانوں نے اسے زوردار طمانچہ رسید کیا۔ فلسطین کی انتفاضہ تحریکوں کا آغاز ہو گیا اور صیہونی حکومت کے پیکر پر پے در پے وار ہونے لگے۔ وہ پہلی تحریک انتفاضہ ہو یا انتفاضہ اقصٰی، نو سال قبل لبنان سے پسپائی اور شکست ہو یا گزشتہ تینتیس روزہ جنگ، لبنان یا غزہ کے مظلوم عوام کی بائیس روزہ استقامت، یہ سب صیہونی حکومت پر پڑنے والی ضربیں تھیں۔ اب اسرائیل نے "نیل سے فرات تک" کا نعرہ فی الحال ترک کر دیا اور رفتہ رفتہ اسے فراموش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 88279
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

slam, jo onwan lagaya hai, woh ghlat hai, hizbullah tho shikast ke nahi fathi mubin ke salgira mana rahi hy.
ہماری پیشکش